سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

اس عورت کے ساتھ عقد اور ہمبستری کرنا جو ۴/ سال سے شوہر سے دور تھی

ایک لڑکی ایک نابینا شخص کے عقد میں آتی ہے، شادی، مشترک زندگی اور شوہر کو تمکین دینے کے تقریباً ۴۵ روز بعد وہ لڑکی شوہر کو چھوڑکر چلی جاتی ہے اور دعوا کرتی ہے کہ اس آدمی نے اس کو دھوکا دیا ہے چونکہ اس نے اپنے بھائی کو جو بینائی کی نعمت سے کاملاً بہرہ مند ہے، عقد کے وقت شوہر کے عنوان سے پہچنوایا تھا! نیز یہ لڑکی ملک کی عدالت عامہ میں متعدد بار فسخ نکاح اور طلاق کا تقاضا کرچکی ہے، عدالت کے ایک کیس میں اس کی جانب سے فریب اور دھوکا دھڑی کے مقدمے کی پیروی ہوئی، لیکن عدالت نے دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کے درمیان دائمی زوجیت کے صحیح اور شرعی ہونے کا حکم صادر کردیا ہے اور اس کے طلاق کے مطالبہ کو بھی شوہر کے امتناع اور بہت سے اشکالات کی وجہ سے رد کردیا ہے۔زوجہ تقریباً ۴ سال کی مدت گذرجانے کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کرلیتی ہے اور زنا کی مرتکب ہوجاتی ہے، زانی میں بھی احصان کے شرائط موجود تھے ، انجام شدہ تحقیقات کے مطابق زانی شخص اس عورت (زانیہ) کے حالات سے باخبر تھا، کیا مذگورہ عورت غیر محصنہ ہونے کے لحاظ سے (شوہر سے ۴سال کی دوری البتہ اپنے اختیار سے) زناء غیر محصنہ کی حد کی مستحق ہے؟ کیا مرد کی مذکورہ وضعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ رجم کی حد کا مستحق ہوگا؟ یاشبہہ کا لحاظ رکھتے ہوئے رجم کی حد سے بری ہوجائے گا؟ کیا آخری صورت میں لگے کوڑوں کی سزا یا تعذیر اس کے اوپر جاری ہوگی؟

جواب: فرض مسئلہ میں ، عورت پر شوہر سے ایسی جدائی کی خاطر محصنہ ہونے کے احکام جاری نہیں ہونگے ، ایسے ہی مرد بھی چونکہ وہ عقد نکاح سے متمسک ہوا ہے اور یہ خود شبہہ کی دلیلوں میں سے ایک ہے، محصن ہونے کا حکم اس کو شامل نہیں ہوگا، لیکن دونوں مسئلہ کے حکم کے دریافت کرنے میں مقصر اور ممنوعہ عمل کے مرتکب ہونے کی وجہ سے تعذیر کے مستحق ہیں۔

دسته‌ها: زنا کی حد

اہل بیت علیہم السلام کے فضائل ومصائب بیان کرنے کے لئے اجرت طے کرنا

عزادار اور ماتمی دستہ کے پیچھے، خواتین کا نامناسب حالت میں چلنا جو بعض گناہوں کا باعث ہوتا ہے، اس کی کیا صورت ہے؟ نیز حضور، خواتین کے لئے عزاداری کاکیا طریقہ تجویز فرماتے ہیں؟

خامس آل عبا امام حسین علیہ السلام اور دیگر تمام معصومین علیہم السلام کی عزاداری الله کے قریب ہونے کے لئے افضل ترین عمل ہے؛ لیکن خواتین اور مرد حضرات ایسا برتاؤ کریںکہ شریعت کے خلاف کام سے آمیختہ نہ ہو ۔

دسته‌ها: عزاداری

مقر کا غیر معین مقر لہ کے لیئے اقرار کا حکم

مردّد شخص کے لئے اقرا رکے آثار (نتائج) بیان فرمائیں:الف) کیا ایسا اقرار صحیح ہے؟ب) صحیح ہونے کی صورت میں مقرّلہ کا معین کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور یہ کیسے انجام پائے گا؟ج) اقرار کے معین ہونے کے بعد مقرّ یا مقرلہ یا مخاطبین کے درمیان اختلاف کی صورت میں کیا حکم ہے؟د) اگر کوئی اور شخص مقرّلہ ہونے کا ادعا کرے، اس کا ادّعا کیا اثر رکھتا ہے؟ کیا اس صورت میں مقرّلہ پر عنوان مدّعی، وطرف دیگر پر عنوان منکر صادق آتا ہے، نتیجةً کیا یہاں پر مخاصمہ (مقدمہ) کی صورت پیدا ہوجائے گی؟ھ) اگر مقرّلہ کے علاوہ مقرّبہ بھی مردّد ومبہم ہو، تو کیا نتیجہ نکلتا ہے؟و) اگر مقرّ، مقرّلہ کے معین کرنے سے خودداری کرے یالاعلمی کا اظہار کرے اور وہ دونو ں (یعنی مردّد اشخاص ) اس کی تصدیق کریں تو کیا تعیّن لازمی ہوجائے گا، یا یہاں پر کوئی اور حکم ہے؟ز) اگر مقرّ معین کرنے سے خودداری کرے یا لاعلمی کا اظہار کرے، وہ دونوں یا ان میں سے ایک مقرّ کے عالم ہونے کا ادعا کریں، کیاقسم کے ذریعہ مقرّ کا ادّعا قبول کیا جاسکتا ہے؟۔ح) کیا اقرار کے لئے مخاطبین کی تصدیق یا عدم تصدیق ، مقرّ کی لاعلمی کے اظہار کی بہ نسبت کوئی اثر رکھتی ہے؟

جواب: مبہم شخص کے لئے اقرار کرنا جائز ہے ، لیکن حاکم شرع ،مقرّ کو مُلزَم (مجبور) کرے گا کہ اپنے اقرار کے لئے مناسب تشریح بیان کرے، تشریح سے امتناع کی صورت میں حاکم شرع اس کو قید یا تعزیر کرسکتا ہے، بہرحال اس کے اقرار کی قدر متیقّن حجت ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کیا جاسکتا ہے، مگر قسم کے حکم کا اجراء ان جیسے موارد کے لئے مشکل ہے۔

دسته‌ها: اقرار کے احکام

شکار کئے ہوئے حیوانات کا گوشت کھانا

جیسا کہ حضور کے علم میں ہے کہ حال حاضر میں شکار کرنا ملک کے بعض علاقوں جیسے شمال کے حصّے دریائے جنوب کے مضافات کے علاوہ روزی حاصل کرنے کے لئے نہیں رہ گیا ہے اور تقریباً اکثر جو شکار ہوتے ہیں ان کو مالدار کرنے متمول افراد تفریح، فنکاری اور خوشگذرانی کے طور پر کرتے ہیں، مذکورہ فرض کے تحت وحشی جانوروں کے شکار کرنے کا حکم شرعی کیا ہے؟

اگر زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے یا آمدنی اور کام کی غرض سے قوانین وضوابط کے تحت شکار کیا جائے تو شرعاً جائز ہے لیکن اگر تفریح اور خوشگذرانی کے لئے ہو۔ ہرچند کہ اس کے گوشت کو استعمال کیا جائے ۔ شرعاً حرام ہے، لہٰذا اس طرح کے سفر میں حرام سفر ہونے کی وجہ سے نماز وروزہ قصر نہیں ہوگا ۔

دسته‌ها: شکار

بیٹے کے قتل کے مورد میںماں باپ کی سزاؤں میں فرق کی وجہ

بہت سے فقہاء فرماتے ہیں : ”باپ کا بیٹے کو قتل کرنے کی وجہ سے قصاص نہیں کیا جائے گا لیکن ماں کو قصاص کیا جائے گا“ اس فرق کی دلیل کیا ہے؟

جواب : اس حکم میں باپ اور ماں کے درمیان فرق کی عمدہ دلیل وہ بہت ساری روایات ہیں جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ان میں بہت سی روایات میں کلمہ”رجل“ یا ”اب“ ہے جالب نظر، یہ ہے کہ کلمہ”رجل“ یا ”اب“ راوی کے سوال میں ہی نہیں ہے تاکہ کہہ سکیں کہ راوی نے اپنے محل ابتلاء کے متعلق سوال کیا تھا، بلکہ یہ امام (ع)کے کلام میں بھی موجود ہے، جو اس فرق پر بہترین دلیل ہے اور یقینا ”رجل“ یا ”اب“ کو مفہوم اعم پر حمل کرنا بہ حسب متفاہم عرب ممکن نہیں ہے اور ”والد“ کا ظہور بھی یہی معنی رکھتا ہے، مفہوم اعم پر حمل کرنا بہت مشکل نیز فقہی موازین سے بھی سازگاری نہیں رکھتا، اس کے علاوہ یہ مسئلہ تقریباً اجماعی ہے ان تمام روایات اور اقوال کے باوجود اس کی مخالفت کرنا ذوقِ فقہی سے سازگاری نہیں رکھتااور یہاں پر قاعدہٴ ”درء“ سے متمسک ہونا بہت زیادہ مشکل ہے؛ اس لئے کہ قانون قصاص کی عمومیت، متعدد آیات وروایات سے استفادہ ہوتی ہے اور اس حکم سے استثنا کرنے لئے ایک محکم دلیل درکار ہے کہ جو یہاں پر موجود نہیں ہے، ضمناً اس فرق کا فلسفہ نسبتاً روشن ہے جو اہل تحقیق قارئین کے اوپر پوشیدہ نہیں ہے، بہتر تھا کہ اس امتیاز کو باپ سے چھین نے کی کوئی فکر کرتے نہ یہ کہ اس امتیاز کو ماں کو بخشنے کی فکر میں لگے ہیں۔

دسته‌ها: قصاص کے احکام

اذان کے جزء کی نیت سے اشہد ان علیا ولی اللہ کہنا

کیا ”اشہد انّ علیاً ولی اللہ “کااذان میں کہنا بدعت ہے ؟

جواب:۔ بدعت وقت ہے جب اذان کے جزء کے قصد سے کہے، اور اگر اس مقصد سے نہ ہوتو بدعت نہیں اور کوئی حرج بھی نہیں ہے اور شیعہ حضرات اس قصد سے نہیں کہتے ہیں ۔

زنا کی حد کے مورد میں قانون دفعہ ۶۶، اور ۶۳ کی وضاحت

اسلامی قانون کے دفعہ کے ۶۳ میں اس طرح آیا ہے : ”زنا عبار ت ہے مرد کا اس عورت کے ساتھ جماع کرنا جو اس پر ذاتاً حرام ہے“ کبھی کبھی اس جملے سے یہ استفادہ ہوتا ہے: چنانچہ عورت اور مرد کے درمیان ازدواجی تعلقات ذاتاً حرام نہ ہوں تو یہ زنا حرمت نہیں رکھتا اور جب حرمت نہیں ہوگی تو سنگسار یاکوڑے لگانا ان کے شامل حال نہیں ہوگا“ اسی قانون کی دفعہ ۶۶ میں اس طرح آیا ہے: ”جب کوئی عورت اور مرد مجامعت کے بعد ناآگاہی اور اشتباہ کا دعوا کریں اور مدعی کے سچا ہونے کا احتمال دیا جاسکے، اس صورت میں مذکورہ دعویٰ بغیر قسم کے قبول اور حد ساقط ہوجائے گی“ آخری جملوں کا مفہوم مخالف یہ ہوگا ”اس صورت میں جب مدعی کی سچائی کا احتمال نہ دیا جاسکے، مدعی اس بات پر قسم کھاکر کہ وہ بھول اور لا علمی کا شکار ہوا ہے، اپنے آپ کو حد کے اجرا سے نجات دے سکتا ہے“ کیا وہ ”کلمات جو مادّہ اخیر میں آئے جیسے“ اشتباہ وناآگاہی“ ان کلمات سے اشتباہ حکمی اور اشتباہ موضوعی دونوں مراد ہیں یا فقط اشتباہ موضوعی مقصود ہے؟ بقیہ مذکورہ موارد کو بھی واضح فرمائیں۔

جواب: ”ذاتاً حرام ہے“ اس جملے سے مقصود اس مورد کو خارج کرنا ہے جو بالعرض حرام ہو، مثلاً عورت حیض کی حالت میں، یا رمضان المبارک کے دنوں میں حرام ہوجاتی ہے، یہ حرمت ذاتی نہیں ہے، لہٰذا اس کے ساتھ ہمبستری زنا میں شمار نہیں ہوگی؛ لیکن اگر آپس میں عقد نکاح نہ پڑھا ہو تو ذاتاً حرام ہے لیکن ”بغیر شاہد اور قسم․․․“ کے جملے سے منظور ، اشتباہ کا دعویٰ کافی ہے اور اس کو قسم پر آمادہ کرنا لازم نہیں ہے اور اگر صدق کا احتمال موجود نہ ہو تو قسم بے فائدہ ہے، اشتباہ اور غلطی کا دعویٰ چاہے حکم کے اعتبار سے ہو یا موضوع کی حیثیت سے برابر ہے۔

دسته‌ها: زنا کی حد

گرنیٹ(دستی بم) کے دغنے کی وجہ سے بچوں کا مرجانا

ایک گرنیٹ(دستی بم) معلوم نہیں کہاں سے آیا کون لایا، ایک بچہ کے ہاتھ میں دغ جاتا ہے، اس کے دغنے کی وجہ سے دوبچے مرجاتے ہیں، اب اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ان کے وارثین دم میں سے ہر ایک، ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا بیٹا بم لایا تھا تو اس صورت میں کیا تکلیف ہے ؟ کیا عاقلہ کی(مقتولین کے وارثین )مقتولین کے صغیر ہونے کی وجہ سے اس حادثہ کے ذمہ دار ہیں؟ اور بالفرض اگر کوئی ایک بھی ملزم نہ ہو تو دےت کی کیا تکلیف ہوگی؟

جواب: اس مسئلہ کی چند صورتیں ہیں: پہلی یہ کہ ان دونوں بچوں میں ایک قتل کا سبب ہے لیکن پہچانا نہیں گیا ہے ، اس صورت میں ایک انسان کی دیت طرفین کے عاقلہ پر تقسیم ہوگی اور ایک عاقلہ سے لے کر دوسرے عاقلہ کو دی جائے گی اور دوسرے عاقلہ سے لیکے پہلے عاقلہ کو، دوسری صورت یہ ہے کہ یہ حادثہ اتفاقا وجود میں آیا ہو اوران میں سے کوئی ایک بھی عامل نہ ہو، اس صورت میں کوئی دےت نہیں ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ تیسرا شخص اس حادثہ کا سبب تھا، اس صورت میںدیت بیت المال سے لی جائے گی۔

دسته‌ها: نفس کی دیت
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت