سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

موطوہٴ جانور کا ضامن

زید نے کئی سال پہلے ، عمر کے جانور کے ساتھ ناجائز فعل انجام دیا ہے ، جانور کے مالک نے اس جانور کو فروخت کر دیا، اورا سکی قیمت و صول کر کے خرچ کر دی ، اور معلوم نہیں کہ وہ جانور کہاں ہے ، مر گیا ہے یا زندہ ہے ، اب زمانہ گذرنے کے بعد متوجہ ہو ا ہے اور توبہ کرنا چاہتاہے اور سوال کرتاہے: الف)کیا اس جانور کی قیمت کا ضامن ہے جو اس کے مالک یا مالک کے وارثوں کو ادا کرے ؟ ب)کیا زید کے بالغ ہونے یا بالغ نہ ہونے اور منی کے انزال ہونے یا نہ ہونے کا حکم پر کوئی فرق پڑتاہے یا نہیں ؟ ج)اگر بالغ ہونے میں شک ہو کہ بالغ تھا یا نہیں تو کیا وظیفہ ہے ؟ د)ضامن ہونے کی صورت میں ، اس حیوان کا رائج حلال گوشت ہونے کا مثلاً بھیڑ بکری ہونے یا غیر رائج حلال گوشت ہونے کا جیسے گھوڑا ، گدھا وغیرہ اس کے حکم میں کیا کوئی فرق ہے یا کوئی فرق نہیں ہے ؟ ھ)قیمت کی ادائیگی کے واجب ہونے کی صورت میں ، کیا رقم کے عنوان کا اظہار کرنا بھی لازم ہے چونکہ ممکن ہے ، اظہار کرنا باعث فساد یا شرمندگی ہو؟ جواب ۔الف)ضامن ہے اور اس کو چاہیئے کہ اس کی قیمت ضرور ادا کرے۔ ب)اگر بالغ اور مکلف نہ ہو تب یہ حکم اس کے بارے میں جاری نہیں ہوگا۔ ج)بالغ ہونے میں شک کی صورت میں ،بالغ کا حکم لگایا جائے گا۔ د)دونوں صورتوں میں اس کی قیمت اس کے مالک کو دے لیکن دوسری صورت میں اگرجانور مل جائے تو اس کو دوسرے شہر لے جائیں اور فروخت کردیں اس کی قیمت فاعل کی ہوگی۔ ھ)اعلان کرنا (یعنی یہ بتانا کہ کس عنوان سے یہ رقم دے رہا ہے )لازم نہیں ہے ۔

جواب: اگر یہ احتمال دیا جائے کہ یہ غذائیں ، کار خانوں یا آلات یادستانہ کے ذریعہ بنائے گئے ہیں تو کوئی اشکال نہیں ہے ، لیکن جب یقین ہو جائے کہ ان کے ہاتھ یا ان کے جسم کا مرطوب حصہ اس کھانے سے مس ہو گیا ہے تو اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ ضرورت کے موقعوں کے علاوہ اس سے پرہیز کرے لیکن ضرورت کے موقعوں پر جیسے غیر اسلامی ممالک میں سفر کے دوران ،اور سفر میں ان غذائوں سے پرہیز کرنا مشکل ہو تواس صورت میں پرہیز نہ کریں۔

اگر شہید کے وارث ، اس کے باپ اور بیوی ہو

میرے بھائی، ١٢سال پہلے جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے، اس زمانے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شہید ہوگئے یا اسیر ہوئے ہیں، لیکن اب بارہ سال کے بعد ان کی شہادت مسلّم طور پر ثابت ہوگئی ہے اس شہید کی ایک بیوہ ہے لیکن بچہ کوئی نہیں ہے، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) اس شہید کی تنخواہ، بارہ سال کے عرصہ میں بطور کامل اور یکبارگی، ان کی بیوی کے ذریعہ وصول اور خرچ ہوئی ہے، کیا مذکورہ تنخواہ کی مکمل رقم، شہید کی زوجہ کا حق ہے، یا اس میں سے میراث کے عنوان سے، شہید کے والدین اور بہن بھائیوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟ب) اب جبکہ اُن کی شہادت یقینی طور پر ثابت ہوگئی ہے، ادارے کی جانب سے جس میں وہ کام کرتے تھے، کچھ رقم دی جارہی ہے، یہ رقم کس سے متعلق ہے یعنی یہ رقم کس شخص کی ہوگی؟ج) یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ سن ١٣٦١ شمسی میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کی اطلاع سن ١٣٧٢شمسی میں ملی ہے جبکہ اُن کے والدین ٦٦ میں مرحوم ہوگئے ہیں، کیا شہید اپنے والد کی میراث لیں گے یا والد کو شہید کی میراث ملے گی؟د) شہادت کے ثابت ہونے سے دوسال پہلے ان کی زوجہ نے 'بنیاد شہید'' نامی ادارے سے، طلاق کا تقاضا کیا تھا اور ادارے کے مدیر نے قوانین کے مطابق اس کو شرعی طلاق دے دی تھی، کیا اس صورت میں یہ زوجہ، اس شہید کی میراث لے گی؟ کیا اس رقم میں سے جو ادارے نے، دیت وغیرہ کے عنوان سے دی ہے، زوجہ کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور کیا اس دو سال کی مدّت میں، شہید کی تنخواہ لے کر خرچ کرنے کا حق رکھتی تھی یا نہیں؟

جواب: اس کی تنخواہ اس کی بیوی سے متعلق تھی، یعنی اس کی زوجہ کا حق ہے ۔جواب: تمام وارثوں سے مربوط ہے مگر یہ کہ وہ ادارہ مذکورہ رقم کے لئے کوئی خاص مصرف معین کرے ۔جواب: والد کو ان کے مال سے میراث ملے گی، لیکن حکومت سے جو رقم دی گئی ہے اس میں سے انھیں (والد کو) میراث نہیں ملے گی ۔جواب: چنانچہ حکومت یہ جان کر کہ طلاق ہوگئی ہے، اُسے تنخواہ دیتی تھی تب تو لینا جائز ہے لیکن اگر اس شرط پر تنخواہ دیتی کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، تب مذکورہ رقم وصول کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا لیکن بہرحال شہید کے مال سے میراث وصول کرے گی اور اسی طرح اس کی دیت کی رقم سے میراث لے گی ۔

نویں ربیع الاوّل کو بُرے کاموں کا انجام دینا

شیعہ حضرات نویں ربیع الاوّل کو جشن وسرور کی رسومات انجام دیتے ہیں، بہت سے لوگ ان رسومات میں رکیک باتیں یہاں تک کہ وہ باتیں بھی بولتے ہیں جن کو وہ خود خلاف شرع سمجھتے ہیں ؛ کبھی کبھی تو مرد عورتوں کا لباس پہنتے اور اُنھیں کی اداکاری کرتے ہیں! اور جب ان کو اس بات سے منع کیا جاتا ہے تو ”رفع القلم“ کی حدیث کو دلیل بناکر پیش کرتے اور کہتے ہیں کہ اس روایت کے مطابق مذکورہ اعمال میں کوئی اشکال نہیں ہے، کیا یہ عمل جائز اور اہل بیت عصمت وطہارت کی رضا کا سبب ہیں؟ عدم جواز کی صورت میں حدیث ”رفع القلم“کی کس طرح توجیہ کی جائے گی ۔

اوّلاً: ان مخصوص ایّام میں کوئی روایت رفع القلم کے عنوان سے معتبر کتابوں میں موجود نہیں ہے ۔دوسرے :یہ کہ اگر ایسی روایت ہو بھی (جب کہ نہیں ہے) تو کتاب (قرآن مجید) وسنت کے مخالف ہے، اور ایسی روایت قبول کرنے قابل نہیں ہے اور حرام اور گناہ کسی بھی زمانے میں جائز نہیں ہے، ایسے ہی رکیک باتیں اور دوسرے بُرے کام بھی ۔تیسرے: یہ کہ تولّیٰ اور تبّرا کے اور دوسرے راستے ہیں نہ یہ خلاف شرع راستے ۔

دسته‌ها: عقاید

لوگوں کی جانب سے رفاہ عام کےلئے کی گئی امداد کے انعامات تقسیم کرنا

قیدیوں کی حمایت کے لئے بنائی گئی ایک انجمن، خصوصاً قیدیوں کے گھرانوں کے سلسلہ میں، وسیع پیمانہ پر فعّالیت کرتی ہے، اس انجمن کی کارکردگی، تعلیم ، تربیت، اصلاح، رہنمائی، ہدایت، ان کی سرپرستی، نگہداشت، مکان کے لئے مدد، مکان کا کرایہ ، زندگی کا سازوسامان، علاج معالجہ، رہائی کے بعد دیکھ بھال، کام دلانا، کام کے مواقع فراہم کرنا، یا مالی مدد کرنا،تہذیب وتعلیمی کاموں پر تشویق کرنا اور ترغیب دلانا اور اسی طرح کے دیگر کاموں کو شامل ہے لیکن مالی بنیاد کمزور ہونے کی وجہ سے انجمن اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر قادر نہیں ہے، قانون اور آئین کے تحت، عوام سے نقد یا غیر نقد مدد حاصل کرنے کی بنیاد پر رفاہ عام، نیک امور اور اقتصادی کام کرنے کی انجمن کو اجازت ہے، مذکورہ گھرانوں (جو ملکی سطح پر وسیع پیمانہ اور کثیر تعداد میں موجود ہیں) کی معیشت کو بہتر بنانے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے مقصد سے اور اس سلسلہ میں عوامی امداد وصول کرنے کے لئے، دولتمند نیک لوگوں کو، ”مسکراہٹ لانے والوں سے امید“ کے نام سے شیئر فروخت کرنا چاہتی ہے، مذکورہ شیئر کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں سے خریداروں کی اجازت سے، کچھ رقم، قرعہ کے ذریعہ انعامات تقسیم کرنے میں خرچ کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کارِخیر کی طرف ان کے رجحان اور شوق میں اضافہ ہو اور اس کام کے لئے شرعی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا اس سلسلہ میں جنابعالی کا کیا نظریہ ہے؟

اگر یہ امداد مکمل طور پر نیک کاموں پر خرچ کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کا کچھ حصّہ انعامات اور قرعہ اندازی پر خرچ کیا جائے اور لوگوں نے اسی نیت سے مدد کی ہو تو اس میں اشکال ہے

دسته‌ها: قسمت آزمانا

قید، تازیانہ اور قصاص نفس کو ایک دوسرے پر مقدم کرنے کی کیفیت

ایک شخص کو سادہ سرقت، مسلحانہ سرقت اور قتل نفس کے ارتکاب کی وجہ سے دومرتبہ تعذیری قید(پانچ سال اور دس سال) اور پچاس کوڑے اور قصاص نفس کی سزا سنائی گئی قاعدہ جمع مجازات کو مد نظر رکھتے ہوئے (جس کا مضمون یہ کہ ہر ایک سزا کا جاری کرنا ایسے ہونا چاہئے کہ دوسری سزاؤں کے زوال کا زمینہ فراہم نہ ہوسکے )مذکورہ سزاؤں کو شرعا کیسے اجراء کیا جائے گا؟

جواب: اس صورت میں جب تعذیر کو مالی تعذیر میں تبدیل کیا جاسکے، کہ جو قصاص کے ساتھ قابل جمع ہے ، اولویت رکھتا ہے اور جب یہ ممکن نہ ہو،چنانچہ اولیاء دم قصاص کی تاخیر پر راضی ہوں ، زندان کی تعزیر مقدم ہے اور اگر اولیاء دم راضی نہ ہوں تو قصاص کو مقدم کیا جائے گا، تازیانے ہر حال میں انجام پانے چاہئے۔

ایسے اشخاص کو دوبارہ سزا دینا جو بیرون ملک سے سزا پاچکے ہوں

چنانچہ کچھ افراد بیرون ملک کچھ جرائم کے مرتکب ہوئے اور اس ملک کے قوانین کے مطابق ان کا محاکمہ بھی ہوگیا اور اس جرم کی مقررہ سزا بھی گذار لی ہے، اس کے بعد وہ ایران پلٹ آئے لہٰذا آپ فرمائیں :الف : ان جرائم میں جو قصاص کا باعث ہوتے ہیں، اولیاء دم کی درخواست کی صورت میں سزا کے قابل ہیں؟ب : جرائم حدّی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ج : تعذیری اور روک تھام والے جرائم میں کیا حکم ہے؟

جواب : ان موراد میں جو قصاص کا سبب بنتے ہیں ، اگر شاکی قصاص کا تقاضا کرے تو قصاص جاری ہوگا اور اگر شاکی قصاص کے بدلے جرمانہ پر راضی ہوگیا تھا تو قصاص کا حکم ساقط ہے اور اگر راضی نہیں ہوا تھا تو جرمانے کی رقم کو واپس کرکے قصاص کا تقاضا کرسکتا ہے ۔جواب : حدود والے جرائم میں حد ساقط نہیں ہوگی؛ کیوں کہ ان میں حد کے جاری کرنے کے شرائط نہیں پائے جاتے لہٰذاوہ حد کے قائل نہیں ہیں۔جواب : اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ تعزیر نظر حاکم سے مربوط ہے اگر وہاں پر ان کو تعذیر کردیا گیا تھا ہر چند کہ تعذیر، زندان کی صورت میں تھی تو حاکم شرع یہاں کی تعذیر میں تخفےف دے سکتا ہے، چاہے تعذیر ملامت اور سرزنش کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔

مقتول کے ذریعہ، قصاص سے معاف ہو جانا

کیا زخمی شخص، مرنے سے پہلے قاتل کو اپنے قصاص سے معاف کرسکتا ہے ؟ عضو بدن کے قصاص کے بارے میں کیا حکم ہے؟

عُضو کے قصاص میں معاف کرنا جائز ہے، لیکن قتل نفس کے قصاص کےبارے میں، مجتہدین کرام کے نظریات مختلف ہیں، معاف کرنے کا جائز ہونا بعید نہیں ہے اور احتیاط مصالحت کرنے میں ہے ۔

دسته‌ها: قصاص کے احکام

ریڈیو یا ٹیلی ویژن سے سجدے کی آیت کو سنا

اگر سجدہ کی آیت کو ریڈیو یا ٹیلیویژن سے سنے تو کیا سجدہ واجب ہے ؟

جواب:۔ اگر تلاوت قرآن، ڈائریکٹ ، آرہی ہے تو سجدہ واجب ہے اور اگر ڈائریکٹ نہیں ہے ( یعنی محفوظ کرنے کے بعد میں ٹیلی کاسٹ ہو رہی ہے ) تو احتیاط کے طور پر سجدہ کرے۔

ایسے شخص کی دیت اور قصاص جس نے اپنی زوجہ کو قتل کردیا ہو

اگر کوئی شخص عمداً اپنی زوجہ کو قتل کردے اور مقتولہ کے وارثوں میں فقط ایک اس کی ماں اور ایک بیٹی ہو اور یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ بیٹی کے ذریعہ باپ کا قصاص کرنا ممکن نہیں ہے لیکن مقتولہ کی ماں نے قصاص کرنے کا تقاضا کیا ہے:الف) چونکہ قصاص کی تقاضا مند (مقتولہ کی ماں) کی طرف سے آدھی دیّت قاتل کو دینا لازم ہے، سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کے حصّہ کی دیت بھی ادا کرے یا نہیں، نیز توجہ رکھتے ہوئے کہ قاتل کا باپ موجود ہے جو اس کا نابالغ بیٹی کا دادا ہوتا، کیا نابالغ بچی کی مراعات کرتے ہوئے، دیت کا تقاضا کرنا یا معاف کردینے کا کام اس کے داد کے ذمّہ ہے؟ب) اگر قصاص کا تقاضا کرنے والی (مقتولہ کی ماں) میں، بچی کے حصّہ کی دیت کی رقم کو ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو یا ادا کرنے سے انکار کرنے کی صورت میں کیا قصاص کا حق ساقط ہوکر دیت کے حکم میں تبدیل ہوجائے گا یا اس کے اجرا کرنے میں تاخیر کی جائے گی، نیز تاخیر کی صورت میں کیا مجرم کو قید سے رہا کردیا جائے گا یا نہیں؟

جواب: الف) بچی کے حصّہ کی دیت ادا کرے اور بظاہر اس کام میں داد اس کے ولی ہیں ۔جواب: ب) اگر ولی قصاص میں مختصر سے عرصہ کے بعد، مالی استطاعت کی امید ہو تو اس کے مستطیع ہونے کا انتظار کرنا چاہیے نیز مجرم سے کافی حد تک ضمانت لے کر اُسے رہا کردیا جائے گا، لیکن اگر اس کے مستطیع ہونے کی امید نہیں ہے تب قاتل پر دیت لازم ہوجائے گی ۔

دسته‌ها: قصاص کے احکام

متوفیٰ کے ترکہ کا تمام قرضوںکی ادائیگی کے لئے کافی نہ ہونا

قرض خواہوں کے متعدد ہونے اور متوفی کی جائداد کا تمام قرضوں کے لئے ناکافی ہونے کی صورت میں ، کیا قرض اور قرض خواہوں کی نوعیت کے لحاظ (ذیل کی شرح کے ساتھ) حق تقدم اور اولویت کے قائل ہوسکتے ہیں:۱۔ زوجہ کا نفقہ اور مہر۔۲۔ کمسن اولاد کا نفقہ۔۳۔ وہ قرض جس کی بابت مقروض کا کچھ مال قرض دینے والے کے پاس بطور رہن اور وثیقہ رکھا ہوا ہے۔۴۔ گھر اور کاروبار کہ جگہ (دفتر وغیرہ) کے خادموں اور کام کرنے والوں کی مزدوری اور تنخواہ ۔۵۔ جو خرچ متوفی کے علاج میںاس کی موت سے پہلے ہوا ہے جیسے ڈاکٹروں کی فیس اسپتال کا خرچ دواخانہ کا قرض وغیرہ۔۶۔ حکومت اسلامی کے قرضے جیسے مالیات (ٹیکس) پانی، بجلی اور گیس وغیرہ کا بِل۔۷۔ شرعی قرضے (خمس وزکات) اور نماز، روزہ اور واجب حج کو ادا کرانے کے لئے اجیر بنانا۔۸۔ کفن ، دفن اور معمول کے مطابق ایصال ثواب کی مجالس اور فاتحہ وغیرہ کا اخراجات۔

جواب: معمول کے مطابق کفن اور دفن کے اخراجات سب پر مقدم ہےں، لیکن مجالس ترحیم وفاتحہ وغیرہ واجبات میں سے نہیں ہیں، اسی طرح کمسن بچوں کا نفقہ اگر پہلے نہ دیا گیا ہو، قرض میں شمار نہیں ہوتا، نماز وروزہ کے خرچ کو بھی میت کے اموال میں سے نہیں لے سکتے، باقی قرضے ایک صف میں قرار پاتے ہیں لہٰذا ان کو بہ نسبت ادا کیا جائے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت