گمان اور آئڈیے کی بنیاد پر خبروں کو نشر کرنا
کیا گمان اور ایڈیے کو خبر اور نظر کے عنوان سے منشتر کرسکتے ہیں؟
جب اس میں یہ قید لگائیں کہ یہ خبر گمان اور احتمال کی صورت میں ہے اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
جب اس میں یہ قید لگائیں کہ یہ خبر گمان اور احتمال کی صورت میں ہے اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
یہ خرچ اگر اسراف کی حد تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ کے فرض میں، جبراً اور زور زبردستی والے زنا کا حکم جو سزائے موت ہے، عورت کے بارے میں جاری نہیں ہوگا، فقط اس کی حد (سزا) جاری ہوگی (سنگسار یا کوڑے جیسا مورد ہوگا ویسی ہی سزا دی جائے گی
جواب : اس ” احتیاط واجب “ سے مراد یہ ہے کہ مجتہد نے اپنا فتوا صریح طور پر نہیں دیا ہے اس صورت میں مقلد کواختیار ہے چاہے تو احتیاط کرے یا کسی دوسرے مجتہد کے فتوا کی طر ف رجوع کرے لیکن یہ ” احتیاط مستحب “ ایسا نہیں ہے آپ چاہیں تو اس پر عمل کریں ورنہ اس کو چھوڑ سکتے ہیں ۔
اسے چاہیے کہ توبہ کرے اور نیک کاموں سے اس طرح کے کاموں کا ازالہ کرے۔
اس طرح کے الفاظ اور تعبیرات کا استعمال اھل بیت (ع) کے ماننے والوں کے شایان شان نہیں ہے، ایسے لوگوں کو سمچھایا اور اس طرح کے کاموں سے روکا جائے۔ اھل بیت (ع) کی منزلت بیان کرنے کے اور بھی بہت سے معقول اور مناسب ذرایع موجود ہیں لہذا اس طرح کے باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔
جائز ہے اور کوئی بھی حرام ہونے کا قائل نہیں ہے ۔
جواب:۔جب یقین رہا ہو کہ انزال نہیں ہوگا تو بعید نہیں ہے کہ اُن کا بچّہ ، شبہ کے بچّہ (وطی شبہ) کے بچہ کی طرح ہو، اور اگر انزال ہونے کا امکان و احتمال دیا تھا، تو اشکال سے خالی نہیں ہے، رہا مہرِ-- مثل تو اس سلسلے میں اگر عورت اپنی مرضی اور خواہش سے تیار ہوگئی تھی اور اس کو اس بات کا امکان بھی تھا تو مہرِ مثل نہیں رکھتی لیکن اگر اس کی نظر میں اس بات کا امکان نہیں تھا اور تفخیذ (رانوں میں) کرانے کے علاوہ (کسی دوسری چیز پر) راضی نہیں تھی تو اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کو مہر مثل دیا جائے
مسجد کے متولی کا وظیفہ ہے کہ اگر مسجد کے موقوفات وغیرہ ہوں تو ان کی حفاظت کرے اور ان کو مسجد کے کاموں میں خرچ کرے اور باقی کام نمازیوں سے مربوط ہیں ۔
اگر اس کام کو نامحرم انجام نہ دیں تو کوئی مانع نہیں ہے ۔
حرام نہیں ہے؛ لیکن کوشش کریں کہ ایسا اتفاق نہ ہو۔
اگر پیسہ دینے والے اپنی مرضی سے انعام کے طور پر ان کوکچھ دے دیں تو کوئی ممانعت نہیں ہے۔
اگر یقین ہو کہ وہ آپ کی مزدوری حرام پیسے سے دیتا ہے تو جائز نہیں ہے۔
اگر نیا کام اس کے پہلے کام کے لئے مزاحمت کا سبب نہ ہو اور اس کے معاہدہ کے خلاف بھی نہ ہو تواس کے لئے دونوں تنخواہیں حلال ہیں۔
اگر مذکورہ یونین ایک رسمی اور قانونی یونین ہو تو اس کی معیّن کردہ قیمت کے مطابق عمل کیا جائے۔