نابینا کی دونوں آنکھوں کو ختم کردینا
نابینا کی آنکھوں کا ختم کرنا دیت کا باعث ہے یا ارش کا؟ دیت کی صورت میں ، کتنی مقدار دینا ہوگی؟
جواب:اس کی دیت کامل آنکھ کی ۱/۳ ہوگی۔
آنکھوں کی پلکوں کو ختم کردینے کی دیت
چونکہ فقہاء عظام نے دو آنکھوں اور چار پلکوں کی دیت، کامل دیت ذکر کی ہے اور اوپر اور نیچے کی پلکوں کے درمیان فرق کے قائل ہیں، اس تفصیل کے ساتھ کامل دیت کا ثلث ۱/۳ اوپر والی پلکوں کے لئے اور نیچے کی پلکوں کے لئے کامل دیت کی آدھی ہے، حضور فرمائیں:اوّلاً: اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ آج کے دور میں آنکھ کے اوپریشن میں یا آنکھ تبدیل کرنے کے اپریشن میں کہا جاسکتا ہے کہ ہمیشہ پلکوں کو دوبارہ اُگایا جاسکتا ہے، میں ترمیم کا امکان پایا جاتا ہے، کیا اس صورت میں بھی کامل، دیت ہے، یا اہل خبرہ کی ترمیم یا عدم ترمیم کے بارے میں نظر، مقدار دیت کے معیّن کرنے میں موثّر ہے؟ثانیاً: عضو کی قدر وقیمت کے اعتبار سے اور اوپر اور نیچے کی پلکوں کے علاج کے طریقے میں طبی علم کی پیشرفت کو مدنظر رکھتے ہوئے، کوئی محسوس اختلاف نظر نہیں آتا، کیا دیت کا اختلاف منصوص ہے اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے یا طبّی اور اہل خبرہ کی نظر کی بنا پر تغیر کا امکان پایا جاتاہے؟ثالثاً: اس صورت میں جب کہ اوپر کی پلکوں کی دیت، کامل دیت کی ایک تہائی ہو اور نیچے کی پلکوں کی دیت کامل دیت کی آدھی ہو تو باقی ماندہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس صورت میں جبکہ آج اپریشن کے طریقہ سے کاملا ترمیم (بدل جائیں)ہوجائیں تو ارش دینا ہوگا اوراگر کوئی نقص باقی رہ گیا ہو تو اس کی بہ نسبت محاسبہ ہوگا اورجیسا کہ آپ نے تحریر کیا ہے اوپر کی پلک کی دیت ایک ثلث ۱/۳ اور نیچے کی پلک کی دیت نصف ۱/۲، باقی ماندہ(ایک سدس۱/۶)ملغی ہے(کوئی حکم نہیں ہے)۔
ناک کوتوڑنے یا خراب کرنے کی دیت
تعذیرات اسلامی کی دفعہ ۴۴۲/ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جس میں اس طرح بیان ہوا ہے: ہر اس عضو کی ہڈی توڑنے کی دیت، جس کی دیت معین ہے، اس عضو کی خُمس ۱/۵ دیت ہے اور اگر بغیر عیب کے علاج ہوجائے، تو اس کی دیت اس کے ٹوتنے کی ۴/۵ ہے اوراسی قانون کی دفعہ ۳۸۲/ اعلان کرتی ہے کہ” اگر جلانے یا توڑنے وغیرہ سے ناک کو فاسد کردیں تو صحیح نہ ہونے کی صورت میں کامل دیت ادا کرنا ہوگی اور اگر بغیر عیب کے صحیح ہوجائے تو اس کی دیت ۱۰۰ دینار ہے“ جب کہ اکثر عدالتوںمیں حاکم کے رویّوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ جب بھی ناک عمدی یا غیر عمدی جنایت کی وجہ سے شکستگی سے دوچار ہوجائے تو دیت کے قاعدہ کلی (جس کو اسلامی تعذیرات کی دفعہ ۴۴۲/ میں بیان کیا گیا ہے) سے خارج جانتے ہیںاور مذکورہ قانوں کی دفعہ ۳۸۲ کو دلیل بناتے ہوئے کہتے ہیں، جنایت کرنے والاٹوٹی ہوئی ناک صحیح ہونے کی صورت میں ایک سو دینار ادا کرنے پر محکوم ہوگا اور صحیح نہ ہونے کی صورت میں کامل دیت دینا ہوگی، حالانکہ معلوم یہ ہوتا ہے اس دفعہ کا موضوع ناک کا فاسد ہوجانا ہے اور ٹوٹنا یا جلانا وغیرہ ناک کے اسباب فساد کے عنوان بیان ہوئے ہیں، نہ فاسد ہونے کے مصادےق میں سے لہٰذا ناک کے فساد مصادیق اور مفہوم کے ابہام پر عنایت رکھتے ہوئے فرمائےے:اوّلاً: بطور مشخص ناک کے فاسد ہونے سے منظور کیا ہے؟ اور کیسے اس کی تلافی ہوگی؟ثانیاً: مختلف صورتوں میں ناک کے ٹوٹنے کی دیت کی مقدار کیا ہے؟
جواب:ناک کے فاسد ہونے سے منظور یہ ہے کہ زخم کے متعفّن ہوجانے یا تیزاب ڈالنے وغیرہ کی وجہ سے پوری ناک ختم ہوگئی ہو، ثانیاً: کامل طور سے فاسد ہونے کی صورت میں اس کی کامل دیت منظور ہوئی ہے اور ٹوٹنے یا ناقص فاسد ہونے کی صورت میں چاہے تلافی ہوجائے یا نہ ہو پائے ارش کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
مقتول کا دو اشخاص کے درمیان مردّد ہونے کی صورت میں دیت کا حکم
ان مواد میں جہاں قاتل معین اور مقتول دو شخصوں میں مردّد ہوں، اولیاء دم کودیت کی ادائیگی کیسے ہوگی؟
جواب: اگر کسی بھی طرح مقتول کو مشخص نہ کیا جاسکتا ہو تو دیت کو ان کے وارثوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہئے۔
باپ کااپنی ناجائز اولاد کو قتل کرنا
اگر باپ اپنی ناجائز اولاد کو قتل کردے تو کیا اس کو قصاص کیائے گا؟
جواب : قصاص نہیں کیا جائے گا، مگر دیت دینا ہوگی ۔
ان پیدل چلنے والوں کی دیت جو ہائی وے پار کرتے ہوئے گاڑی سے ٹکراکر مرگئے
دو پیدل شخص ڈرائیوری قانون وضوابط سے بغیر آشنائی کے کرج ساوہ ہائی وے کو پار کرہے تھے، کہ ایک گاڑی سے ٹکراکر دونوں مرگئے، فرمایئے کہ ان کی دیت کس کے ذمہ ہے؟
جواب: اس صورت میں جب کہ وہ لوگ جس جگہ سے روڑپار کررہے تھے وہ روڑ پار کرنے کی جگہ نہ ہو اور ڈرائیور لوگ معمولا ایسی جگہ کسی پیدل پار کرنے والے کی امید بھی نہیں رکھتے ہوں تو وہ لوگ خود بے احتیاطی کے مرتکب ہوئے ہیں ڈرایئور لوگ ذمہ دار نہیں ہیں۔
گرنیٹ(دستی بم) کے دغنے کی وجہ سے بچوں کا مرجانا
ایک گرنیٹ(دستی بم) معلوم نہیں کہاں سے آیا کون لایا، ایک بچہ کے ہاتھ میں دغ جاتا ہے، اس کے دغنے کی وجہ سے دوبچے مرجاتے ہیں، اب اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ان کے وارثین دم میں سے ہر ایک، ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا بیٹا بم لایا تھا تو اس صورت میں کیا تکلیف ہے ؟ کیا عاقلہ کی(مقتولین کے وارثین )مقتولین کے صغیر ہونے کی وجہ سے اس حادثہ کے ذمہ دار ہیں؟ اور بالفرض اگر کوئی ایک بھی ملزم نہ ہو تو دےت کی کیا تکلیف ہوگی؟
جواب: اس مسئلہ کی چند صورتیں ہیں: پہلی یہ کہ ان دونوں بچوں میں ایک قتل کا سبب ہے لیکن پہچانا نہیں گیا ہے ، اس صورت میں ایک انسان کی دیت طرفین کے عاقلہ پر تقسیم ہوگی اور ایک عاقلہ سے لے کر دوسرے عاقلہ کو دی جائے گی اور دوسرے عاقلہ سے لیکے پہلے عاقلہ کو، دوسری صورت یہ ہے کہ یہ حادثہ اتفاقا وجود میں آیا ہو اوران میں سے کوئی ایک بھی عامل نہ ہو، اس صورت میں کوئی دےت نہیں ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ تیسرا شخص اس حادثہ کا سبب تھا، اس صورت میںدیت بیت المال سے لی جائے گی۔
بہن کے ساتھ زنا کا دعوا کرنے والے کا قتل
علی کے ایک بائیس(۲۲) سالہ بہن ہے حسن کئی مرتبہ اس کا رشتہ مانگنے گیا لیکن ہر بار لڑکی کے گھر والوں نے مخالفت کا اظہار کیا، یہاں تک کہ چند مہینے پہلے دوبارہ لڑکی کے گھر رشتہ مانگنے گیا، لیکن پھر بھی انھوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا، اس کے بعد حسن نے یہ دعوا کیا کہ اس نے جبراً علی کی بہن پر تجاوز کیا ہے! علی یہ سن کر غصہ میں آگیا اور غیرت میں آکر گرم اسلحہ (بندوق وغیرہ) سے حسن کو قتل کردیا، یہ پورا قصہ عدالت کی مختلف تاریخوں اور انتظامیہ کے دفتر میں قاتل کی زبان سے بیان ہوا ہے، اس کی بہن نے بھی تھوڑے اختلاف کے ساتھ اسواقع ہ کی تائید کرتے ہوئے حسن کے بیان پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے، اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟
جواب: اگر یہ قتل، عمد کا پہلو رکھتا ہو تو اس صورت میںاس کا حکم، قصاص ہے اور اگر بے اختیاری صورت تھی اور اپنی معمولی حالت سے خارج ہوگیا تھا یا خیال کررہا تھا کہ شرعاً متجاوز کا قتل اس کے لئے جائز ہے، تو قصاص نہیں ہے، لیکن دیت ثابت ہے اور اگر صورتحال مشکوک ہو تب بھی دیت ہے قصاص نہیں ہوگا۔
لواط کرنے والے کا لواط کئے جانے والے کے ہاتھوں قتل
دوافراد نے ایک سولہ (۱۶) سالہ جوان کے ہاتھ پیر باندھ کر اس سے منھ کالا کیا، متجاوزین اس گھناؤنے فعل کے بعد سوجاتے ہیں، اس جوان نے ان کی اس غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں سے ایک کو لوہے کے ایک ٹکڑے سے ضرب لگاکر اور دوسرے کو ایک تیز دھار والے آلے (چاقو) سے قتل کردیا، اس بات کو کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ملزم نے یہ کام اپنے دفاع اور اس تصور سے انجام دیا ہے کہ مقتولین مہدور الدم ہیں، کیا اس صورت میں ملزم کو قصاص کیا جائے گا؟
جواب: چنانچہ ثابت ہوجائے کہ قاتل نے یہ کام اپنے دفاع کے عنوان سے اور اس خوف کی بنیاد پر کہ مبادا اس پر دوبارہ تجاوز کیا جائے ، انجام دیا ہے تواس صورت میں نہ قصاص ہے اور نہ دیت؛ لیکن اگر ثابت ہوجائے کہ اس کا تصور یہ تھا کہ وہ مہدور الدم ہےں اور وہ حکم خدا کو ان کے اوپر جاری کررہا ہے تو اس صورت میں قصاص نہیں ہے لیکن دیت ہے۔
زنا کے اقرار سے مہرالمثل کا لازم ہونا
اگر ایک مرد ایک بار زنا کا اقرار کرے کیا اس کو ارش البکارة کے ادا کرنے پر محکوم کرسکتے ہیں (البتہ شرائط کے محقق ہونے کی صورت میں)
جواب: احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر زنا بالجبر کا اقرار کرے یا ازالہٴ بکارت کا جبری طور سے اقرار کرے تو مہرالمثل ادا کرے۔
وجوہات شرعیہ اور تبرُّعات سے فاضل دیت کو ادا کرنا
ایک شخص نے اپنے بھائی کی بیوی (بھابھی) کو قتل کردیا اور قاضی القضاة کی طرف سے قصاص کے اوپر محکوم ہوا اس حکم کو ایک مدت گذر گئی اور قاتل قیدخانے میں ہے ، عدالت نے مقتولہ کے باپ کو اطلاع دی کہ فاضل دیت کو ادا کرے تاکہ حکم قصاص جاری ہوسکے، لیکن چونکہ مقتولہ کا باپ ایک بے بضاعت، فقیر اور عیالدار شخص ہونے کی وجہ سے فاضل دیت کے ادا کرنے پر قادر نہیں ہے لہٰذا افراد خیّر اور عزیز واقارب سے کمک طلب کرتاہے، کیا شرعیت کی نظر سے وہ لوگ بعنوان تبرع اور مفت یا بعنوان وجوہات شرعیہ اس کی کمک کرسکتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو قصاص کرسکے ؟
جب بھی حاکم شرع تشخیص دے کہ یہ کام یک مہم اجتماعی مصلحت پر مترتب ہے تو اس کام کو انجام دے سکتا ہے لیکن وہ قصاص جو ذاتی مقاصد کے لئے انجام پائیں یہ حکم ان کو شامل نہیں ہوتا اور کیا بہتر ہے کہ قصاص سے صرف نظر کرکے دیت پر ہی راضی ہوجائیں۔
کسی شخص کو حملہ آور سمجھ کر قتل کردینا
اگر کوئی شخص اس خیال سے کہ سامنے والا شخص حملہ آور ہے ، اس پر فائر کرے اور اس کو قتل کردے کیا اس کا قصاص ہوگا؟
اگر قاتل نے مدّمقابل شخص پر حملہ آور ہونے کا گمان کرکے گولی چلائی ہے، تو قصاص نہیں ہے لیکن دیت ضرور ادا کرے ۔
مغز کو نقصان پہنچنے کی دیت
کیا مغز کے لئے حیات بخش عضو ہونے کے سبب دیت ہے یا ارش؟ مغز کے مختلف حصّے اور اس سے مربوط اعضا جیسے سطح نخاعی، تحتانی، قشری وغیرہ کے لئے ارش ہے یا ان کی خاص دیت ہے؟
ان میں سے ہر ایک کے لئے ارش ہے اور اگر مغز کو نقصان پہنچنا کسی ایک منافع کا سلب ہوجانا، ہوجائے (جیسے قوت گویائی وغیرہ) تو منافع کی دیت جاری ہوگی۔