پہلی بیوی کے داماد کا دوسری بیوی کے ساتھ محرم ہونا
ایک شخص کے دو بیویاں ہیں اور دونوں بیویوں میں سے ہر بیوی کے چند بیٹیان ہیں اس نے سب بیٹیوں کی شادی کر دی ، کیا اس کے داماد دوسری بیوی کے لئے محرم ہیں ؟اور آیا ان کے بچے اور بچوں کے بچے خواہ اس کی لڑکیوں سے یا اس ( دوسری بیوی ) کی لڑکیوں سے ہوں ، اس مرد کی دوسری بیویوںکے لئے محرم ہوں گے ۔
بچے اور نواسے نواسیاں ، اس شخص اور اس کی بیوی کے لئے محرم ہیں لیکن ایک بیوی کے داماد دوسری بیوی کیلئے محرم نہیں ہیں ۔
خرید و فروخت کا معاملہ کی مقدار سے کم ہو نا
اگر کوئی شخص اس بنا پر کہ کوئی زمین فلاں مساحت کی مقدار میں ہے اسے فروخت کر دے اور معاملہ طے کرنے کے بعد متوجہ ہو جائے کہ اس زمین کی مساحت کم ہے ،کیا کامل طور پر معاملہ باطل ہے یا جس قدر زمین کم ہے اسی مقدار زمین کی قیمت خریدار فروخت کرنے والے سے واپس لے سکتا ہے ؟
جواب۔ موجود ہ مقدار کی نسبت معاملہ صحیح ہے لیکن اگر دونوں حضرات زمین کی مقدار سے بے خبر تھے تو اس صورت میں دونوں کو معاملہ کو فسخ کرنے کا اختیار ہے
ایسی مساجد کے سلسلے میں طلّاب دینی کا وظیفہ جن میں کوئی امام نہیں ہے
اُن مساجد کے سلسلے میں جن میں کوئی امام جماعت نہیں ہے اور بعض اوقات یہاں کے منومنین کے پاس ہدیہ دینے کے لئے بھی کچھ نہیں ہوتا، طلاب دینی کا کیا وظیفہ ہے؟
طلّاب کے لئے بہتر ہے کہ اس جیسے موارد میں نماز جماعت برپا کریں ۔
وہ مسجد جو غصبی زمین پر بنی ہے
اگر ایک غصبی زمین نے مرور ایّام کے ساتھ مسجد کی صورت اختیار کرلی ہو، کیا اس کے اوپر دوسرے طبقے بنائے جاسکتے ہیں؟ مثلا پہلے طبقہ پر رہائشی مکان، دوسرے طبقہ پر عمومی کتب خانہ اور تیسرے طبقہ پر اسپتال بنایا جاسکتا ہے؟
اگر یقینی طور پر زمین غصبی ہو تو ان میں سے کوئی بھی تصرف جائز نہیں ہے ۔
شوہر کا مستحب اعمال بجالانے سے منع کردینا
اگر زیارہ مستحب کام انجام دینے کی وجہ سے کوئی خاتون اس قدر تھک کر چور ہو جائے کہ شوہر، ضروری لذّت اس سے حاصل نہ کرسکے، کیا شوہر اسکو ایسے مستحب اعمال کرنے پر عمل کرنے سے منع کر سکتا ہے، اور آیا اِن جگہوں پر شوہر کی اطاعت کرنا واجب ہے ؟
جواب:۔شوہر اس کو روک نہیں سکتا مگر یہ کہ کلی طور پر لذّت حاصل کرنا ، ختم ہوجائے، اس صورت میں چونکہ شوہر کے حق سے ٹکراؤ ہوگیا ہے لہذا زوجہ شوہر کی اجازت کے بغیر (مستحب) عمل نہیں کرسکتی .
الزام لگانے کی وجہ سے تمکین نہ کرنا
اگر کوئی زوجہ اپنے شوہر سے کہے کہ تم نے مجھ پر الزام لگایا ہے یا دوستوں اور رشتہ داروں کے سا منے الزام آمیز باتیں کہہ کر میری بے عزتی کی ہے لہذا وہ خود کو اپنے شرعی شوہر پر حرام کرلے اور اس کو دیکھ کر پردہ کرے اور عام یا خاص طریقہ سے تمکین نہ کرے، کیا وہ ایسا کرسکتی ہے ؟
جواب ۔ان عذروں کی وجہ سے ؛تمکین سے منع کرنے کا حق نہیں رکھتی اور اگر شوہر نے اس پر الزام لگایا ہے تو اس کو حاکم شرع کے پا س جا نا چاہئے اور اس کے یہا ں پر سزا کامطالبہ کرناچاہیئے مگر یہ کہ خود زوجہ اس (شوہر ) کو معاف کردے ۔
خود کشی سے مربوط احکام
افسوس کہ کچھ سالوں سے ہمارے شہر میں خود کشی بڑی عام ہوگئی ہے اور کچھ جوان اس بُرے کام کا اقدام کرتے رہتے ہیں لیکن اگر ایسا ہوجائے کہ اس کا شرعی پہلو اور اس کے معاشرتی نقصانات کو اس سن کے افراد کے لئے تشریح اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے تو ان میں سے بہت کچھ افراد اس عمل سے باز آجائیں گے اور اس کی طرف ان کی سوچ تک بھی نہ پہنچے گی، اس موضوع پر عنایت رکھتے ہوئے، مہربانی فرماکر نیچے دیئے گئے کچھ سوالوں کے جواب مرقوم فرمائیں:الف) قتل نفس کا شرعی حکم کیا ہے؟ب) اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انسان کا بدن خود اس کا بدن ہے نہ کسی دوسرے کا اور اس کی ذمہ داری خود اسی کی طرف پلٹتی ہے تو پھر خود کشی کیوں حرام ہے؟ج) جو افراد اپنے کو قتل کرتے ہیں ان کا عالم برزخ میں کیا حال ہوگا؟د) جو شخص خود کشی کرتا ہے، کیا خداوندعالم کی عدالت میں اس کا برا اثر اس کے والدین پر بھی پڑے گا؟ھ) ایسے اشخاص کا مومنین کے قبرستان میں دفن کرنا اور ان کے لئے سوگ کی مجالس برپا کرنا کیسا ہے ؟و) بہت سی جگہوں میں متوفی کا غمزدہ اور داغدار گھر اس بہانہ کے ساتھ کہ یہ کام عام اور طبیعی حالات میں انجام نہیں پایا ہے، اس کے لئے طبیعی موت والے سارے رسوم وآداب انجام دیتے ہیں، کیا ان کا یہ عمل صحیح ہے؟ز) وہ اشخاص جو خودکشی کرتے ہیں کیا اہل بیت علیہم السلام کی شفاعت ان کے شامل حال ہوگی؟ح) معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں کیا خداوندعالم کی بارگاہ میں خود کشی کرنے والوں کے بخشے جانے کا کوئی احتمال ہے؟
جواب: الف سے ح تک: یقیناً خودکشی گناہ کبیرہ ہے اور انسان کا اپنے نفس کا مالک ہونا خودکشی کی دلیل نہیں بن سکتا، ایسے ہی جیسے کہ انسان کا اپنے اموال کا مالک اس میں آگ لگانے کی دلیل نہیں ہوسکتا ہے البتہ ایسے اشخاص کے لئے تمام رسومات دیگر عام مسلمانوں کی طرح انجام دیئے جائیں اور ان کی نجات کی دعا کی جائے شاید عفو الٰہی ان کے شامل حال ہوجائے ۔
اس دیوانہ کا حکم جو عاقل ہونے کی دوا استعمال کررہا ہے
عدالت اور ماہرین نفسیات کمیشن کے ذریعہ ایک شخص کے ممنوع التصرف (مالی امور میں تصرف کا منع ہونا) ہونے کا حکم صادر ہوگیا، اس کے بعد اس رائے پر اعتراض ہوتا ہے تو دوبارہ مذکورہ ممنوع التصرف شخص کو ماہرین نفسیات کمیشن کے یہاں بھیج دیا جاتا ہے، کمیشن نظریہ پیش کرتا ہے کہ یہ شخص پہلے دیوانہ رہا ہے، لیکن اب دوا کے استعمال کرنے کی وجہ سے صحت وسلامتی کی حالت میں ہے، لیکن اگر دوا کھاناچھوڑدے تو اپنے کام کاج کی دیکھ بھال کرنے پر قادر نہیں ہوگا، اسلام کی مقدس شریعت کی رو سے اس طرح کے شخص اور سرپرست کا کیا وظیفہ ہے،؟ کیا دوا کے استعمال سے صحیح وسالم ہونے کی حالت میں بھی، اُسے سرپرست کی ضرورت ہے ؟ یا اس کو اپنے جس مال میں تصرف کرنا اس کے لئے منع تھا، تصرف کرسکتاہے ؟
اس طرح کا شخص،ادواری (ایک وقت میں دیوانہ دوسرے وقت میں عاقل) پاگل ہے ۔ افاقہ کے زمانے میں اس کے اوپر عاقل کے احکام جاری ہوں گے ۔
تمکین دینے کی تعداد کے بارے میں شرط لگانا
اگر بیوی شرط لگائے کہ ہفتہ میں ایک باریا دو بار تمکین (همبستری کی اجازت)دے گی ، کیا یہ شرط صحیح ہے ؟
اگر میاں بیوی دونوں اس شرط پر راضی ہوگئے ہوں تو یہ شرط صحیح ہے ۔
دوسری جماعت کے لئے پہلے امام جماعت کی مرضی
مہربانی فرماکر مندرجہ ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:۱۔ اگر کوئی امامِ جماعت، اعتراض کی وجہ سے نماز جماعت کو ترک کردے اور مسجد کی کمیٹی کے افراد نیز مومنین کے مکرر اصرار کے باوجود بھی مسجد آنے پر راضی نہ ہو جبکہ مسجد خصوصاً محرم اور صفر کے تبلیغی ایّام میں تعطیل ہوجائے کیا مسجد کی کمیٹی کسی دوسرے جامع الشرائط امام جماعت کو مسجد میں نماز جماعت کرانے کے لئے دعوت دے سکتی ہے؟۲۔ اگر پہلا امام جماعت کہے: ”میں راضی نہیں ہوں کہ کوئی دوسرا امام جماعت اس مسجد میں جماعت کرائے“ کیا اس کی یہ بات مانی جائے گی؟۳۔ کیا امامِ جماعت، مسجد کی کمیٹی سے ماہانہ تنخواہ کا مطالبہ کرسکتا ہے؟
جب بھی کوئی امام جماعت کسی بھی وجہ سے مسجد کو چھوڑدے، اور وہاں پر نماز جماعت کرانے کے لئے آمادہ نہ ہو، تو اس صورت میں دوسرے جامع الشرائط امام جماعت کے ذریعہ نماز جماعت برپا کرنے میں اس کی رضایت شرط نہیں ہے ۔ امام جماعت تنخواہ کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتا، لیکن سزاوار ہے کہ مومنین اس کا انتظام کریں، بہرحال بہتر ہے کہ اختلافات کو مصالحت سے دور کرلیا جائے ۔
قاتل کو پکڑنے میں ناامیدی
جب بھی قاتل فرار ہوجائے اور اس کے مرنے تک دسترسی ممکن نہ ہو تو اس صورت میں تکلیف کیا ہے؟
دیت کو اس کے مال سے لے سکتے ہیں۔
کفیل کے پاس ضمانت کی رقم نہ ہونے کی صورت میں دیت پر محکوم مجرم کی گرفتاری
چنانچہ ملزم پر دیت ادا کرنے کا حکم صادر ہوجائے اور اس کے پاس کوئی معتبر ضامن جیسے وثیقہ یا وکیل نہ ہو، لیکن وہ ملزم ابھی مہلت میں ہو، یعنی قتل عمد میں ایک سال اور قتل غیر عمدی میں دیت ادا کرنے کے لئے دو سال کی مہلت ہوتی ہے، کیا شریعت کی رو سے مقررہ مہلت سے پہلے اسے گرفتار کرنا شرعاً جائز ہے ؟
جب بھی اس بات کا خوف ہو کہ مجرم فرار ہوجائے گا اور ہر گز دیت کی رقم ادا نہیں کرے گا نیز ضمانت اور کفالت کے ذریعہ بھی یہ مشکل حل نہ ہوسکے گی تواس کوگرفتار کیا جاسکتا ہے ۔