گردے کی خرید و فروخت
طبی مقاصد کے لئے گردے کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟
جواب ۔طبی مقاصد کے لئے گردے کی خرید و فروخت جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ شخص کا گردہ لینے کی اجازت کے بدلے رقم لیں خود گردے کے بدلے نہیں
جواب ۔طبی مقاصد کے لئے گردے کی خرید و فروخت جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ شخص کا گردہ لینے کی اجازت کے بدلے رقم لیں خود گردے کے بدلے نہیں
جواب: اگر عقد معاملہ میں صراحت کے ساتھ بیان کئے گئے شرائط یا جو معاملہ کی بنیادی بات تھی، اس کے برخلاف عمل کیا گیا ہے تو اس صورت میں اُسے اجرة المثل (اس جیسے کام کی جو اجرت بنتی ہے) ادا کرنا ہوگی البتہ اِس شرط پر کہ اجرة المثل، طے شدہ اجرت سے زیادہ نہ ہو، لیکن اگر ٹائم کی مقدار میں اختلاف ہے تو کام کرنے والا شخص، شرعی دلیل سے ٹائم (گھنٹوں) کی مقدار کو ثابت کرے، مگر یہ کہ ٹائم کی مقدار کا معیّن کرنا خود اسی کے ذمہ قرار دیا گیا ہو ۔جواب: اگر (کتاب پر) محقق لکھنے کا معاہدہ نہیں ہوا ہو اور عام رواج کے مطابق بھی مصنف کو اسی کام پر مجبور نہ کیا جاتا ہو (کہ ایسی صورت اختیار کرلے کہ معاہدے کی بنیادی شرط وہی ہے) تب (کتاب پر)محقق کا نام لکھنا لازم نہیں ہے ۔
جواب :۔ کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر ہے ، جوتے نکال لے۔
جواب: کسی بھی ملزم کو ، شرعی طور پر اس کا جرم ثابت کئے بغیر، زدوکوب نہیں کیا جاسکتا مگر دوصورتوں میں:الف) جبکہ ملزم ایسے جرائم، جیسے لوگوں کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، کار، گاڑی وغیرہ کا دروازہ کھول لینا یا غیر اخلاقی جرائم کا مرتکب ہوا ہو اور خود اس کے اعتراف کرنے سے اس قسم کے جرائم، ثابت ہوگئے ہوں نیز تعزیرات اور سزا کی دلیلیں اس کو شامل ہوں، اس صورت میں تعزیر کے عنوان سے اس کو سزا دی جاسکتی ہے اسی کے ذیل میں اس سے بازپرس کی جائے تاکہ جرائم کو وضاحت سے بیان کرے ۔ب) جبکہ مسئلہ اس قدر مہم ہو کہ اسلام یا اسلامی حکومت یا وسیع سطح پر مسلمانوں کی جان ومال سے تعلق رکھتا ہو، اس صورت میں، اہم ومہم کے قاعدہ کے مطابق، مذکورہ قسم کی سزا وتعزیر کا امکان ہوسکتا ہو، ضمناً یہ بھی بیان کردیا جائے کہ دور حاضر میں، ایسے طریقہ دنیا میں پائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ، ملزم کو زد وکوب کئے بغیر، اس سے زیادہ بازپرس کرکے اس کے بیان حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔
اگر ایک وار سے دونوں عارضے وجود میں آئے ہوں تو ایک دیت ہے۔
اگر ان سے مزاحمت ہو تو انہیں مار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جواب: شرعی طور سے، ایسا کرنے میں، اشکال ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معصومین علیہم السلام خصوصاً وجود مبارک امیر المومنین علیہ السلام سے توسل کرنا اور بارگاہ خداوندی میں ان کو شفیع قرار دینا، بہترین عبادت اور حل مشکلات کا سبب ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ مذہب اہل بیت علیہم السلام کے پیروان ایسی دعاؤں اور توسلات سے استفادہ کریں جو معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں؛ جیسے دعائے توسل کیونکہ اس کو علامہ مجلسیۺ اور دیگران نے معتبر کتب کے حوالے سے آئمہ علیہم السلام سے نقل کیا ہے، اور حاجتوں کی برآوری کے لئے بہت زیادہ موٴثر ہے ۔
جب بھی حاکم شرع تشخیص دے کہ یہ کام یک مہم اجتماعی مصلحت پر مترتب ہے تو اس کام کو انجام دے سکتا ہے لیکن وہ قصاص جو ذاتی مقاصد کے لئے انجام پائیں یہ حکم ان کو شامل نہیں ہوتا اور کیا بہتر ہے کہ قصاص سے صرف نظر کرکے دیت پر ہی راضی ہوجائیں۔
ریٹائرمینٹ کے مسائل کو بھی دو طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے:الف: پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسے اصل قرارداد کے ضمن میں ایک نئے عقد کا عنوان دیا جائے، جس میں عقد کی تمام شرطوں کا لحاظ کیا گیا ہو جیسے دونوں فریق بالغ ہوں، عاقل ہوں۔ ریٹارمینٹ کے مسائل کے باب میں جو ابھامات پائے جاتے ہیں جسیے یہ کہ اس عقد میں سفاہت کے حکم نہیں لگ سکتے، اس لیے کہ اس کا عقلی حکم واضح ہے اور یہ بات اس عقد کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے۔ در حقیقت یہ عقد اور قرارداد بیمہ کے عقد اور قرارداد کی طرح ہے جو ایک مستقل عقد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس آیہ کرہمہ (اوفوا بالعقود) کے ضمن میں آتا ہے۔ مذکورہ عقد میں ادا کی جانے والی کل رقم کے واضح نہ ہونے اور اس جیسے پیش آنے والے دوسرے مسائل سے اصل عقد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح سے ربا کا مسئلہ نہ ہی عقد بیمہ میں جاری ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریٹائرمینٹ کے عقد میں۔ب۔ یہ مسئلہ اپنی تمام خصوصیات اور قوانین و ضوابط کے ساتھ شرط ضمن عقد کی صورت میں قرارداد میں شامل کیا جائے گا اور اس میں جو ابھامات یا شکوک پائے جاتے ہیں وہ اس کے صحیح ہونے کی راہ میں مانع نہیں بنتے۔ جیسا کی اوپر بیان کیا گیا۔
اگر آپ کے لئے واقعاً ثابت ہوجائے کہ ان میں غیر دینی مقاصد انجام دئے جائیں تو ایسی نشستوں میں شریک نہ ہوں ۔
جواب ۔ یہ رویات شاید ان جگہوں پر نظر رکھتی ہیں جہاں پر کوئی زبردستی کسی کی ڈھاڈی کو کاٹ دے لیکن اگر اس کی موافقت اور مرجی سے کاٹے تو یہ مثلہ کے عنوان میں داخل نہیں ہے اگر چہ احتیاط واجب اس کے ترک کرنے میں ہے
جواب: اس بات کے پیش نظر کہ ڈاکٹر حضرات اس بات کی وضاحت و صراحت کرتے ہیں کہ برین ھیمریج کے مریض ان افراد کی طرح ہیں جن کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو، جن کے دماغ بکھر چکے ہوں یا جن کے سر تن سے جدا کر دئے گئے ہوں اور جو مشینوں اور طبی وسائل کے ذریعہ کچھ دن زندہ رکھے جا سکتے ہیں مگر ان کا شمار ایک زندہ انسان کی طرح سے نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ وہ مردوں کی طرح بھی نہیں ہیں۔ لہذا ان کے احکام ایسے ہیں جو زندہ اور مردہ دونوں کے ہوتے ہیں جیسے احکام مس میت، غسل و نماز میت و کفن و دفن ان پر جاری نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ ان کے قلب کی حرکت بند اور بدن ٹھنڈا ہو جائے، ان کے اموال کو ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ان کی عورتیں وفات کے عدہ میں نہیں بیٹھیں گی، یہاں تک کہ جان اور روح ان کی بدن سے جدا ہو جائے، لیکن ان وکیلوں کی وکالت ساقط ہو جائے گی اور ان کا اعتبار ختم ہو جائے گا اور انہیں ان کی طرف یا ان کی وکالت میں خرید و فروش، ان کی کسی سے شادی اور بیویوں سے طلاق کا حق نہیں ہوگا، ان کے علاج کا جاری رکھنا واجب نہیں ہے، ان کے بعض اعضاء بدن کا نکالنا، اس صورت میں کہ اس سے کسی مسلمان کی جان اس سے بچ سکتی ہو، کوئی حرج نہیں رکھتا ہے، البتہ قابل توجہ نکتہ ہے کہ یہ سب اس صورت میں ہے جب مغزی موت پوری طرح سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہو اور زندہ بچ جانے کا بالکل بھی احتمال نہ پایا جاتا ہو۔