سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا

الف۔ کیا کسی مسلمان کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ب۔ آیا کافر ذمی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ج۔ ایسی جگہ پر جہان انسان کے جھوٹ بولنے سے اس کی، کسی اور کی یا چند مسلمانوں کی جان بچ سکتی ہو، اس کا کیا فریضہ ہے؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور کسی کی جان خطرہ میں پڑ جانے کی صورت میں (اس شخص کے جھوٹ کے سبب) اور اس کے تلف ہو جانے کی حالت میں دیت کس کے ذمہ ہوگی؟

جواب: الف۔ نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ واجب ہے ۔ب۔ کوئی قباحت نہیں ہے ۔ج۔ کسی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اپنی یا کسی دوسرے کی جان بچانے کی خاطر اپنی یا کسی اور کی جان خطرہ میں ڈالنا ضروری نہیں ہے اور اگر اس کی وجہ سے کسی جان خطرہ میں پڑی ہے تو وہ ضامن ہے ۔

دسته‌ها: جهوٹ بولنا

حق ارتفاق

الف۔ آیا موضوع حق ارتفاق جسے دنیا کی شہریت کے قانون میں ایک مستقل بحث کے طور پر ذکر اور بیان کیا گیا ہے، کیا اسلامی فقہ میں بھی یہ ایک مستقل بحث کی حیثیت رکھتا ہے؟ب۔ ایرانی مولفین اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ قانون مدنی کی اکثر مدون بحثیں خاص طور پر حق ارتفاق کی بحث فرانس کے قانون مدنی سے ماخوذ ہیں تو کیا فقہ امامیہ ایک بنیادی منبع کے طور پر قانون مدنی اور حق ارتفاق کے تدوین کے لیے کافی نہیں ہے؟

الف۔ حق ارتفاق جس کا ذکر قانون مدنی میں آیا ہے اس عنوان کے ساتھ اسلامی فقہ میں ذکر نہیں ہوا ہے البتہ اس کا محتوا اور نتیجہ عمومات و اطلاقات ادلہ عقود و شروط میں داخل ہو سکتا ہے اور بعض خاص روایات جیسے قاعدہ لا ضرر و لا ضرار کے باب میں سمرۃ بن جندب کی مشہور حدیث سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اسے رسمیت دی ہے، اس لیے کہ سمرہ ایک ایسے کجھور کے درخت کا مالک ہے جو دوسرے کی زمین میں واقع ہے اور اسے اس مرد انصار کی زمین سے گزر کر اپنے درخت تک جانے کی اجازت تھی لیکن چونکہ وہ اس حق سے غلط فایدہ اٹھانا چاہتا تھا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اس بات کی اجازت نہ دی۔ب۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، بنیادی طور پر یہ حق اسلامی ادلہ عامہ اور خاصہ میں ذکر ہوا ہے مگر اس نام اور عنوان کے ساتھ اس کا ذکر نہیں ہے لہذا ممکن ہے کہ قانون مدنی تدوین کرنے والوں نے یہ نام کہیں اور سے اخذ کیا ہو اور اس کے قانون کو اسلامی ادلہ سے اخذ کیا ہو۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین

زندگی کا بیمہ

الف۔ آج کل کے زمانہ میں جو زندگی کا بیمہ (انشورینس) کیا جاتا ہے جس کے مطابق بیمہ کرانے والا ہر ماہ بیمہ کمپنی کو ایک معینہ رقم ادا کرتا ہے جو اسے بیمہ کی مدت کے اختتام یا اس کے انتقال کی صورت میں یک مشت ادا کر دیا جاتا ہے، آیا بنیادی طور وہ عقد جو بیمہ میں منعقد ہوتا ہے صحیح ہے؟ب۔ بیمہ میں ملنے والا پیسا کیا مرنے والے کے ترکہ مین حساب ہوگا؟

الف :عقد بیمہ صحیح عقود میں شامل ہے، البتہ عقد کی تمام شرایط کی رعایت کرنا ضروری ہے مثلا عقل، بلوغ، اختیار اور قرارداد میں شامل تمام امور کا واضح و روشن ہونا وغیرہ اور ان سب پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.ب: یہ پیسه مرنے والے کے ترکہ میں شامل نہیں ہے لہذا وہ بیمہ کے قانون کے حساب سے حقدار کو ملے گا۔

دسته‌ها: بیمه

منافع اور حقوق کی چوری کرنا

الف:کیا منافع کا چراناشرعی سرقت ہے اور مجازات کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ؟مثلا کوئی کرایہ پر لی ہوئی ٹیکسی کو حرز میں رکھے اور دوسرا اس کو لے جائے اگر ٹیکسی کا مالک عدالت مےں شکایت نہ کرے کیا کراےہ پر گاڑی لینے والا شخص شکایت اور مال مسروقہ کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے؟۔ب: کیا حق کا چرانا سرقت شمار ہوگا اور اموال کی چوری کی طرح یہ بھی مجازات کے قابل ہے؟ مثلا”الف“ ”ب“ سے ایک موبائل فون کرایہ پرلے تاکہ اس سے ایک مہینہ استفادہ کرے اور اس کا دس ہزار تومان کرایہ دے،”ج“اس فائدہ کو ”الف“ سے غصب کرلے یعنی موبائل فون کی چوری کا تو قصد نہیں رکھتا تھا لیکن چاہتا تھا کہ ایک مہینہ تک اس کو استعمال کرے پھر اس کے مالک کو پلٹا دے ،کیا”ج“ کا ےہ عمل،موبائیل کو کرایہ پر لینے والے کے حق کی سرقت شمار ہوگی اور اس کی کوئی سزا بھی ہے ؟

جواب :الف و ب۔ منافع اور حق کی سرقت کو اموال کی سرقت کے احکام شامل نہیں ہوتے، لیکن ےہ عمل قابل تعذیر ہے۔

منافع اور حقوق کی چوری کرنا

الف:کیا منافع کا چراناشرعی سرقت ہے اور مجازات کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ؟مثلا کوئی کرایہ پر لی ہوئی ٹیکسی کو حرز میں رکھے اور دوسرا اس کو لے جائے اگر ٹیکسی کا مالک عدالت مےں شکایت نہ کرے کیا کراےہ پر گاڑی لینے والا شخص شکایت اور مال مسروقہ کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے؟۔ب: کیا حق کا چرانا سرقت شمار ہوگا اور اموال کی چوری کی طرح یہ بھی مجازات کے قابل ہے؟ مثلا”الف“ ”ب“ سے ایک موبائل فون کرایہ پرلے تاکہ اس سے ایک مہینہ استفادہ کرے اور اس کا دس ہزار تومان کرایہ دے،”ج“اس فائدہ کو ”الف“ سے غصب کرلے یعنی موبائل فون کی چوری کا تو قصد نہیں رکھتا تھا لیکن چاہتا تھا کہ ایک مہینہ تک اس کو استعمال کرے پھر اس کے مالک کو پلٹا دے ،کیا”ج“ کا ےہ عمل،موبائیل کو کرایہ پر لینے والے کے حق کی سرقت شمار ہوگی اور اس کی کوئی سزا بھی ہے ؟

جواب :الف و ب۔ منافع اور حق کی سرقت کو اموال کی سرقت کے احکام شامل نہیں ہوتے، لیکن ےہ عمل قابل تعذیر ہے۔

منافع اور حقوق کی چوری کرنا

الف:کیا منافع کا چراناشرعی سرقت ہے اور مجازات کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ؟مثلا کوئی کرایہ پر لی ہوئی ٹیکسی کو حرز میں رکھے اور دوسرا اس کو لے جائے اگر ٹیکسی کا مالک عدالت مےں شکایت نہ کرے کیا کراےہ پر گاڑی لینے والا شخص شکایت اور مال مسروقہ کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے؟۔ب: کیا حق کا چرانا سرقت شمار ہوگا اور اموال کی چوری کی طرح یہ بھی مجازات کے قابل ہے؟ مثلا”الف“ ”ب“ سے ایک موبائل فون کرایہ پرلے تاکہ اس سے ایک مہینہ استفادہ کرے اور اس کا دس ہزار تومان کرایہ دے،”ج“اس فائدہ کو ”الف“ سے غصب کرلے یعنی موبائل فون کی چوری کا تو قصد نہیں رکھتا تھا لیکن چاہتا تھا کہ ایک مہینہ تک اس کو استعمال کرے پھر اس کے مالک کو پلٹا دے ،کیا”ج“ کا ےہ عمل،موبائیل کو کرایہ پر لینے والے کے حق کی سرقت شمار ہوگی اور اس کی کوئی سزا بھی ہے ؟

جواب :الف و ب۔ منافع اور حق کی سرقت کو اموال کی سرقت کے احکام شامل نہیں ہوتے، لیکن ےہ عمل قابل تعذیر ہے۔

دسته‌ها: تعزیرات

زانی کی زانیہ سے شادی ہونے کی صورت میں، حَد (سزا) کا حکم

الف) اگر زنا کار مرد، اس زانیہ لڑکی سے جو باکرہ تھی لیکن زنا کی وجہ سے، حاملہ ہوگئی ہے، نکاح کرلے، کیا اس سے زنا کی سزا ساقط ہوجائے گی یا لڑکی کے ولی کی رضایت حاصل کرنا لازم ہے؟ب) اگر لڑکی کے ولی راضی نہ ہوں اور زانی مرد سے اس لڑکی کا نکاح کرنے لئے تیار نہ ہوں کیادوسرا مرد اس لڑکی سے شادی کرسکتا ہے؟ اس صورت میں حد زنا، کی کیا کیفیت ہے؟

جواب: الف) نکاح کرنے یا ولی کی رضایت لینے سے، حد زنا، ساقط نہیں ہوگی، البتہ یہ مسئلہ اگر حاکم شرع کے سامنے، (گواہوں کے ذریعہ نہیں بلکہ) ان کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجائے، تو حاکم شرع اس کی مصلحتوں کو ملاحظہ کرتے ہوئے، اسے معاف کرسکتا ہےب) کوئی اشکال نہیں ہے، دوسرا مرد اس سے شادی کرسکتا ہے، حد اور سزا کا حکم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے، اور اس کام کے ذریعہ (حد زنا) ساقط نہیں ہوگی

دسته‌ها: زنا کی حد

محارب اور سارق (چور) کے صادق ہونے کے شرائط

الف ۔عصر حاضر میںمحارب اور مفسد فی الارض کے صادق آنے کے کیا شرائط ہیں ؟ اگر کچھ عیسائی بالواسطہ یا بلا واسطہ مسلمانوں کے ساتھ حال جنگ میں ہوں تو کیا ان کے متعلق محارب کے احکام جاری ہوں گے؟ب۔ کیا محارب کے محقق ہونے کے لئے اسلحہ کے ذریعہ صرف دھمکی کافی ہے ، یا قتل یا سرقت بھی لازمی ہے ؟ چنانچہ سرقت لازمی ہو تو کیا نصاب بھی ضروری ہے ؟ج۔ کیا عنوان محاربہ کے تحقق میں مکان(جگہ) بھی دخالت رکھتا ہے ؟ مثلا کیا لازم ہے ارتکابی عمل دار الاسلام میں ہونا چاہئے ، یا غیر دار اسلام میں بھی عنوان محاربہ امکان پذیر ہے؟

جواب: محارب اس کو کہتے ہیں کہ جو اسلحہ کے ذرےعہ لوگوں کو ڈرائے، دھمکائے اور جان، مال اور ناموس کا قصد بھی رکھے اور جامعہ میں ناامنی ایجاد کرے․مفسد فی الارض وہ ہے جو وسےع پیمانہ پر کسی جامعہ میں فساد کا سبب بنے ؛ ہر چند کے بغیر اسلحہ کے ہو ،جیسے منشےات کے سوداگر اور جیسے وہ لوگ جو فحشاء کے اڈوں کا وسیع پیمانہ پر ایجاد کرتے ہیں اگر یہ کام غیر اسلامی ملک میں بھی مسلمان نشین علاقہ میں انجام دیئے جائےں، وہاں بھی محارب کا حکم جاری ہوگا۔

دسته‌ها: محارب کی حد

اللہ کی حدود جاری کرنے والا

افغانستان کے موجودہ حالات میں الله کے احکام اور حدود کے جاری کرنے کی ذمہ داری کن لوگوں کے اوپر ہے؟

ہر وہ عادل مجتہد جو اس علاقہ میں موجود ہے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور مجتہد کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی عادل عالم جو جامع الشرائط مجتہد کی جانب سے نمائندگی گررہا ہو، حدود الٰہی کو جاری کرسکتا ہے

اللہ کی حدود جاری کرنے والا

افغانستان کے موجودہ حالات میں الله کے احکام اور حدود کے جاری کرنے کی ذمہ داری کن لوگوں کے اوپر ہے؟

ہر وہ عادل مجتہد جو اس علاقہ میں موجود ہے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور مجتہد کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی عادل عالم جو جامع الشرائط مجتہد کی جانب سے نمائندگی گررہا ہو، حدود الٰہی کو جاری کرسکتا ہے

دسته‌ها: تعزیرات

اللہ کی حدود جاری کرنے والا

افغانستان کے موجودہ حالات میں الله کے احکام اور حدود کے جاری کرنے کی ذمہ داری کن لوگوں کے اوپر ہے؟

ہر وہ عادل مجتہد جو اس علاقہ میں موجود ہے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور مجتہد کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی عادل عالم جو جامع الشرائط مجتہد کی جانب سے نمائندگی گررہا ہو، حدود الٰہی کو جاری کرسکتا ہے

دسته‌ها: حدود کی قسمیں
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت