سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

اس معاملہ کی ضمانت جس کا سبب وجود میں نہیں آیا

ایک کمپنی بتاریخ ۱۱/۱۱/۱۳۷۵ش ھ، تقریباً۱۹۹۸عیسوی میں ایک سال کی قسط وار خریداری کا بینک سے معاملہ کرلیتی ہے، بغیر سود کے کام کے سلسلہ میں بینک کے قانون کے مطابق، بینک کی جانب سے سہولت فراہم کرنے کے لئے، اسلامی معاملات اور شرعی مقررات کی رعایت کرنا ضروری ہے، معاہدے کے مطابق، کمپنی کو پاپلین کپڑا بنانے کے کچھ کچّے مال کی خریداری کرنا تھی نیز نقد اور ادھار کے معاملات اور شریک ہونے کے معاملہ کی رو سے ان مال سے پاپلین تیار کرکے بازار تک پہنچانا تھا، کچھ عرصہ گذرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ معاہدہ واقعی نہیں تھا بلکہ مذکورہ چیزوں کی خریداری کے عنوان سے ایک رسید بنواکر، بینک سے لون (قرض) وصول کیا تھا، رسید بنانے والے شخص نے بھی صاف صاف بتایا کہ معاملہ فسخ ہوگیا تھا اور اسی تاریخ میں مذکورہ رقم واپس دے دی گئی تھی، یعنی حقیقت میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز موجود ہی نہیں تھی۔جنابعالی کی خدمت میں درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں فرمائیں کہ: کیا اس قسم کے معاملہ کی ضمانت کہ جس کا سبب وجود ہی میں نہیں آیا تھا، اپنی جگہ پر باقی ہے ؟

یہ معاملہ باطل تھا اور اُسے مذکورہ رقم کو بینک میں واپس کرنا چاہیے، اب رہی ضمانت تو اگر ضمانت اصل رقم کے بارے میں تھی تب تو اس پر عمل کرنا چاہیے اور اگر منافع کے بارے میں تھی تو معاملہ نہ ہونے کی صورت میں، ضمانت کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے اور اس کا کوئی منافع ہوتا ہی نہیں ہے ۔

دسته‌ها: ضمانت کے احکام

”صراط“ کا ”س“ کے ساتھ تلفظ کرنا

چونکہ کلمہٴ ”صراط“ کا تلفظ ”س“ سے بھی صحیح ہے اور ”ص“ سے بھی، اب اگر کوئی شخص ان دونوںمیں کسی ایک کا بھی قصد نہ کرے، کیا جو کچھ زبان پر آجائے صحیح ہے، اگر اس نے ”س“ کا قصد کیا اور ”ص“ تلفظ ہوگیا یا اس کے برعکس تو کیا حکم ہے؟

”صراط“ کا ”س“ کے ساتھ تلفظ کرنا ہمارے یہاں خلاف احتیاط ہے؛ لیکن اگر کوئی ایسے مجتہد کا مقلّد ہو جو دونوں کوصحیح جانتا ہو تو مطلق کی نیت کرسکتا ہے جو بھی تلفظ ہوگیا ہ ہی منظور تھا، تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

وقف نامہ کے مضمون سے نا آگاہی

چند مالدار نیک لوگوں نے سن ۱۳۴۹ ہجری شمسی (تقریباً سن ۱۳۹۱ھ ق) میں ایک زمین، بیعنامہ کے ساتھ اور مالک کے اس دعوے کے ساتھ کہ یہ زمین، موقوفہ نہیں ہے، مسجد بنانے کے لئے، خریدی تھی کہ اب اس زمین پر مسجد بھی حضرت ابوافضل کے نام سے تعمیر ہوچکی ہے نیز اس سے استفادہ بھی کیا جارہا ہے لیکن لوگوں کے درمیان یہ مشہور ہے کہ اس مسجد کی زمین وقف تھی، لہٰذا وقف کے شرعی مسائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے مسجد کی کمیٹی نے اس مسئلہ کی چھان بین اور جستجو کرنے کے لئے اقدامات کئے،جستجو اور تحقیق کا نتیجہ حضرت عالی کی خدمت میں پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ مسلّم طور پر مسجد کی زمین، حاج محمد علی کی وقف کی ہوئی ہے لیکن وقف کی نوعیت، مشخص نہیں ہے، بعض لوگوں کے اظہارکے مطابق حاج محمد علی کا وقف، علی الاولاد ہے جبکہ بعض لوگوں کو اس طرح کے وقف میں شک ہے اور امکان ہے کہ وقفِ شاہ نجف ہو (لیکن قوی امکان اس بات کا ہے کہ حاج محمد علی کا وقف، وقف علی الاولاد ہو) آپ سے درخواست ہے کہ مسجدمیں مذہبی سرگرمیوں کے سلسلہ میں اہل محلہ کا وظیفہ بیان فرمائیں؟

جواب: اگر تم نے تحقیق کی ہے اور وقف کا مصرف واضح نہیں ہوا ہے تو اس زمین کے لئے ایک مناسب کرایہ منظور کریں اور اس کرایہ کی رقم کے آدھے حصہ کو امیرالمومنین علیہ السلام کی مجالس میں خرچ کریں اور باقی آدھی رقم کو جن کے لئے وقف ہوا ہے یعنی اولاد کو پہونچادیں، مگر یہ کہ وہ لوگ مسجد کی وجہ سے کرایہ کی رقم سے صرف نظر کرنے پر راضی ہوجائیں اور ان میں کوئی نابالغ بچہ بھی نہ موجودہو۔

دسته‌ها: وقف کے احکام

مریض کی ضد پر اس کے لیے مضر دوا تجویز کرنا

اگر ڈاکٹر مریض کے اصرار پر اسے ایسی دوا لکھ دے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو اور ایسے کام انجام دے جو مضر ہوں تو کیا وہ قصوروار شمار ہوگا؟

اگر ڈاکٹر نے دوا کے نقصان دہ ہونے کو بیان کر دیا تھا تو نقصان ہونے کی صورت میں اس پر کوئی ذمہ داری نہیں بنتی، لیکن اگر اس نے بیان نہیں کیا تھا تو وہ ذمہ دار اور قصوروار ہے ۔ البتہ ہر صورت میں ڈاکٹر کو نقصان دہ دوا بتانے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: علاج، معالجه

کپڑا پہن کر غسل کرنا

سوئمنگ پل وغیرہ میں کپڑے پہن کر غسل ارتماسی کیا جاسکتا ہے ؟

کپڑے پہن کر غسل ارتماسی کرنے میں اشکال ہے لیکن اگر اسی کپڑے پر غسل ترتیبی یوں کیا جائے کہ پانی کپڑے کے نیچے سے ہوتا ہوا جسم پر آرہا ہواور بدن کا تھوڑا حصہ پانی سے باہر ہو اور پھر پانی میں چلاجائے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔

دسته‌ها: غسل ارتماسی

اولاد کے قتل کی روک تھام کے لئے سزاؤں میں شدت

اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ باپ یا دادا کے ذریعہ بچوں کا قتل قصاص نہیں رکھتا، افسوس کہ یہ امر معاشرے میں زیادہ رواج پا گیا ہے! ان افراد کے لئے سزا میں شدت کے لئے کیا حکم صاد ر فرماتے ہیں؟

جواب : ان موراد میں باپ یا دادا دیت ادا کریں اور آپ جانتے ہیں کہ دیت بہت زیادہ سنگین ہوتی اور ایک مہم سزا شمار ہوسکتی ہے ، اگر حاکم شرع تشخیص دے کہ معاشرہ میں یہ کام بہت زیادہ ہوگیا ہے تو اس کے علاوہ سخت تعذیر بھی کرسکتا ہے البتہ اگر ابھی بچہ شکم مادر میں ہو تو کسی بھی حال میں قصاص نہیں ہے فقط دیت ہے۔

دسته‌ها: قصاص کے شرایط
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت