قتل عمد میں حقِ قصاص کا مالک
قتل عمد میں حق ِ قصاص کا مالک کون ہے؟ مجنی علیہ (مقتول) یا اولیاء دم (وارثین)
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
صبر کی مصلحت کی صورت میں صبر کرنا چاہیے اور قاتل کو ، ضمانت لے کر اور بچوں کی کفالت کی شرط پر آزاد کردیں تاکہ بچے بڑے ہوکر خود فیصلہ کریں اور اگر ولی مصلحت دیکھے (کہ غالباً مصلحت اسی میں ہے) تو دیت لے لے۔
کوئی فرق نہیں کرتا؛ لیکن صغیر کی مصلحت کو مدنظر رکھنا چاہیے اور صغیر کی مصلحتغالباً دیت لینے میں ہے۔
حاکم شرع اولیاء دم کو حاضر کرے گا اور ان کو اسلام کی دعوت دے گا، اگر قبول کرلیا تو قاتل کا اختیار ان کے سپرد کردے گا کہ وہ قصاص کریں یا دیت لے لیں اور اگر اسلام کو قبول نہ کریں تو حاکم شرع دیت لے گا اور بیت المال کو دے دےگا۔
اس جیسے موارد میں حاکم شرع، صغیر کا ولی ہے اور وہ ہی احقاق حق کرے گا۔
صبر کریں تاکہ دسترسی حاصل ہوجائے؛ لیکن چنانچہ وقت طولانی ہو تو قاتل کو وثیقہ اور کفالت کافی لینے کے بعد آزاد کردیں
اگر ان کی مصلحت دیت لینے میں ہو اور قاتل بھی دیت دینے پر راضی ہو تو دیت لینا چاہیے اور اگر ان کی مصلحت قصاص میں ہو تو ولی دم (وارث) قصاص کرسکتا ہے اور ابہام کی صورت میں قاتل کو معتبر وثیقہ لے کر آزاد کردیں تاکہ بچے بڑے ہوکر خود فیصلہ کریں۔
ولی امر عفو کا حق نہیں رکھتا ؛ بلکہ یا تو قصاص کرے یا دیت لے لے (جو بھی مسلمین کی مصلحت میں ہو)
غالباً دیت لینا صغار کی مصلحت میں ہوتا ہے؛ لیکن بہت ہی نادر جگہیں ایسی ہےں کہ عفو یاقصاص صغار کی مصلحت میں ہو۔دونوں کو چاہیے کہ صغیر کی مصلحت کو مدنظر رکھیں۔
اس طرح کے مورد میں صغیر کی مصلحت دیت لینے میں ہے؛ جتنی مقدار پر بھی مجرم راضی ہوجائے۔
قصاص کو قاتل کی رضایت سے ہر چیز سے بدلا جاسکتا ہے لیکن انصاف کی رعایت کرنا ہر حال میں اچھا ہے۔