۔زنا کرنے پر مجبور کرنا
چنانچہ کوئی شخص کسی مرد اور عورت کو زنا کرنے پر مجبور کرے تو اس شخص کا کیا حکم ہے؟
اس کو شدّت سے تعزیر کیا جائے گا ۔
اس کو شدّت سے تعزیر کیا جائے گا ۔
جواب: کوئی حرج نہیں ، غسل کرسکتی ہے ، غسل جنابت کرنے سے جنابت سے وہ پاک ہوجائے گی ، نیز مستحبی غسل بھی کرسکتی ہے ۔
جواب: جب تک مجبورنہ ہو خون آلودہ لعاب دہن کو حلق سے نہ اتارے، مجبوری اور حرجی صورت میں کوئی مانع نہیں ہے۔
اس طرح کا خیار شرط صحیح نہیں ہے، لیکن اگر بیعانہ کرتے وقت وہ شخص مغبون تھا تو خیار غبن کو استعمال کرسکتا ہے ۔
زوجہ کا قصاص میں کوئی سہم(حصہ) نہیں ہے لیکن اگر دیت میں تبدیل ہوجائے تو حصہ کی حقدار ہے۔
چنانچہ قاضی کو اس طرح کے امور میں اجازت اور عام معمولی طریقہ سے اُسے اس طرح کے کاموں اور برائیوں کے بارے میں، معلومات حاصل ہوجائے تو انھیں تعزیر اور اپنی صواب دید کے مطابق سزا دینا لازم ہے لیکن اگر اس طرح کے اقدامات دیگر فساد وگناہ کا باعث ہوجائیں تب اس صورت میں پردہ پوشی ضروری ہے اور اگر انھیں بلاکر، دھمکانے ڈپٹنے، راہنمائی کرنے اور ان لوگوں سے ان کاموں سے باز آنے کا وعدہ لینے سے مقصد حال ہوجائے تو اسی مقدار پر اکتفا کی جائے ۔
اگر علاقے کے ماہرین کی نظر میں یہ چیز عیب شمار ہوتی ہو، اوروہ اس کے عوض قیمت کے قائل ہوں تو خریدار حضرات اس عیب کے برابر قیمت واپس لے سکتے ہیں ۔
اس کا جواب گذشتہ مسئلہ کی طرح ہے ۔
فقہ کے ”قصاص کے باب“ میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ اگر کٹے ہوئے کان کو دوبارہ اس کی پہلی جگہ جوڑدیا جائے اور وہ جُڑ بھی جائے، تو مجنی علیہ (جس کا اس نے کان کاٹا یا نقصان پہنچایا تھا) دوبارہ کاٹ سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس کے جیسا ہوجائے، اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہوئی ہے جس کی سند، معتبر ہے یا کم از کم علماء شیعہ نے اس کے مطابق عمل کیا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات سے صزف نظر کرتے ہوئے اور باب حدود میں بھی اس کو سرایت دیتے ہوئے (مذکورہ حکم) مشکل ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنے والی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا جائز نہیں ہے، خصوصاً یہ کہ علل وعیون میں امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے: ”وعلّة قطع الیمین من السارق لانّہ تباشر الاشیاء (غالباً) بیمینہ وھی افضل اعضائہ واٴنفعُھا لَہُ فجعل قطعھا نکالاً وعبرة للخلقِ لئِلّا تبتغوا اٴخذ الاموال من غیر حلّھا ولِانّہ اکثر ما یباشر السرقة بیمینہ“ اور یہ مطلب دوبارہ ہاتھ جُڑوانے سے، مناسب اور سازگار نہیں ہے، دوسری حدیث میں آیا ہے: ”عن النّبی صلی الله علیہ وآلہ: اِنّہ اٴتیٰ بسارق فَاٴَمرَ بہ فقطعت یدہ ثمّ علقت فی رقبتہ“ ۱.۱۔ جواہر، ج۴۱، ص۵۴۲؛ سنن بیہقی، ج۸، ص۲۷۵.
انسان جس قدر بھی خدا کی بندگی، تقوا اور پرہیزگاری اور خودسازی کے راستے کو طے کرے گا تو اتنی ہی اس کی حقیقت بین آنکھیں کھلتی ہیںچلی جائیں گی، اور ایسی ایسی چیز حاصل کرلے گا جو عام انسانوں کے لئے ممکن نہیں ہیں ۔
جواب الف: اپنے دعوے کو شرعی طریقے سے ثابت نہ کرنے کی صورت میں قصاص کیا جائے گا۔جواب ب: اگر دفاع کرتے ہوئے ، حملہ آور شخص کو قتل کرنے کے علاوہ اس سے محفوظ رہنے کا کوئی اور راستہ ہو تو یہ کام اس کے لئے جائز ہے؛ لیکن اگر بعد میں اس مطلب کو ثابت نہ کرپائے تو قصاص کیا جائے گا۔جواب ج: مفروضہ سوال کی بنیاد پر فقط دیت ہے۔
یہ سب کام ، شریعت کے خلاف ہیں اور تعزیر کا باعث ہیں ۔
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
بہرحال یہ عیب شمار ہوگی ۔
معیار وہ راستہ ہے جس کو اکثر لوگ استعمال کرتے ہیں ۔