کچھ دن پہلے مجھے ایک خاتون کی آشنا کریاگیا تاکہ اس کے باپ کی میراث میں سے اس کا حصہ وصول کرنے کے لئے میں اس کی وکالت قبول کروں ، آشنا کرانے والا شخص غیرملکی (اور مسیحی) ہے، اس خاتون سے آشنائی کراتے ہوئے وہ شخص کہتا ہے: ”ظاہراً مذکورہ خاتون مسلمان تھی، عیسائی ہوگئی ہے اور اب چاہتی ہے کہ اپنے باپ کی میراث کا حصہ جو تہران میں ہے (زمین، گھر، نقد پیسہ وغیرہ) وصول کرے، اسی وجہ سے وہ آپ کو (یعنی مجھے) اپنا وکیل بنانا چاہتی ہے“میں نے اس خاتون سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے وقت غیر مستقیم طور پر اس سے کہا: ”آخر تم اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے کچھ وظائف ہیں وغیرہ وغیرہ“ تاکہ ا سکا رد عمل دیکھوں کہ کیا یہ خاتون واقعی عیسائی ہوگئی ہے یا نہیں؟ خاتون نے ان باتوں کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں اور عیسائی ہوگئی، بلکہ خاموش رہی ایسے حالات میں میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے جن کو میں حضور سے دریافت کرنا چاہتا ہوں:۱۔ کیا میرا شرعی وظیفہ ہے کہ اس سے زیادہ تحقیق کروں؟کیا صریحاً مطلب کو بیان کروں اور اس کے دین کے بارے میں پوچھوں؟۲۔ کیا اس قدر جو آشنائی کرانے والے شخص نے بیان کیا ہے اس کے مسلمان ہونے میں تردید ایجاد کردیتا ہے؟کیا اس کے اسلام کو استصحاب کروں (۱) یا میرا کوئی اور وظیفہ ہے؟۳۔ وہ گھر جس میں اس خاتون کا سہم الارث (میراث کا حصہ) تھا (آدھا گھر) اس کو کسی شخص کے ہاتھوں بیچ دیا اور میں نے اس کی قیمت میں سے اس توافق کے مطابق جو ہمارے درمیان ہوا تھا ، اپنی وکالت کا محنتانہ لے لیا، اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ یہ خاتون واقعاً اسلام سے خارج اور حقیقت میں اپنے مسلمان باپ سے میراث لینے کا حق نہیں رکھتی تھی، خریدار کی تکلیف کیا ہے؟ وکالت کا وہ محنتانہ جو گھر کی قیمت میں سے میں نے حاصل کیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟۴۔ کیا اس گھر میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ کیا خریدار ضامن ہے کہ آدھے گھر کو حاکم شرع (مقلد)کو واپس کرے یا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے؟ اگر آپ کی اجازت پر موکول ہو تو کیا آپ اجازہ فرماتے ہیں؟ یا ردّمظالم کے بدلے اجازہ ہوگا؟۵۔ اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ وہ عورت عیسائی ہوگئی تھی،تو اس صورت میں اس کے ذاتی امور اور اموال میں (سہم الارث کے علاوہ) وکالت کو قبول کرنے کی کیا صورت ہے؟
جواب: ۱۔۲ ۔ چنانچہ اس کی حالت سابقہ اسلام ہے اور کوئی دلیل اس کے خلاف قائم نہیں ہوئی ہے تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔جواب3:چنانچہ ثابت ہوجائے کہ وہ خاتون باپ کی حیات میں عیسائی ہوگئی تھی، میراث نہیں لے سکتی اور وہ مال جو آپ نے یا دوسروں نے اس کے حصے سے حاصل کیا ہے وارثین کو واپس دیدیں۔جواب4: جیسا کہ اوپر کہا جاچکا، اگر خلاف ثابت ہوتو اس کو تمام وارثین کی طرف پلٹایا جائے گا اور یہ مسئلہ مظالم سے ربط نہیں رکھتا کہ حاکم شرع کے اجازہ کی ضرورت پڑے۔جواب5: اموال کے ان موارد میں جو مسیحی ہونے کے بعد حاصل کیے ہیں وکالت قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
ایک ساتھ گھر کے چند لوگوں کا انتقال
اگر بعض لوگ عمارت گرنے یا ڈوبنے کی وجہ سے مرجائیں اور مرنے والوں کا آپس میں تعلق اس طرح (جیسے باپ بیٹے) کا ہو کہ پہلے مرنے والا بعد میں مرنے والے کا وارث اور مقدس شریعت میں ان کے لئے ایک دوسرے سے میراث لینے کا حکم جاری ہے، اب اگر کچھ لوگ تیل یا دودو کی حوض یا دوسری بہنے والی چیزوں میں غرق ہوکر مرجائیں کیا ان کا بھی یہی حکم ہے؟ اسی طرح کیا دیوار یا عمارت کا منہدم ہونا، جہاز گرنے یا اس جیسے حادثوں کو بھی شامل ہوگا؟، کار ایکسیڈنٹ کی کیا صورت ہے؟
جواب: بہنے والی چیزوں میں غرق ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے، ہوائی جہاز کا پھٹنا یا گرنا، اسی طرح گاڑی ایکسیڈنٹ وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے یعنی بیٹے کو باپ کے تمام مال سے اس کے حصہ کی میراث ملے گی جو اس کے ذریعہ اس کے وارثوں کو ملے گی، اسی طرح باپ کو بیٹے کی میراث ملے گی ۔
وارثوں کے ہاتھ کاامانت دار یا ضامن ہونا
کسی لاپتہ شخص کے مرنے کا حکم جاری ہونے کے بعد، جن وارثوں کے درمیان اس کا ترکہ تقسیم کیا گیا ہے، کیا ان وارثوں کا ہاتھ امانی ہے یا ضمانی ہے؟ (یعنی کیا ان کے پاس وہ مال امانت کے طور پر ہے کہ اگر تلف ہوجائے تو ضامن نہیں ہیں، یا امانت کے طور پر نہیں بلکہ اس طرح ہے جیسے کوئی بغیر اجازت کے کسی کا مال وصول کرلے تب اس صور ت میں اگر تلف ہوجائے تو جس کے پاس تلف ہوا ہے وہی ضامن ہے لہٰذا اس تلف شدہ مال کے مثل یا اس کی قیمت ادا کرے)؟
جواب: ان کا ہاتھ ضمانی ہے (یعنی وہ لوگ ضامن ہیں لہٰذا اگر اصل مال موجود ہے تو وہی واپس کریں اور اگر تلف ہوگیا ہے تو اس کے مثل یا اس کی قیمت ادا کریں)۔
میراث تقسیم ہونے کے بعد لاپتہ (جنگ میں) شخص کا مل جانا
جب کسی لاپتہ شخص کے بارے میں، اس کے انتقال ہونے کا حکم جاری اور اس کی میراث تقسیم ہوجائے اس کے بعد، وہ شخص مِل جائے، اس صورت میں اس کے اصل مال اور اس کے منافعہ کے سلسلہ میں وارثوں کا کیا وظیفہ ہے؟ نیز جو مال استعمال کی مدت میں تلف ہوگیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: جب تک اس کے مرنے کا یقین نہ ہوجائے، اس کے ترکہ کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا، البتہ طلاق کا حکم اس سے جدا ہے اور اگر میراث کے تقسیم کرنے کے بعد وہ لاپتہ شخص واپس آجائے تو اس کا اصل مال اور اس کا نفع سب اسی کو واپس کیا جائے گا اور جن لوگوں کے درمیان، اس کا مال تقسیم ہوا تھا، ان میں سے جس نے اس کا مال تلف کیا ہوگا وہی ضامن ہوگا ۔
میت کی نماز و روزہ بجالانے کیلئے میت کے ترکہ سے کسی شخص کو( اجرت پر حاصل کرنا) اجیر بنانا
احتیاطاً مرحوم کے قضا روزے نماز ادا کرانے کے لئے کیا وارثوں کو میت کے ترکہ میں سے کسی شخص کو اجیر بنانے کا حق ہے؟
جواب: فقط بالغ وارثوں کو اپنے حصہ میں سے، کسی کو اجیر بنانے کا حق ہے ۔
میراث کا حصّہ بخش دینے کے بارے میں شک کرنا
کشمیر کے ایک علاقہ میں مسلمانوں کے یہاں یہ دستور ہے کہ بیٹے اپنے والدین کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں اور جب والد کا انتقال ہوجاتا ہے تو ن کی تمام میراث بیٹوں کے اختیار میں آجاتی ہے، لیکن بیٹیاں جو اپنے شوہروں کے گھر میں رہتی ہیں،اپنے بھائیوں سے، باپ کی میراث کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنا حصہ بھائیوں کو بخش دیتی ہیں، بعض بہنیں جب تک زندہ رہتی ہیں اپنا حصہ اپنی خوشی سے بھائیوں کے اختیار میں دیتی ہیں لیکن بھائی بہنوں کے انتقال کے بعد، بہنوں کی اولاد بھائیوں کی اولاد سے یہ کہتے ہوئے اپنی الدہ کے حصہ کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ہماری ماں نے اپنے والد کی میراث میں اپنا حصہ آپ کے والد کو نہیں بخشا تھا بلکہ ان کے لئے مباح کردیا تھا، جبکہ بھائیوں کی اولاد کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی پھوپھیوں نے ان کے والد کو اپنا حصہ بخشدیا تھا یا ان کے لئے مباح قرار دیا تھا، اس صورت میں بھائیوں کی اولاد کا کیا وظیفہ ہے؟
جواب: اگر اس مال ودولت کا بھائیوں کے لئے، بخش دینا، ثابت نہ ہوسکے تو بہنوں کا حصہ اُن کے وارثوں کوضرور دینا چاہیے ۔
کچھ دن پہلے مجھے ایک خاتون کی آشنا کریاگیا تاکہ اس کے باپ کی میراث میں سے اس کا حصہ وصول کرنے کے لئے میں اس کی وکالت قبول کروں ، آشنا کرانے والا شخص غیرملکی (اور مسیحی) ہے، اس خاتون سے آشنائی کراتے ہوئے وہ شخص کہتا ہے: ”ظاہراً مذکورہ خاتون مسلمان تھی، عیسائی ہوگئی ہے اور اب چاہتی ہے کہ اپنے باپ کی میراث کا حصہ جو تہران میں ہے (زمین، گھر، نقد پیسہ وغیرہ) وصول کرے، اسی وجہ سے وہ آپ کو (یعنی مجھے) اپنا وکیل بنانا چاہتی ہے“میں نے اس خاتون سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے وقت غیر مستقیم طور پر اس سے کہا: ”آخر تم اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے کچھ وظائف ہیں وغیرہ وغیرہ“ تاکہ ا سکا رد عمل دیکھوں کہ کیا یہ خاتون واقعی عیسائی ہوگئی ہے یا نہیں؟ خاتون نے ان باتوں کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں اور عیسائی ہوگئی، بلکہ خاموش رہی ایسے حالات میں میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے جن کو میں حضور سے دریافت کرنا چاہتا ہوں:۱۔ کیا میرا شرعی وظیفہ ہے کہ اس سے زیادہ تحقیق کروں؟کیا صریحاً مطلب کو بیان کروں اور اس کے دین کے بارے میں پوچھوں؟۲۔ کیا اس قدر جو آشنائی کرانے والے شخص نے بیان کیا ہے اس کے مسلمان ہونے میں تردید ایجاد کردیتا ہے؟کیا اس کے اسلام کو استصحاب کروں (۱) یا میرا کوئی اور وظیفہ ہے؟
جواب: ۱۔۲ ۔ چنانچہ اس کی حالت سابقہ اسلام ہے اور کوئی دلیل اس کے خلاف قائم نہیں ہوئی ہے تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔
شوہر کے تحفہ زوجہ کو
کیا وہ مختلف لباس، زیوارت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں، جو اپنی زندگی میں شوہر نے اپنی زوجہ کے لئے خریدی ہیں، زوجہ کی ملکیت ہیں یا شوہر کا مال ہے جو وارثوں کے درمیان تقسیم ہونا چاہیے؟
جواب: جب کسی مقام پر، رواج یہ ہو کہ لباس اور زیوارت، زوجہ کو ہبہ کرتے ہیں توزوجہ کی ملکیت ہیں اور اگر کسی جگہ پر یہ دستور ہو کہ یہ چیزیں امانت کے طور پر زوجہ کے پاس ہوتی ہیں اور وہ فقط شوہر کی زندگی میں انھیں استعمال کرسکتی ہے تب تما م وارثوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، لیکن عام طور پر زوجہ کی ملکیت میں دیتے ہیں ۔
میراث کے حصّہ پر ہبہ کا اثر نہیں ہوتا
کیا حالت حیات میں، ہبہ کردینا، میراث سے محروم ہونے کا باعث ہوگا؟
جواب: جو مال انسان اپنی زندگی میں اپنے وارثوں کو بخشدیتا ہے، وہ مال ترکہ میں سے ان کے محروم ہونے کا باعث نہیں ہوگا ۔
بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان میراث کو برابر تقسیم کرنے کی وصیت
دوسال پہلے میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا، جبکہ ان کی اولاد میں سے ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، مرحومہ کی میراث میں ایک جگہ ہے جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ تومان ہے ، ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ اس کو فروخت کرکے، سب بہن بھائی اپنا اپنا حصہ لے لیں، لیکن ہماری بہنیں مرحومہ والدہ کی اس مضمون کی تحریر پیش کرتی ہیں کہ میراث تقسیم کرتے وقت میرے بچے، بیٹی اور بیٹے کے حصہ میں کوئی فرق نہ رکھیں اور سب برابر طور پر حصہ وصول کریں ، اب جبکہ ہم سب اپنی ماں کی تحریر کے صحیح ہونے یعنی یہ کہ وہ تحریر ہماری والدہ کی ہے، یقین رکھتے ہیں، لیکن ممکن ہے کہ ہمارے بعض بھائی تہہ دل سے اس بات پر راضی نہ ہوں لہٰذا آپ فرمائیں کہ ہمارا شرعی وظیفہ کیا ہے؟
جواب: اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ماں کو اپنے مال کے ایک تہائی حصہ میں تصرف کرنے کا حق حاصل تھا، لہٰذا جو کچھ انھوں نے تمھاری بہنوں کے حصّوں کے بارے میں لکھا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اس لئے کہ مذکورہ فرق ایک تہائی حصّہ سے کم ہے، لہٰذا اس بناپر ماں کی وصیت کے مطابق عمل کریں ۔