اس شخص کی استطاعت جسے ذاتی مکان کی ضرورت ہے
جوشخص ذاتی گھر کا محتاج ہے کیا مستطیع ہو سکتا ہے ؟
جواب :۔ اگر اس کو گھر کی ضرورت ہے تو اس رقم کو گھر کی خریداری میں خرچ کرسکتا ہے اس صورت میں وہ شخص مستطیع نہیں ہوگا ۔
جواب :۔ اگر اس کو گھر کی ضرورت ہے تو اس رقم کو گھر کی خریداری میں خرچ کرسکتا ہے اس صورت میں وہ شخص مستطیع نہیں ہوگا ۔
وہ لوگ آپ سے ملنے آ سکتے ہیں یا آپ ان سے کہیں اور ملاقات کر سکتی ہیں۔ مگر والد کے گھر میں جو ان ذاتی ملکیت ہے ان کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتیں۔
ایک سے لے کر ۵/ تک : اگر ٹریفک پولیس کے متدین اور قابل وثوق ماہرین کی تشخیص کے مطابق مرنے والا ہی خطاوار تھا تو پاؤں کے ٹوٹنے کی دیت اس کے ترکہ سے ادا کریں اور اگر علاج کا ضروری خرچ دیت سے زیادہ ہو تو وہ بھی ادا کریں اور اگر مرنے والے کے پاس کوئی مال نہیں تھا تو آپ کی نسبت اس کے وارثین پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، مفلوج ہونے کی دیت اُس عضو کا ۳/۱ ہوتا ہے لہٰذا اگر ۸۰/ فیصدفلج ہوا ہے ، اسی نسبت سے حساب لگایا جائے گا اور اگر قلج برطرف ہوجائے تو اس کی کوئی دیت نہیں ہے ، بلکہ ارش ہے کہ جو متدین اور آگاہ ماہرین کے ذریعہ معین ہوگا۔
جواب: جبکہ واقعاً اس کی جان کو خطرہ ہو اور بچہ بھی چار مہینے سے کم کا ہو تو سقط جنین جائز ہے اور اس کی دیت بیت المال کو ادا کرے گی ۔
یہ کام حقیقت میں ایک قسم کے جوئے سے مشابہ ہے اور تھوڑا پیچیدہ ہے، افسوس اس کی اصل جڑ مغری دنیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ رقم، محنتانہ طور پر وصول کی جاتی ہے، اور ساتھ لاکھ قرض دیا جاتا ہے جبکہ وہ بھی واپس کمیٹی کی جیب میں چلا جاتا ہے، محنتانہ ان لوگوں کی زحمتوں کا منصفانہ حق ہوتا ہے جو اس ادارے میں کوئی کام انجام دیتے ہیں، جسے اُن کے کام کی مقدار کے مطابق، اجرت کے طور پر انھیں دیا جانا چاہیے اور ایک ہی مرحلہ میں ساٹھ لاکھ تومان کی کثیر رقم کو محنتانہ کا نام دینا ایک قسم کا دھوکہ وفریب ہے، یقیناً آپ حضرات اس ناجائز کام میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں گے ۔
جایز نہیں ہے مگر یہ کہ وہاں کے عہدہ داران اس بات کی اجازت دے دیں۔
یہ سب کچھ، پہلے بیان شدہ، مقدر آزمانے کی قسم کا کام ہے اور شریعت کی رو سے حرام ہے؛ مگر یہ کہ سب کے سب خریدار پہلی قسم کے ہوں، یعنی فقط مدد کرنے کی نیت سے ٹکٹ یا فارم خریدیں، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ سب لوگ اس طرح کے نہیں ہوتے، بلکہ بہت سے قرعہ اندازی میں شریک ہونے کے ارادے سے ٹکٹ یا فارم خریدتے ہیں اور اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ قرعہ اندازی میں انھیں شریک نہیں کیا جائے گا تو راضی نہیں ہوتے اور نیک کاموں میں سے اس آمدنی کو خرچ کرنے سے مسئلہ کی حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی اور اس میں سوالات لکھنے سے بھی یہ مشکل حل نہیں ہوگی، امید ہے کہ غریب ومحتاجوں کی مدد کرنے کے لئے ایسے طریقے اپنائے جائیں جو احکام شرعیہ کے مناسب ہوتے ہیں کہ معاشرے کی مصلحت اور فائدہ اسی میں ہے ۔
اگر واقعاً کوئی مسئلہ اہم اور مہم کی صورت اختیار کرلے اور جھوٹ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے مانند ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن چونکہ ممکن ہے کہ یہ حکم سوء استفادہ کا ذریعہ بن جائے اور خبرنگار کسی نہ کسی بہانے سے جھوٹی خبروں کو منتشر کریں، لہٰذا حتی الامکان اس کام سے پرہیز کیا جائے ۔
دیت نہیں ہے، لیکن اگر پلٹنے کے قابل نہیں ہے تو شرعاً جائز نہیں ہے۔
جواب: اول فرض کریں گے کہ باپ سب سے پہلے مرا ہے، اس کی میراث منجملہ دیت بھی، ماں اور وونوں بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگی، ان میں سے جو حیات ہیں اپنے حصے کو لے لیں گے، وہ دو نفر جو مرگئے (یعنی زوجہ اور اس کا بیٹا) اس کا حصہ ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگا، جن کا ذکر بعد میں کریں گے، پھر ہم فرض کریں گے کہ پہلے بیوی مری ہے، اس کی میراث اور دیت باپ، ماں اور اس کے دو بیٹوں کو پہنچے گی جو ان میں سے زندہ ہیں وہ اپنا حصہ لے لیں گے اور وہ دونوں جو فوت ہوگئے (یعنی شوہر اور پہلا بیٹا) ان کا حصہ ان کے وارثین کو پہنچے گا پھر ہم فرض کریں گے کہ بیٹا سب سے پہلے مرا ہے، اس کی میراث اور دیت فقط اس کے باپ اور ماں کو پہنچے گی اور ان سے گذرکر ان ورثہ کی طرف منتقل ہوجائے گی جن کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا ہے، مسئلہ کی پیچیدگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اگر آپ عمل نہ کرپائیں کسی مقامی عالم دین سے پڑھوائیں اور عمل کریں۔
جواب: احتیاط یہ ہے کہ ڈاکٹر مریض یا اس کے اولیاء سے یہ شرط کر دے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور اگر اس نے یہ شرط نہیں کی تو دیت اسے ہی ادا کرنا پڑے گی۔ (احتیاط کی بناء پر)
جواب:۔ اگرنوبت آنے کے موقعہ پر اس میں بعض شرائط نہیں پائے جاتے تو اس پر حج واجب نہیں ہے ۔
جواب :۔ اگر اس کے والد نے صاحب استطاعت ہونے کے بعد پہلی فرصت میں ، حج کے لئے نام لکھوایاتھا اور حج کرنے سے پہلے ان کا انتقال ہو گیا ہے تو ان کی نیابت واجب نہیں ہے اور فقط اس صورت میںان کی نیابت میں حج بجالاسکتا ہے کہ جب وارث راضی ہوں ، لیکن اگر مرحوم پہلے مستطیع ہو گئے تھے لیکن حج کے لئے نام لکھوانے اور حج کرنے میں کوتاہی کی ہے ، اس صورت میں اس کے لئے میقات سے حج کریں مگر یہ کہ اس نے اپنے شہر سے حج کرنے کی وصیت کی ہو اور اگر قانونی طریقہ سے ان کے بینک کی رسید کو فروخت کرکے اس رقم کے کچھ حصہ سے ، اجرت پر حج کرانے کے لئے اجیر کرنا ممکن ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ ایسا ہی کریں ۔
وہ پسلیاں جو دل کے اطراف میں ہوتی ہیں ان میں سے ہر ایک کی دیت ۲۵/ دینار ہے، ان کے علاوہ ہر ایک کی دیت ۱۰/ دینار ہے۔