اگر عاريت لينے والے دوسرے کو عاريت پر ديدے
مسئلہ 2020: عاريت کے ہوئي چيز کو اگر مالک کي اجازت سے دوسرے کو عاريتا ديدے اور پہلا شخص جس لے عاريتا ليا تھا اگر مرجائے يا ديوانہ ہوجائے اورصاحب مال زندہ ہو تو دوسري عاريت باطل نہيں ہوگي.
مسئلہ 2020: عاريت کے ہوئي چيز کو اگر مالک کي اجازت سے دوسرے کو عاريتا ديدے اور پہلا شخص جس لے عاريتا ليا تھا اگر مرجائے يا ديوانہ ہوجائے اورصاحب مال زندہ ہو تو دوسري عاريت باطل نہيں ہوگي.
مسئلہ 2021 عاريت لينے کے بعد اگر معلوم ہو کہ يہ چيز غصبي ہے تو اس کو اصل مالک تک پہونچانا چاہئے اور اگر مالک کونہ جانتا ہو تو مجہوں المالک مال کے قاعدہ پر عمل کرے بہر حال عاريت دينے والے کو واپس نہيں کرسکتا.
مسئلہ 2022:اگر جانتے بوجھتے غصبي مال کو عاريت لے اور اس کے پاس سے تلف ہوجائے تو مالک اپنا مال کا عوض اس شخص سے لے سکتا ہے اور اگر اس شخص تک رسائي ممکن نہ ہو تو غاصب سے مطالبہ کرے اسي طرح عاريت لينے والوں نے اس غصبي چيز سے جو فائدے اٹھا لئے ہوں ان کا بھي عوض ديں اور اگر معلوم نہ ہو کہ مال غصبي چيز سے جو فائدے اٹھا لئے ہوں ان کا بھي عوض دين اور اگر معلوم نہ ہو کہ مال غصبي چيز سے جو فائدے اٹھا لئے ہوں ان کا بھي عوض ديں اور اگر معلوم نہ ہو کہ مال غصبي ہے اور اصلي مالک مال يا منافع کي خسارت اس سے وصول کرے تو اس کو حق ہے کہ مالک کو جو بھي بھيج دے اس کا عاريت دينے والے غاصب سے لے? ليکن يہ اس صورت ميں ہے کہ عاريت دينے والے نے ضمانت کے شرط نہ کي ہو اور جس چيز کو عاريتا دياہے وہ سونے يا چاندي کي نہ ہو.
مسئلہ 2023 شادي کرنا مستحب ہے ليکن اگر کسي کوڈر ہو کہ شادي نہ کرنے کي وجہ سے حرام ميں مبتلا ہوجائے گا تو شادي کرنا واجب ہے.
مسئلہ 2024: شادي کے بعد مرد اور عورت ايکدوسرے پر حلال ہوجاتے ہيں عقد کي دو قسميں ہيں:1 دائمي2 وقتي دائمي کا مطلب ہميشگي ہے جس عورت سے دائمي عقد کيا جائے اسے دائمہ کہتے ہيںاور وقتي شادي (متعہ)کا مطلب يہ ہے کہ ايک معين مدت کے لئے عقد کياجائے خواہ وہ مدت مختصر ہو يا طولاني ہو اس کو (صيغہ) بھي کہتے ہيں.
مسئلہ 2025:عقد ميں خواہ دائمي ہو يا وقتي صيغہ جاري کرنا ضروري ہے صرف دونوں کي رضامندي کافي نہيں ہے اور عقد کا صيغہ وہ دونوں بھي پڑھ سکتے ہيں اور ان کا وکيل بھي.
مسئلہ 2026: مرد صيغہ جاري کرنے ميں عورت کا وکيل ہوسکتا ہے اور عورت مرد کي وکيل ہوسکتي ہے.
مسئلہ 2027: اگر ميان بيوي نے صيغہ جاري کرنے کے لئے وکيل کيا ہو تو جب تک صيغہ کے جاري ہوجانے کا يقين نہ ہوجائے ايک دوسرے پر حلال نہيں ہونگے ليکن اگر وکيل مورد اطمينان ہو اور اکہے ميں نے صيغہ جاري کرديا ہے تو کافي ہے.
مسئلہ 2028اگر عورت کسي کو وکيل کردے کہ دس دن يا دو ماہ کے لئے ميرا عقد کسي مرد سے پڑھ دو او اس کي ابتدا معين نہ کرے تو جس دن اور جس وقت سے عقد پڑھاجائے گا اس وقت سے ابتدا شروع ہوگي.
مسئلہ 2029 احتياط واجب ہے کہ ايک ہي شخص مرد اور عورت دونوں کا وکيل نہ ہو? يعني دو وکيل عقد پڑھيں اسي طرح احتياط يہ بھي ہے کہ شوہر اپنے ہونے والي بيوي کي طرف سے وکيل ہو کر صيغہ جاري کرے خواہ عقد دائمي ہو يا وقتي.
مسئلہ 2030 دائمي صيغہ پڑھنے کے لئے عورت کا اتنا کہنا کافي ہے زوجتک نفسي علي الصداق المعلوميعني معين مہر ميں نے اپني نفس کو تمہاري زوجيت ميں ديدي ہے اور مرد اس کے بعد کہے قبلت التزويج يعني اس شادي کو ميں نے قبول کيااور اگر صيغہ جاري کرنے گے لئے کسي کو وکيل کرے تو پہلے عورت کا وکيل کہے:زوجت موکلتي موکلک علي الصداق المعلوميعني ميں اپني موکلہ کو معين مہر پر تمہارے موکل کي زوجيت ميں ديا، پھر مردکا وکيل کہے: قبلت لموکلي ھکذا يعني ميں نے بھي اسي طرح اپنےموکل کي طرف سے قبول کيا.
مسئلہ 2031 متعہ کا صيغہ جاري کرنے کے لئے اتنا ہي کافي ہے (ليکن پہلے مہر اور مدت معين ہوچکي ہو) اور عورت کہے: زوجتک نفسي في المدہ المعلومہ علي المھر المعلوم يعني ميں نے اپنے کو معين مہر اور معين مدت کے لئے تمہاري زوجيت ميں ديا اس کے بعد مرد کہے : قبلت (يعني ميں نے قبول کيا يا پہلي عورت کا وکيل کہے متعت موکلتي موکلک في المدہ المعلومہ علي المہر المعلوم يعني ميں اپني موکلہ کو معين مدت اور معين مہر گے ساتھ تمہارے موکل گے ازدواج ميں ديا اس کے بعد مرد کا وکيل کہيں گے: قبلت لموکلي ھکذا (ميں نے بھي اسي طرح اپنے موکل کے لئے قبول کيا.