خیار شرط کی مدت کا معیّن نہ کرنا
اگر ادھار کی صورت میں کسی مکان کا معاملہ ہوجائے تو بیعانہ میں یعنی خرید وفرخت کے صیغہ میں شرط کی جائے کہ اگر خریدار معین وقت پر قیمت ادا نہ کرے تو بیچنے والے (مالک) کو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہوگا، لیکن اس اختیار کو استعمال کرنے کی مدّت کو معین نہیں کیا گیا ہے اور چونکہ خرید وفروخت کے صیغہ میں خیارشرط کی مدّت کو معیّن کرنا ضروری ہوتا ہے لہٰذا اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا اس قسم کا معاملہ صحیح ہے؟
یہ معاملہ اور اس شرط میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ حق سے فائدہ اٹھانا اور اسے استعمال کرنا، مقامی رواج اور عادت کے مطابق ہے، ہاں البتہ توجہ رہے کہ شرط کا باطل ہونا، عقد معاملہ کے باطل ہونے کا باعث نہیں ہوتا ۔
فروختہ شدہ چیز میں قانونی مشکل ہونے کی صورت میں فسخ کرنے کا حق
دوشخص کسی وسیلہٴ سفر گاڑی (جیسے کار یا موٹر سائیکل وغیرہ) کا معاملہ کرلیتے ہیں، بیچنے والا شخص گاڑی کی ہر طرح کی قانونی اور شرعی مشکل کو اپنے ذمہ لیتا ہے، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ موٹرسائیکل یا گاڑی کی نمبر پلیٹ میں دستکاری کی گئی ہے، جبکہ ٹریفک پولیس اس طرح کی گاڑیوں کو روک لیتی ہے، تب خریدار قانونی طریقہ سے قیمت کی رقم واپس لینے کا تقاضا کرتا ہے، اس لئے کہ ممکن ہے وہ گاڑی چوری کی ہو، یہاں پر یہ بتا بھی ضروری ہے کہ اس گاڑی کے بارے میں اپنی ملکیت کا دعویدار کوئی دوسرا آدمی بھی موجود نہیں ہے یعنی دوسرے کی ملکیت کا دعویٰ بھی درپیش نہیں ہے لہٰذا اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ اس صورت میں قاعدہ ید حاکم ہے، کیا فقط گاڑی کی نمبر پلیٹ میں دستکاری کرنا معاملہ کے فسخ ہونے یامعاملہ کے فضولی ہونے کا باعث ہوجائے گا یا نہیں؟
مسئلہ کے مذکورہ فرض میں خریدار کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہے ۔
قرض کے بجائے کوئی ایسا معاملہ (بیعنامہ) کرنا جسے فسخ کرنا ممکن ہو
ایک شخص کی دوسرے آدمی سے لڑائی ہوجاتی ہے جس میں وہ شخص مدمقابل کو قتل کردیتا ہے سن ۱۳۵۸ھ ش میں قتل کی دیت، اٹھارہ ہزار افغانی (روپیہ) معیّن ہوتا ہے، لیکن چونکہ قاتل کے پاس نقد رقم نہیں تھی، وہ اپنی زمین کو اس شرط پر فروخت کردیتا ہے کہ وہ اس معاملہ (بیعانہ) کو فسخ کرسکتا ہے یعنی جب وہ مذکورہ رقم ادا کردے گا تو اپنی زمین واپس لے لیگا، کیا قاتل کو حق ہے کہ رقم دے کر اپنی زمین کو واپس لےلے؟
اس طرح کا خیار شرط صحیح نہیں ہے، لیکن اگر بیعانہ کرتے وقت وہ شخص مغبون تھا تو خیار غبن کو استعمال کرسکتا ہے ۔
جس چیز کا بیعنامہ یا معاملہ ہوا ہے طولانی مدت گذرنے کے بعد اس چیز کے عیب کا آشکار ہونا
ایک صحیح السند رہائشی مکان کو اپنی بیوی کے ساتھ آدھے آدھے کی مشارکت میں خریدا تھا، معاملہ کے وقت پہلی دیکھ بھال میں تو گھر کے اندر کوئی ظاہری عیب دکھائی نہیں دیا، لیکن اس کے ۲۰ سال بعد جب گھر کی عمارت خراب ہونے لگی اور رنگ و روغن بھی پھیکا پڑگیا تو ہم نے اس کی مرمّت کا ارادہ کیا، اس کام کے لئے ہم نے پہلے چونے کا پلاستر اُکھاڑ دیا جب اینٹیں نظر آنے لگیں تو پتہ چلا کہ گھر کی ایک طرف کی تقریباً ۷ میٹر کی دیوار ہی نہیں ہے! اس طرح کہ دیوار زمین سے اٹھائی گئی ہے جو زیر خانہ کی چھت تک آئی ہے، اس کے بعد ساڑھے تین میٹر اونچی دیوار نہیں ہے اور چھت کے بیم کو پڑوسی کی دیوار پر رکھا گیا ہے! جبکہ مکان کا بیچنے والا، خود اس گھر کا معمار تھا اور اس پوشیدہ نقص کو جانتا تھا لہٰذا حضور اس وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان فرمائیں کہ کیا گھر کے مالک کے لئے اس نقص وعیب سے خریدار کو مطلع کرنا ضروری ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا وہ ہمارا مقروض ہوگا؟
اگر علاقے کے ماہرین کی نظر میں یہ چیز عیب شمار ہوتی ہو، اوروہ اس کے عوض قیمت کے قائل ہوں تو خریدار حضرات اس عیب کے برابر قیمت واپس لے سکتے ہیں ۔
واقعی قیمت سے بے خبر ہونے کی صورت میں اختیارات ختم کرنے کا باطل ہونا
اگر کوئی شخص موجودہ قیمتوں سے بے خبر ہوکر، میراث میں ملنے والی اپنے حصّہ کی جائداد کو مبلغ بچاس ہزار تومان کے عوض اپنے بھائیوں کو فروخت کردے، جبکہ اس کے حصّہ کی جائداد کی قیمت پانچ کروڑ تومان سے بھی زیادہ ہو، ایسے معاملہکا کیا حکم ہے؟البتہ یاد رہے کہ خریداروں نے بعض علماء اور دیگر حضرات کو گواہ بناکر تمام اختیارات کو ساقط کردیا ہے، کیا یہ معاملہ صحیح ہے؟
اگر ثابت ہوجائے کہ اس کا حصّہ اُس وقت اتنی قیمت کا تھااور وہ بے خبر تھا تو اختیارات ختم کرانے کا حکم اس کے شامل حال نہیں ہوگا اور وہ شخص معاملہ کو فسخ کرسکتا ہے ۔
مورد معاملہ کے قانون انہدام کے تحت ہونے کے بارے میں مطلع ہونا
ایک شخص اپنا مکان دوسرے شخص کو بیچ دیتا ہے، بیعنامہ کے بعد خریدار متوجہ ہوتاہے کہ مذکورہ مکان (مثال کے طور پر وہاں سے ہائی پاور بجلی لائن گزرنے کی وجہ سے) اس جگہ سے مکان گرائے جانے کے پروگرام میں شامل ہے، عام رواج اور ماہرین فن کی بتائی ہوئی قیمت کے مطابق اس قسم کے مکانوں کا نقصان، مالک ادا کرتا ہے، یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے اگر اس مکان کی قیمت، بیعنامہ کی قیمت سے کم ہو تو کیا اس صورت میں وہ مکان عیب دار شمار ہوگا؟ اور اگر دونوں قیمتوں میں کوئی فرق نہ ہو لیکن یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ممکن ہے مالک مکان کے لئے کچھ بھاگ دوڑ کرنا پڑے تو کیا یہ بات بھی عیب شمار ہوگی؟
بہرحال یہ عیب شمار ہوگی ۔
بولی کے ذریعہ ہونے والے معاملات میں خیار غبن
بعض لوگ ایک جائداد فروخت کردیتے ہیں اور بیعنامہ کی بنیاد پر عہد کرتے ہیں کہ مقررہ وقت میں قانونی طور پر اس جائداد کو خریدار کے نام کردیں گے اور فروخت کرنے کے وقت سے لے کر قانونی طور پر بیعنامہ کے وقت تک چند مہینوں کے فاصلہ سے میں، چند قسطوں کے ذریعہ اپنے ارادے اور اختیار سے جائداد کی کچھ قیمت وصول کرلیتے ہیں، دوسری طرف خریدار، جائداد کو قبضہ میں لے کر اس میں کچھ تبدیلی کرتا ہے، اسے ہموار اور کیاریاں وغیرہ بنالیتا ہے، لیکن قانونی بیعنامہ کا مقرر وقت آنے کے بعد بیچنے والا شخص غبن کا دعویٰ کرتا ہے اور قانونی طور پر بیعنامہ کرنے سے انکار کردیتا ہے، اگر خرید وفروخت کا یہ معاملہ، طرفین کی طرف سے بولی لگنے اور سب سے زیادہ قیمت پر بولی چھوٹنے اور ماہرفن کی طرف سے قانونی قیمت معیّن ہونے کے بعد ہوا ہو، نیز معاملہ کی قیمت بھی سب سے زیادہ لگائی گئی ہو نیز وہ قیمت قانونی طور پر لگائی گئی قیمت کے مطابق ہو کیا اس صورت میں بیچنے والے کی جانب سے غبن کے دعوے کی سنوائی ہوگی؟
اگر یہ معاملہ بولی لگنے کی صورت میں ہوا ہے اور عام لوگوں کے درمیان بولی لگنے کا مطلب، غبن پر توجہ اور غبن کا ساقط کرنا ہے، تب تو بیچنے والے کو غبن کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں ہے؛ لیکن اگربولی لگنے کے علاوہ یہ معاملہ ہوا ہے اور فروخت کرنے والا ثابت کرسکتا ہے کہ معاملہ کے وقت اس کو دھوکہ (غبن) ہوا ہے تب اس کو خیار غبن حاصل ہوگا اور اگر ثابت نہ کرسکے تو اس کا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا ۔
وکیل کے ذریعہ فضولی خریدوفروخت میں خیار فسخ
ایک شخص نے اپنا مکان فروخت کرانے کے لئے دوسرے شخص کو وکیل بنادیا، وکیل نے مکان کو بیچ دیا اور مالک کو اطلاع دیئے بغیر خریدار کو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار دے دیا جبکہ وہی اختیار مالک کے نقصان کا باعث ہوگیا ہے، کیا اس طرح کا معاملہ صحیح ہے؟
سوال کے فرض میں، فضول طریقہ سے خریدوفروخت میں، معاملہ کو فسخ کرنے کا اختیار دینا، مالک کی اجازت پر متوقف ہے، لیکن اگر مالک نے اجازت نہ دی تو خریدار کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہوگا ۔
تمام اختیارات کو ساقط کرنے کی صورت میں ارش کے مطالبہ کا حق ساقط ہونا
اگر کسی بیعنامہ میں طرفین معاملہ، تمام اختیارات کو ساقط کردیں، اس صورت میں کیا خریدار، چیز کے معیوب ہونے کا دعویٰ کرکے، ارش (یعنی بے عیب اور عیب دار چیزوں کی قیمتوں میں جو فرق ہوتا ہے اس کے مطابق باقی رقم کو واپس لینے) کا مطالبہ کرسکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں کیا تمام اختیارات کو ساقط کرنے سے، خیار عیب کے ساقط ہونے کے علاوہ، ارش کا مطالبہ بھی ساقط ہوجائے گا؟
جی ہاں ارش کامطالبہ بھی ساقط ہوجائے گا ۔