سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

رات کی عبادتوں پر جماعت سے پڑھی جانے والی صبح کی نماز کو فضیلت

ایک روز رسول اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم نے نماز صبح کی جماعت میں حضرت علی علیہ السلام کو نہ دیکھا، جناب زہرا سلام الله علیہا سے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ”وہ گذشتہ شب، صبح تک خدا سے راز ونیاز اور مناجات میں مشغول تھے، رات کی عبادت کی سنگینی سبب ہوئی کہ انھوں نے نماز صبح گھر پر ہی ادا کرلی“ رسول اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”علی﷼ سے کہنا رات کی مناجاتوں کو کم کریں اور تھوڑا آرام کریں تاکہ صبح کی نماز جماعت میں حاضر ہوسکیں“الف) کیا مذکورہ حدیث ، سَنَد اور دلالت کے اعتبار سے قابل قبول ہے؟ب) شیعہ حضرات معتقد ہیں کہ آئمہ معصومین علیہم السلام امامت سے پہلے بھی گناہ ومعصیت یہاں تک کہ ترک اولیٰ کے بھی مرتکب نہیں ہوئے، اگر اس بات کو قبول کرلیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ یہاں پر حضرت علی علیہ السلام سے اشتباہ ہوا ہے، کیونکہ آپ نے نماز جماعت کی فضیلت کو چھوڑدیا ہے، اور رات کی مناجات کوبجالائے ہیں! آپ کیا فرماتے ہیں؟ج) مذکورہ حدیث ایسی ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام کو شخصیت کو گرادیتی ہے اور نماز جماعت کی عظمت کوبڑھاتی ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟

مذکورہ روایت، سَنَد کے اعتبار سے قابل بحث ہے؛ لیکن بہرحال نماز صبح کی جماعت کے لئے رات کی مناجاتوں کو کم کرنا اولیٰ ہے ۔نماز جماعت کو ترک کرنا گناہ نہیں ہے اور نہ ہی مقام عصمت کے منافی ہے؛ بلکہ ایک طرح کا ترک اولیٰ ہے اور اگر اس میں دوسروں کی تعلیم کا پہلو پایا جائے تو ترک اولیٰ بھی شمار نہیں ہوتا ۔جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ممکن ہے اس کا مقصدعوام کے لئے حکم شرعی کو تعلیم دینا ہو، اس صورت میں آپ کے مقام پر کوئی حرف نہیں آتا ہے ۔ یہ بھی فراموش نہ کریں کہ یہ روایت، سَنَد کے اعتبار سے قابل بحث ہے ۔

علم اصول کی تاسیس کی اہل سنت کی طرف نسبت دینا

کیا ذیل الذکر بات صحیح ہے:عصر ائمہ معصومین علیہم السلام میں شیعوں کو اجتہاد کی ضرورت نہیں پڑتی تھی لہذا علم اصول کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ علم اصول اہل سنت نے شروع کیا ہے اور شیعوں نے امام عصر علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں اجتہاد شروع کیا اور اہل سنت سے علم اصول کو حاصل کیا ہے لہذا علم اصول کے باب میں اہل سنت تاسیس میں بھی اور تالیف و تدوین میں بھی آگے رہے ہیں؟

علم اصول کی بنیادی اور اہم بحثیں نبی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہچی ہیں جیسے اصل براءت، احتیاط، استصحاب، ابواب تعادل و تراجیح، عام و خاص، مطلق و مقید وغیرہ اور معصومین علیہم السلام نے اپنے اصحاب کو ان سے روشناس کرایا اور ان مسئلہ میں بہت سے شیعہ علماء پیشگام رہے ہیں، مزید اطلاع کے لیے کتاب تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام مولف مرحوم سید حسن صدر کا مطالعہ کریں، آج بھی شیعہ علما علم اصول میں دوسروں سے کہیں زیادہ محکم اور ٹھوس ہیں۔

اگر شہید کے وارث ، اس کے باپ اور بیوی ہو

میرے بھائی، ١٢سال پہلے جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے، اس زمانے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شہید ہوگئے یا اسیر ہوئے ہیں، لیکن اب بارہ سال کے بعد ان کی شہادت مسلّم طور پر ثابت ہوگئی ہے اس شہید کی ایک بیوہ ہے لیکن بچہ کوئی نہیں ہے، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) اس شہید کی تنخواہ، بارہ سال کے عرصہ میں بطور کامل اور یکبارگی، ان کی بیوی کے ذریعہ وصول اور خرچ ہوئی ہے، کیا مذکورہ تنخواہ کی مکمل رقم، شہید کی زوجہ کا حق ہے، یا اس میں سے میراث کے عنوان سے، شہید کے والدین اور بہن بھائیوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟ب) اب جبکہ اُن کی شہادت یقینی طور پر ثابت ہوگئی ہے، ادارے کی جانب سے جس میں وہ کام کرتے تھے، کچھ رقم دی جارہی ہے، یہ رقم کس سے متعلق ہے یعنی یہ رقم کس شخص کی ہوگی؟ج) یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ سن ١٣٦١ شمسی میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کی اطلاع سن ١٣٧٢شمسی میں ملی ہے جبکہ اُن کے والدین ٦٦ میں مرحوم ہوگئے ہیں، کیا شہید اپنے والد کی میراث لیں گے یا والد کو شہید کی میراث ملے گی؟د) شہادت کے ثابت ہونے سے دوسال پہلے ان کی زوجہ نے 'بنیاد شہید'' نامی ادارے سے، طلاق کا تقاضا کیا تھا اور ادارے کے مدیر نے قوانین کے مطابق اس کو شرعی طلاق دے دی تھی، کیا اس صورت میں یہ زوجہ، اس شہید کی میراث لے گی؟ کیا اس رقم میں سے جو ادارے نے، دیت وغیرہ کے عنوان سے دی ہے، زوجہ کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور کیا اس دو سال کی مدّت میں، شہید کی تنخواہ لے کر خرچ کرنے کا حق رکھتی تھی یا نہیں؟

جواب: اس کی تنخواہ اس کی بیوی سے متعلق تھی، یعنی اس کی زوجہ کا حق ہے ۔جواب: تمام وارثوں سے مربوط ہے مگر یہ کہ وہ ادارہ مذکورہ رقم کے لئے کوئی خاص مصرف معین کرے ۔جواب: والد کو ان کے مال سے میراث ملے گی، لیکن حکومت سے جو رقم دی گئی ہے اس میں سے انھیں (والد کو) میراث نہیں ملے گی ۔جواب: چنانچہ حکومت یہ جان کر کہ طلاق ہوگئی ہے، اُسے تنخواہ دیتی تھی تب تو لینا جائز ہے لیکن اگر اس شرط پر تنخواہ دیتی کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، تب مذکورہ رقم وصول کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا لیکن بہرحال شہید کے مال سے میراث وصول کرے گی اور اسی طرح اس کی دیت کی رقم سے میراث لے گی ۔

متبرک مقامات میں باراتوں کا داخل ہونا

بہت دنوں سے ایسا ہورہا ہے کہ باراتی دلہن کو لے کر حضرت محمد بن موسیٰ کاظم علیہ السلام کی درگاہ میں آتے ہیں، لیکن افسوس دلہن کے کامل طور سے اسلامی پردہ نہ ہونے کی وجہ سے اور یہ بھی کہ ان میں سے بہت لوگ فقط فلم بنوانے اور فوٹو کچھوانے آتے ہیں، تو ان کا یہ کام ان محترم ومکرم امام زادوہ کی توہین کا سبب ہوتا ہے ۔ ایسی باراتوں کا درگاہوں میں داخل ہونے سے روکنے کیا حکم ہے؟

ان بارتوں کے لئے ضروری ہے کہ شرعی احکام اور متبرک مقامات کی حرمت کا خیال رکھیں؛ اور ان درگاہوں کے خادمین کوچاہیے کہ ان کی روک تھام کے لئے صحیح طریقہ استعمال کریں، جیسے ممانعت کے بورڈ لگائیں اور چھپے ہوئے پرچے بانٹیں اورباربار تذکر دیں، اور یہ کام اس طرح ہونا چاہیے رنجش اور لڑائی کا سبب نہ ہونے پائے ۔

دسته‌ها: شادی کے دن جشن

قید، تازیانہ اور قصاص نفس کو ایک دوسرے پر مقدم کرنے کی کیفیت

ایک شخص کو سادہ سرقت، مسلحانہ سرقت اور قتل نفس کے ارتکاب کی وجہ سے دومرتبہ تعذیری قید(پانچ سال اور دس سال) اور پچاس کوڑے اور قصاص نفس کی سزا سنائی گئی قاعدہ جمع مجازات کو مد نظر رکھتے ہوئے (جس کا مضمون یہ کہ ہر ایک سزا کا جاری کرنا ایسے ہونا چاہئے کہ دوسری سزاؤں کے زوال کا زمینہ فراہم نہ ہوسکے )مذکورہ سزاؤں کو شرعا کیسے اجراء کیا جائے گا؟

جواب: اس صورت میں جب تعذیر کو مالی تعذیر میں تبدیل کیا جاسکے، کہ جو قصاص کے ساتھ قابل جمع ہے ، اولویت رکھتا ہے اور جب یہ ممکن نہ ہو،چنانچہ اولیاء دم قصاص کی تاخیر پر راضی ہوں ، زندان کی تعزیر مقدم ہے اور اگر اولیاء دم راضی نہ ہوں تو قصاص کو مقدم کیا جائے گا، تازیانے ہر حال میں انجام پانے چاہئے۔

حق قصاص کا مرکب ہونا

کیا قصاص، انحلالی اور مرکب حق ہوتا ہے یا غیر انحلال اور بسیط ہوتا ہے؟

مقتول کے ولی سب مل کر ایک ساتھ قصاص کا اقدام کریں یا اس کام کے لئے کسی کو وکیل بنالیں اور اگر ان (اولیاء مقتول) میں سے کوئی تنہا اور دوسروں کی اجازت کے بغیر، قصاص کرے، تو اس نے حرام کام کیا ہے اور اس کو دوسروں کا حق (دیت) ادا کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: قصاص کے احکام

مقتول کے ولی کے ذریعہ مکرہ اور ممسک شخص کو معاف کیا جانا

مجتہدین فرماتے ہیں: قتل پر مجبور کرنے والے کی سزا، ہمیشہ کے لئے قید خانہ ہے اور پکڑنے والے (جیسا کہ کسی نے مقتول کو پکڑ رکھا ہو اور دوسرے نے قتل کیا ہو) کی سزا یہ ہے کہ اس کی آنکھیں پھوڑدی جائیں، لہٰذا اگر ایک آدمی پکڑے دوسرا اسے تھامے رہے اور بھاگنے نہ دے اور تیسرا آدمی قتل کردے، اس صورت میں جیسا کہ مقتول کے ولی ووراث قاتل کو معاف کرسکتے ہیں کیا مجبور کرنے والے اور تھامنے والے آدمی کو بھی معاف کرسکتے ہیں؟ یا یہ بھی زنا کی سزا کی طرح الله تعالیٰ کی معیّن کردہ ایک حد (سزا) ہے جو قابل معافی نہیں ہے؟

چنانچہ مقتول کے ولی ووارث، مجبور کرنے والے اور پکڑنے وتھامنے والے کی خطا سے درگذر کریں، تو ان کے متعلق، ان سے مربوط سزا کا حکم جاری کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، اس کا حکم بھی قصاص کے مثل ہے نیز مجبور کرنے اور پکڑنے والے یعنی دونوں کی سزا قید ہے، آنکھیں پھوڑنے کی سزا فقط دیکھنے والے (نگران) کی ہے اور وہ بھی خاص صورت میں ۔

دسته‌ها: قصاص کے احکام
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت