سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

ملزم سے اقرار لینے کے لئے اس پر سختی کرنا

بعض لوگوں کو چوری کے الزام میں گرفتار کرکے تھانہ میں لایا جاتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر عام طور پر پٹائی اور زدوکوب کے بغیر ان سے پوچھ تاچھ کی جائے تو وہ اقرار نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے ساتھیوں کا نام بتاتے ہیں، جس کے نتیجہ میں ۔، لوگوں کا چورایا ہوا مال جیسے گاڑی، قالین اور دیگر سامان، چوروں کے پاس رہ جاتا ہے، لیکن اگر کوڑے اور زدوکوب کا طریقہ استعمال کیا جائے تو اکثر اوقات، اپنے جرم کا اقرار اور اپنے ساتھیوں کا نام پتہ بھی بتادیتے ہیں، ایسی صورتحال میں ، تھانہ کے ملازم کیا کریں جو شرعی لحاظ سے جواب دہ نہ ہوں؟

جواب: کسی بھی ملزم کو ، شرعی طور پر اس کا جرم ثابت کئے بغیر، زدوکوب نہیں کیا جاسکتا مگر دوصورتوں میں:الف) جبکہ ملزم ایسے جرائم، جیسے لوگوں کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، کار، گاڑی وغیرہ کا دروازہ کھول لینا یا غیر اخلاقی جرائم کا مرتکب ہوا ہو اور خود اس کے اعتراف کرنے سے اس قسم کے جرائم، ثابت ہوگئے ہوں نیز تعزیرات اور سزا کی دلیلیں اس کو شامل ہوں، اس صورت میں تعزیر کے عنوان سے اس کو سزا دی جاسکتی ہے اسی کے ذیل میں اس سے بازپرس کی جائے تاکہ جرائم کو وضاحت سے بیان کرے ۔ب) جبکہ مسئلہ اس قدر مہم ہو کہ اسلام یا اسلامی حکومت یا وسیع سطح پر مسلمانوں کی جان ومال سے تعلق رکھتا ہو، اس صورت میں، اہم ومہم کے قاعدہ کے مطابق، مذکورہ قسم کی سزا وتعزیر کا امکان ہوسکتا ہو، ضمناً یہ بھی بیان کردیا جائے کہ دور حاضر میں، ایسے طریقہ دنیا میں پائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ، ملزم کو زد وکوب کئے بغیر، اس سے زیادہ بازپرس کرکے اس کے بیان حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔

دسته‌ها: اقرار کے احکام

ریٹائرمینٹ کی سرکاری حیثیت

ریٹائرمینٹ کی شرعی حیثیت اور دونوں فریق کے حقوق کے بارے میں توضیح دیں؟

ریٹائرمینٹ کے مسائل کو بھی دو طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے:الف: پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسے اصل قرارداد کے ضمن میں ایک نئے عقد کا عنوان دیا جائے، جس میں عقد کی تمام شرطوں کا لحاظ کیا گیا ہو جیسے دونوں فریق بالغ ہوں، عاقل ہوں۔ ریٹارمینٹ کے مسائل کے باب میں جو ابھامات پائے جاتے ہیں جسیے یہ کہ اس عقد میں سفاہت کے حکم نہیں لگ سکتے، اس لیے کہ اس کا عقلی حکم واضح ہے اور یہ بات اس عقد کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے۔ در حقیقت یہ عقد اور قرارداد بیمہ کے عقد اور قرارداد کی طرح ہے جو ایک مستقل عقد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس آیہ کرہمہ (اوفوا بالعقود) کے ضمن میں آتا ہے۔ مذکورہ عقد میں ادا کی جانے والی کل رقم کے واضح نہ ہونے اور اس جیسے پیش آنے والے دوسرے مسائل سے اصل عقد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح سے ربا کا مسئلہ نہ ہی عقد بیمہ میں جاری ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریٹائرمینٹ کے عقد میں۔ب۔ یہ مسئلہ اپنی تمام خصوصیات اور قوانین و ضوابط کے ساتھ شرط ضمن عقد کی صورت میں قرارداد میں شامل کیا جائے گا اور اس میں جو ابھامات یا شکوک پائے جاتے ہیں وہ اس کے صحیح ہونے کی راہ میں مانع نہیں بنتے۔ جیسا کی اوپر بیان کیا گیا۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین

تحقیقی کاموں میں محقق اور نگراں کا اختلاف

جب کوئی شخص کسی آدمی کے ساتھ درج ذیل شرح کے مطابق زبانی معاہدے کرے:”آپ یہ تحقیق کا کام انجام دیں، میں آپ کو فی گھنٹہ ڈیڑھ سو (۱۵۰) تومان دوںگا اور تحقیق سے مراد، مطالب کی دوبارہ کتابت، مطالب کو مناسب جگہ پر رکھنا، جدید، طریقے سے ترتیب دینا، یا اس کی تکمیل اور اصلاح کرنا ہو“۔طرفین قبول کرتے ہیں اور ابہامات کو دور کرنے کی غرض سے پے درپے نشست رکھتے ہیں، چند مہینہ کام کرنے کے بعد محقق ایک ہزار گھنٹوں سے زیادہ کے کام کی فہرست پیش کرتا ہے، جبکہ کام دینے والا شخص دعویدار ہے کہ جیسے کہاگیا تھا اس نے ویسے کام انجام نہیں دیا ہے اور طے شدہ شرائط کے مطابق کام مکمل نہیں ہوا ہے، برائے مہربانی آپ فرمائیں:۱۔ تحقیق کا کام دینے والا شخص کس قدر مقروض ہے، یعنی اسے کس قدر رقم ادا کرنا ہوگی؟۲۔ کام کے معنوی حقوق، معاہدے میں بیان نہیں ہوئے ہیں، کیا محقق کا نام تعاون کرنے والے کی حیثیت سے مصنف کے ساتھ لکھا جائے؟

جواب: اگر عقد معاملہ میں صراحت کے ساتھ بیان کئے گئے شرائط یا جو معاملہ کی بنیادی بات تھی، اس کے برخلاف عمل کیا گیا ہے تو اس صورت میں اُسے اجرة المثل (اس جیسے کام کی جو اجرت بنتی ہے) ادا کرنا ہوگی البتہ اِس شرط پر کہ اجرة المثل، طے شدہ اجرت سے زیادہ نہ ہو، لیکن اگر ٹائم کی مقدار میں اختلاف ہے تو کام کرنے والا شخص، شرعی دلیل سے ٹائم (گھنٹوں) کی مقدار کو ثابت کرے، مگر یہ کہ ٹائم کی مقدار کا معیّن کرنا خود اسی کے ذمہ قرار دیا گیا ہو ۔جواب: اگر (کتاب پر) محقق لکھنے کا معاہدہ نہیں ہوا ہو اور عام رواج کے مطابق بھی مصنف کو اسی کام پر مجبور نہ کیا جاتا ہو (کہ ایسی صورت اختیار کرلے کہ معاہدے کی بنیادی شرط وہی ہے) تب (کتاب پر)محقق کا نام لکھنا لازم نہیں ہے ۔

”یاعلی“ کے وِرد کا ختم

کچھ دنوں پہلے، ”یاعلی کا ختم“ رائج ہوگیا ہے، اس سلسلے میں جنابعالی کی کیا نظر ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معصومین علیہم السلام خصوصاً وجود مبارک امیر المومنین علیہ السلام سے توسل کرنا اور بارگاہ خداوندی میں ان کو شفیع قرار دینا، بہترین عبادت اور حل مشکلات کا سبب ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ مذہب اہل بیت علیہم السلام کے پیروان ایسی دعاؤں اور توسلات سے استفادہ کریں جو معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں؛ جیسے دعائے توسل کیونکہ اس کو علامہ مجلسیۺ اور دیگران نے معتبر کتب کے حوالے سے آئمہ علیہم السلام سے نقل کیا ہے، اور حاجتوں کی برآوری کے لئے بہت زیادہ موٴثر ہے ۔

دسته‌ها: دعا

مغزی موت سے متعلق شرعی احکام

برین ھیمریج کے بارے میں بارہا متعدد سوال کر چکا ہوں اور آپ نے جواب عنایت کیا ہے، اگر اجازت دیں تو اسے مفصل آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، برین ھیمریج سے ہونے والی موت میں دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور صرف اس کے اعضاء رئیسہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس سے وہ زندہ تو ہوتا ہے مگر ایسے انسان کا عام زندگی کی طرف لوٹ آنا ممکن نہیں ہوتا، اس کے ضمن میں اس مریض کی طرف سے پیش آنے والے مخلتف قانونی و مالی احکام و مسائل کے بارے مہربانی کرکے مختصر و مفید جواب عنایت فرمائیں؟

جواب: اس بات کے پیش نظر کہ ڈاکٹر حضرات اس بات کی وضاحت و صراحت کرتے ہیں کہ برین ھیمریج کے مریض ان افراد کی طرح ہیں جن کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو، جن کے دماغ بکھر چکے ہوں یا جن کے سر تن سے جدا کر دئے گئے ہوں اور جو مشینوں اور طبی وسائل کے ذریعہ کچھ دن زندہ رکھے جا سکتے ہیں مگر ان کا شمار ایک زندہ انسان کی طرح سے نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ وہ مردوں کی طرح بھی نہیں ہیں۔ لہذا ان کے احکام ایسے ہیں جو زندہ اور مردہ دونوں کے ہوتے ہیں جیسے احکام مس میت، غسل و نماز میت و کفن و دفن ان پر جاری نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ ان کے قلب کی حرکت بند اور بدن ٹھنڈا ہو جائے، ان کے اموال کو ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ان کی عورتیں وفات کے عدہ میں نہیں بیٹھیں گی، یہاں تک کہ جان اور روح ان کی بدن سے جدا ہو جائے، لیکن ان وکیلوں کی وکالت ساقط ہو جائے گی اور ان کا اعتبار ختم ہو جائے گا اور انہیں ان کی طرف یا ان کی وکالت میں خرید و فروش، ان کی کسی سے شادی اور بیویوں سے طلاق کا حق نہیں ہوگا، ان کے علاج کا جاری رکھنا واجب نہیں ہے، ان کے بعض اعضاء بدن کا نکالنا، اس صورت میں کہ اس سے کسی مسلمان کی جان اس سے بچ سکتی ہو، کوئی حرج نہیں رکھتا ہے، البتہ قابل توجہ نکتہ ہے کہ یہ سب اس صورت میں ہے جب مغزی موت پوری طرح سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہو اور زندہ بچ جانے کا بالکل بھی احتمال نہ پایا جاتا ہو۔

دسته‌ها: علاج، معالجه

ڈاڑی منڈانے کے مثلہ ہو نے پر روایات کا مطلب

کیا وہ رویات جو ھاڈی منڈانے کو مثلہ کرنے سے تشبیہ دیتی ہیں ڈھاڈی منڈانے کے حرام ہو نے پر دلالت نہیں کرتی ہیں ؟

جواب ۔ یہ رویات شاید ان جگہوں پر نظر رکھتی ہیں جہاں پر کوئی زبردستی کسی کی ڈھاڈی کو کاٹ دے لیکن اگر اس کی موافقت اور مرجی سے کاٹے تو یہ مثلہ کے عنوان میں داخل نہیں ہے اگر چہ احتیاط واجب اس کے ترک کرنے میں ہے

دسته‌ها: ڈاڑهی منڈ وانا

بیٹے کے قتل کے مورد میںماں باپ کی سزاؤں میں فرق کی وجہ

بہت سے فقہاء فرماتے ہیں : ”باپ کا بیٹے کو قتل کرنے کی وجہ سے قصاص نہیں کیا جائے گا لیکن ماں کو قصاص کیا جائے گا“ اس فرق کی دلیل کیا ہے؟

جواب : اس حکم میں باپ اور ماں کے درمیان فرق کی عمدہ دلیل وہ بہت ساری روایات ہیں جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ان میں بہت سی روایات میں کلمہ”رجل“ یا ”اب“ ہے جالب نظر، یہ ہے کہ کلمہ”رجل“ یا ”اب“ راوی کے سوال میں ہی نہیں ہے تاکہ کہہ سکیں کہ راوی نے اپنے محل ابتلاء کے متعلق سوال کیا تھا، بلکہ یہ امام (ع)کے کلام میں بھی موجود ہے، جو اس فرق پر بہترین دلیل ہے اور یقینا ”رجل“ یا ”اب“ کو مفہوم اعم پر حمل کرنا بہ حسب متفاہم عرب ممکن نہیں ہے اور ”والد“ کا ظہور بھی یہی معنی رکھتا ہے، مفہوم اعم پر حمل کرنا بہت مشکل نیز فقہی موازین سے بھی سازگاری نہیں رکھتا، اس کے علاوہ یہ مسئلہ تقریباً اجماعی ہے ان تمام روایات اور اقوال کے باوجود اس کی مخالفت کرنا ذوقِ فقہی سے سازگاری نہیں رکھتااور یہاں پر قاعدہٴ ”درء“ سے متمسک ہونا بہت زیادہ مشکل ہے؛ اس لئے کہ قانون قصاص کی عمومیت، متعدد آیات وروایات سے استفادہ ہوتی ہے اور اس حکم سے استثنا کرنے لئے ایک محکم دلیل درکار ہے کہ جو یہاں پر موجود نہیں ہے، ضمناً اس فرق کا فلسفہ نسبتاً روشن ہے جو اہل تحقیق قارئین کے اوپر پوشیدہ نہیں ہے، بہتر تھا کہ اس امتیاز کو باپ سے چھین نے کی کوئی فکر کرتے نہ یہ کہ اس امتیاز کو ماں کو بخشنے کی فکر میں لگے ہیں۔

دسته‌ها: قصاص کے احکام
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت