سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

مامومین کا لباس نجس ہونا

پہلی صف میں تین شخص جن کا لباس نجس ہے نماز پڑھ رہے ہیں کیا ان کی وجہ سے داہنی جانب نما ز پڑھنے والوں کا، جماعت سے اتصال ختم ہو جاتا ہے ؟

جواب:۔ جب تک کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا لباس یا بدن نجس ہے اور نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہے ، اور جماعت کا اتصال بھی بر قرار رہتا ہے۔

خودکشی کا قصد رکھنے والے کو اس سے روکنا

ایک شخص کسی طرح سے خودکشی کرنا چاہتا ہے، اس کے بارے میں ذیل میں دئے جا رہے سوالوں کے احکام بیان فرمائیں:الف۔ کیا اسے خودکشی سے روکنا دوسروں کے لیے واجب ہے؟ب۔ اگر اس شخص کو خود کشی سے روکنا کسی خرچ کا باعث ہو تو ہو کس کے ذمے ہوگا؟ج۔ اگر بچانے والی کی خود کی جان کسی خطرے میں پڑ جائے تو کس اس کا کس حد تک خود کو خطرہ میں ڈالنا صحیح ہے؟د۔ خود کشی کرنے والے کی جان بچانے کے مسئلہ میں، کیا مسلمان، کافر حربی و غیر حربی میں کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ھ۔ کیا اس شخص کو خود کشی سے روکنے کے لیے اس کی اجازت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟و۔ اگر خودکشی والا بچانے والی کی کوشش سے راضی نہ ہو اور بچانے میں اسے کوئی نقصان پہچ جائے تو کیا بچانے والا ضامن ہے؟

جواب: الف تا ج۔ خودکشی سے روکنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور اگر اس کے بچانے میں کم ہیسا خرچ ہو رہا ہو تو جان بچانے والے کو خرچ کرنا چاہیے لیکن اگر پیسا زیادہ خرچ ہو رہا ہو تو یا جان کا خطرہ ہو تو اس کے اوپر بچانا لازم نہیں ہے لیکن اگر بیت المال اسے ادا کر سکتا ہو تو اسے ادا کرنا چاہیے ۔د۔ کافر حربی کی جان بچانا لازم نہیں ہے جبکہ کافر ذمی کے بارے میں احتیاط یہ ہے کہ اس کی جان بچانا چاہیے ۔ھ۔ اس کی اجازت کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔و۔ اگر اسے بچانے کے راہیں محدود ہوں اور اس میں اسے ضرر پہچ جائے تو اسے بچانے کے لیے ایسا کر سکتا ہے اور ضامن بھی نہیں ہے ۔

دسته‌ها: خود کشی

ٹیکس اور رقوم شرعیہ کی حدود

بہت سی نشستوں میں یہ بحث ہوتی ہے: کیا اسلامی حکومت میں ٹیکس (جبکہ کبھی اس کو زیادہ فی صد کے حساب سے لیا جاتا ہے) خمس وزکات کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر وہ ان کی جگہ نہ لے سکے تو ان لوگوں کے لئے جو خمس وزکات کے پابند ہیں کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تاکہ انھیں کم ٹیکس (کم سے کم ادا شدہ خمس وزکات کے برابر) ادا کرنا پڑے خصوصاً اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکس اور رقم وصولی کے دفتر پر ایک فقیہ جامع الشرائط حاضر وناظر ہوتا ہے؟

مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: مالیات (ٹیکس)

قسم کے تقاضوں کے بر خلاف اقرار کرنا

چنانچہ کسی شخص کے بارے میں مخصوص طریقہ سے قسم کھانے کی ذریعہ قصاص کا فیصلہ ہوجائے اور (یقینی فیصلہ کے بعد) فیصلہ پر عمل کرنے کے مرحلہ میں، مجرم کا بیٹا اسی مقتول کو عمداً قتل کرنے کا اعتراف کرے تو کیا وظیفہ ہے؟

اس مسئلہ کی چند صورت ہیں:الف) مدعی خود بھی قسم کھانے والوں شامل تھا، اس صورت میں بعد کے اقرار پر عمل نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہ مدعی خود اپنی تکذیب کرے ۔ب) مدعی قسم کھانے والوں میں شامل نہیں تھا یعنی اس کے لئے قسم کھانا ضروری نہیں تھا، پھر بھی اگر مدعی یقینی رہا ہو تب بھی اس کے اقرار کے مطابق عمل نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہ وہ اپنی تکذیب کرے ۔ج) اس کا دعویٰ گمان پر مبنی ہو، اس صورت میں اختیار ہے کہ خود قسم کے تقاضے پورے کریں اور اس کے مطابق عمل کریں یا اقرار کے مطابق عمل کیا جائے، لیکن عدالتی کارروائی میں، گمان پر مبنی دعوے کو قبول کرنا مشکل ہے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ اپنی تکذیب نہ کرنے کی صورت میں، اقرار کے مطابق عمل نہیں کیا جاسکتا ۔

دسته‌ها: لوث اور قسامه

گاؤں والوں کا کچھ خاص قوانین بنانا

معمولاً دیہاتوں میں لوگ نظم و ضبط کی حفاظت کے لئے کچھ قوانین بنا تے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی اپنے مویشیوں کو دوسری کی زمین یا کھیتوں میں چرائے اور دوسرے کی کھیتی کو نقصان پہنچائے تو مویشیوں کے ما لکان سے جرمانے کے طور پر ایک معین رقم وصولتے ہیں، مالک کے جرمانے کو ادا نہ کرنے کی صورت میں اسی جانور کو باندھ لیتے ہیں جس نے نقصان پہچایا ہے، چنانچہ تین مالک دن کے اندر جرمانہ ادا نہ کرے تو اس کو بیچ کر جرمانہ کی رقم اس میں سے لے لیتے ہیں اور باقی دیہات کی عمومی ضرورت میں خرچ کرتے ہیں، لہٰذا حضور فرمائیں:اولاً: کیا ایسے موارد میں ایسے قوانین کا بنانا جائز ہے؟ثانیاً: جائز ہونے کی صورت میں، کیا ایک ہزار تومان جریمہ کی خاطر، مالک کے جریمہ دینے کی صورت میں اس جانور کو بیچا جاسکتا اور اس کے پورے پیسے کو گاؤں کی عمومی ضرورتوں میں خرچ کیا جاسکتا ہے؟ البتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ اگر ایسی جگہوں میں نظم اور قوانین نہ بنائیں جائیں تو پورا گاؤں حرج و مرج کا شکار، اور کمزوروں یتیموں اور بے سر پرستوں کا حق پائمال ہوجائے گا ۔

اگر ایسی جگہوں میں نظام کی حفاظت ایسے قوانین پر موقوف ہوتو پھر کوئی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ مجتہد یا ایسے شخص کی زیر نظر ہو جو اس کی طرف سے ماذون ہو اور یہ کام شریعت کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے انجام پائے ۔ اور جرمانے کے حاصل کرنے کی صورت میں، عدالت سے کام لیا جائے اور اضافی پیسے کو اس کے مالک کو پلٹا یا جائے ۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت