مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

۔مشروط صورت میں وارثوں کو مال فروخت کرنا

میں نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ مال ودولت کو، ایک ہزار تومان کے عوض، اپنے بیٹے کو فروخت اور اس کے حوالہ کردیا تھا، لیکن اس شرط پر کہ جب تک میں زندہ ہوں میرے اختیار میں رہے، افسوس کہ میرے بیٹے کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا، کیا وہ مال ودولت واپس مجھے مل جائے گا یا میرے بیٹے کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا ؟

جواب: اگر آپ کا مقصد یہ تھا کہ ملکیت آپ کے بیٹے کی جانب منتقل ہوجائے (یعنی وہ مالک ہوجائے) اور اس کا منافعہ، تا حیات آپ کے اختیار میں رہے، تو اب اس کے مرنے کے بعد، وہ مال اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا اور آپ تاحیات اس کے منافعہ کے مالک رہیں گے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

میراث کا نہ ملنا

پچھتر (۷۵) سال پہلے دو بھائی بنام سید سلیمان وسید خداداد، زندگی بسر کرتے تھے باپ کی موت کے بعد انھوں نے اس کی جائداد اور ترکہ کو اپنے درمیان بطور مساوی تقسیم کرلیا، سید خداداد اپنی مرضی سے اپنے حصہ کو بیچے یا اجارہ پر دیئے بغیر، اس جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اس کا بھائی سید سلیمان ایک شخص بنام سید عبدالله (کہ جو اس زمانے میں اس علاقہ کا بانفود اور مشہور ومعروف شخص تھا ) اور دوسرے چند لوگوں کی مدد سے سید خداداد کے حصے کو بہ شرط بیع قطعی فروخت کردیتا ہے، سید خداداد جب اس چیز سے مطلع ہوتا ہے تو وہ اس علاقہ میں آتا ہے اور اپنے حصے کا مطالبہ کرتا ہے ، اس کا بھائی اور دیگر افراد اس کو دھمکاتے ہیں اور اس کا حق نہیں دیتے، اس وقت سے لے کر آج تک سید خداداد کے وارثوں میں سے کوئی بھی اپنا حق نہیں لے پایا، لہٰذا فرمائیں کہ کیا سید خداداد کے وارثین اپنے حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟

جواب: چنانچہ بھائیوں نے اس مرحوم کا حق ضائع کیا ہے لہٰذا اس کے وارثین شرعاً اپنا حق واپس لے سکتے ہیں۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

مطلّقہ ماں کیلئے بیٹے کی میراث

پچیس (٢٥) سال پہلے ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی، اس کے شوہر نے دوسری شادی کی اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی ہوئی پھر اس کو بھی بیس سال پہلے طلاق دیدی، اس کے بعد تیسری شادی کی ہے، پھر وہ شخص اور اس کا بیٹا، گاڑی کے گرنے اور اس میں دبنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان میں کون پہلے مرا ہے اور کس کا انتقال بعد میں ہوا ہے، اس لڑے کی ماں یعنی مطلقہ خاتون کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کا تو کوئی مال یا دولت نہیں ہے اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھا اور اپنے والد کے ساتھ رہتا تھا لہٰذا اس کو باپ کی میراث ملنا چاہیے، کیا اس کو میراث ملے گی؟ (ملحوظ رہے کہ اس مرحوم شخص کے وارث یہ ہیں: دو بیٹیاں، مرحوم کی ماں اور وہ زوجہ جو اس وقت اس کے گھر موجود ہے)؟

جواب: اس شخص کی میراث، اس کی دوبیٹوں، ایکسیڈنٹ میں مرنے والا بیٹا، اس شخص کی ماں اور اس کی زوجہ کو ملے گی، میراث کا آٹھواں حصہ، زوجہ کو، چھٹا حصّہ ماں کو اور باقی مال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا حس میں سے دو حصّہ، اس کے مرحوم بیٹے کے ہیں جو اس کی ماں کو ملیں گے (یہ اس وقت ہوگاکہ جب اس کی وارث فقط ماں ہو) اور باقی ایک ایک حصّہ اس کی بیٹیوں کو ملے گا ۔

مطلّقہ ماں کیلئے بیٹے کی میراث

پچیس (٢٥) سال پہلے ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی، اس کے شوہر نے دوسری شادی کی اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی ہوئی پھر اس کو بھی بیس سال پہلے طلاق دیدی، اس کے بعد تیسری شادی کی ہے، پھر وہ شخص اور اس کا بیٹا، گاڑی کے گرنے اور اس میں دبنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان میں کون پہلے مرا ہے اور کس کا انتقال بعد میں ہوا ہے، اس لڑے کی ماں یعنی مطلقہ خاتون کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کا تو کوئی مال یا دولت نہیں ہے اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھا اور اپنے والد کے ساتھ رہتا تھا لہٰذا اس کو باپ کی میراث ملنا چاہیے، کیا اس کو میراث ملے گی؟ (ملحوظ رہے کہ اس مرحوم شخص کے وارث یہ ہیں: دو بیٹیاں، مرحوم کی ماں اور وہ زوجہ جو اس وقت اس کے گھر موجود ہے)؟

جواب: اس شخص کی میراث، اس کی دوبیٹوں، ایکسیڈنٹ میں مرنے والا بیٹا، اس شخص کی ماں اور اس کی زوجہ کو ملے گی، میراث کا آٹھواں حصہ، زوجہ کو، چھٹا حصّہ ماں کو اور باقی مال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا حس میں سے دو حصّہ، اس کے مرحوم بیٹے کے ہیں جو اس کی ماں کو ملیں گے (یہ اس وقت ہوگاکہ جب اس کی وارث فقط ماں ہو) اور باقی ایک ایک حصّہ اس کی بیٹیوں کو ملے گا ۔

میراث کا حصّہ بخش دینے کے بارے میں شک کرنا

کشمیر کے ایک علاقہ میں مسلمانوں کے یہاں یہ دستور ہے کہ بیٹے اپنے والدین کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں اور جب والد کا انتقال ہوجاتا ہے تو ن کی تمام میراث بیٹوں کے اختیار میں آجاتی ہے، لیکن بیٹیاں جو اپنے شوہروں کے گھر میں رہتی ہیں،اپنے بھائیوں سے، باپ کی میراث کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنا حصہ بھائیوں کو بخش دیتی ہیں، بعض بہنیں جب تک زندہ رہتی ہیں اپنا حصہ اپنی خوشی سے بھائیوں کے اختیار میں دیتی ہیں لیکن بھائی بہنوں کے انتقال کے بعد، بہنوں کی اولاد بھائیوں کی اولاد سے یہ کہتے ہوئے اپنی الدہ کے حصہ کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ہماری ماں نے اپنے والد کی میراث میں اپنا حصہ آپ کے والد کو نہیں بخشا تھا بلکہ ان کے لئے مباح کردیا تھا، جبکہ بھائیوں کی اولاد کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی پھوپھیوں نے ان کے والد کو اپنا حصہ بخشدیا تھا یا ان کے لئے مباح قرار دیا تھا، اس صورت میں بھائیوں کی اولاد کا کیا وظیفہ ہے؟

جواب: اگر اس مال ودولت کا بھائیوں کے لئے، بخش دینا، ثابت نہ ہوسکے تو بہنوں کا حصہ اُن کے وارثوں کوضرور دینا چاہیے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

کچھ دن پہلے مجھے ایک خاتون کی آشنا کریاگیا تاکہ اس کے باپ کی میراث میں سے اس کا حصہ وصول کرنے کے لئے میں اس کی وکالت قبول کروں ، آشنا کرانے والا شخص غیرملکی (اور مسیحی) ہے، اس خاتون سے آشنائی کراتے ہوئے وہ شخص کہتا ہے: ”ظاہراً مذکورہ خاتون مسلمان تھی، عیسائی ہوگئی ہے اور اب چاہتی ہے کہ اپنے باپ کی میراث کا حصہ جو تہران میں ہے (زمین، گھر، نقد پیسہ وغیرہ) وصول کرے، اسی وجہ سے وہ آپ کو (یعنی مجھے) اپنا وکیل بنانا چاہتی ہے“میں نے اس خاتون سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے وقت غیر مستقیم طور پر اس سے کہا: ”آخر تم اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے کچھ وظائف ہیں وغیرہ وغیرہ“ تاکہ ا سکا رد عمل دیکھوں کہ کیا یہ خاتون واقعی عیسائی ہوگئی ہے یا نہیں؟ خاتون نے ان باتوں کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں اور عیسائی ہوگئی، بلکہ خاموش رہی ایسے حالات میں میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے جن کو میں حضور سے دریافت کرنا چاہتا ہوں:۱۔ کیا میرا شرعی وظیفہ ہے کہ اس سے زیادہ تحقیق کروں؟کیا صریحاً مطلب کو بیان کروں اور اس کے دین کے بارے میں پوچھوں؟۲۔ کیا اس قدر جو آشنائی کرانے والے شخص نے بیان کیا ہے اس کے مسلمان ہونے میں تردید ایجاد کردیتا ہے؟کیا اس کے اسلام کو استصحاب کروں (۱) یا میرا کوئی اور وظیفہ ہے؟

جواب: ۱۔۲ ۔ چنانچہ اس کی حالت سابقہ اسلام ہے اور کوئی دلیل اس کے خلاف قائم نہیں ہوئی ہے تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

کچھ دن پہلے مجھے ایک خاتون کی آشنا کریاگیا تاکہ اس کے باپ کی میراث میں سے اس کا حصہ وصول کرنے کے لئے میں اس کی وکالت قبول کروں ، آشنا کرانے والا شخص غیرملکی (اور مسیحی) ہے، اس خاتون سے آشنائی کراتے ہوئے وہ شخص کہتا ہے: ”ظاہراً مذکورہ خاتون مسلمان تھی، عیسائی ہوگئی ہے اور اب چاہتی ہے کہ اپنے باپ کی میراث کا حصہ جو تہران میں ہے (زمین، گھر، نقد پیسہ وغیرہ) وصول کرے، اسی وجہ سے وہ آپ کو (یعنی مجھے) اپنا وکیل بنانا چاہتی ہے“میں نے اس خاتون سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے وقت غیر مستقیم طور پر اس سے کہا: ”آخر تم اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے کچھ وظائف ہیں وغیرہ وغیرہ“ تاکہ ا سکا رد عمل دیکھوں کہ کیا یہ خاتون واقعی عیسائی ہوگئی ہے یا نہیں؟ خاتون نے ان باتوں کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں اور عیسائی ہوگئی، بلکہ خاموش رہی ایسے حالات میں میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے جن کو میں حضور سے دریافت کرنا چاہتا ہوں:۱۔ کیا میرا شرعی وظیفہ ہے کہ اس سے زیادہ تحقیق کروں؟کیا صریحاً مطلب کو بیان کروں اور اس کے دین کے بارے میں پوچھوں؟۲۔ کیا اس قدر جو آشنائی کرانے والے شخص نے بیان کیا ہے اس کے مسلمان ہونے میں تردید ایجاد کردیتا ہے؟کیا اس کے اسلام کو استصحاب کروں (۱) یا میرا کوئی اور وظیفہ ہے؟۳۔ وہ گھر جس میں اس خاتون کا سہم الارث (میراث کا حصہ) تھا (آدھا گھر) اس کو کسی شخص کے ہاتھوں بیچ دیا اور میں نے اس کی قیمت میں سے اس توافق کے مطابق جو ہمارے درمیان ہوا تھا ، اپنی وکالت کا محنتانہ لے لیا، اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ یہ خاتون واقعاً اسلام سے خارج اور حقیقت میں اپنے مسلمان باپ سے میراث لینے کا حق نہیں رکھتی تھی، خریدار کی تکلیف کیا ہے؟ وکالت کا وہ محنتانہ جو گھر کی قیمت میں سے میں نے حاصل کیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟۴۔ کیا اس گھر میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ کیا خریدار ضامن ہے کہ آدھے گھر کو حاکم شرع (مقلد)کو واپس کرے یا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے؟ اگر آپ کی اجازت پر موکول ہو تو کیا آپ اجازہ فرماتے ہیں؟ یا ردّمظالم کے بدلے اجازہ ہوگا؟۵۔ اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ وہ عورت عیسائی ہوگئی تھی،تو اس صورت میں اس کے ذاتی امور اور اموال میں (سہم الارث کے علاوہ) وکالت کو قبول کرنے کی کیا صورت ہے؟

جواب: ۱۔۲ ۔ چنانچہ اس کی حالت سابقہ اسلام ہے اور کوئی دلیل اس کے خلاف قائم نہیں ہوئی ہے تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔جواب3:چنانچہ ثابت ہوجائے کہ وہ خاتون باپ کی حیات میں عیسائی ہوگئی تھی، میراث نہیں لے سکتی اور وہ مال جو آپ نے یا دوسروں نے اس کے حصے سے حاصل کیا ہے وارثین کو واپس دیدیں۔جواب4: جیسا کہ اوپر کہا جاچکا، اگر خلاف ثابت ہوتو اس کو تمام وارثین کی طرف پلٹایا جائے گا اور یہ مسئلہ مظالم سے ربط نہیں رکھتا کہ حاکم شرع کے اجازہ کی ضرورت پڑے۔جواب5: اموال کے ان موارد میں جو مسیحی ہونے کے بعد حاصل کیے ہیں وکالت قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

وہ زمین جن کے ملکیت میں آنے کا طریقہ معلوم نہیں

کچھ زمین، ہمیں اپنے باپ داد کی جانب سے وراثت کے ذریعہ، حاصل ہوئی ہیں، لیکن وہ حضرات کیسے ان زمینوں کے مالک بنے، یہ بات ہمارے لئے واضح نہیں ہے، کیا ہم لوگ دوسرے مال کی طرح ان زمینوں کو بھی میراث کے قانون کے مطابق، تقسیم کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر تمہارے باپ داد نے، ان زمینوں کو آباد کیا تھا اور اس سے پہلے وہ زمینیں بنجر اور بے آباد تھیں تب تو میراث کے قانون کے مطابق وارثوں کو ملیں گی، اسی طرح اگر انھوں نے خریدا ہو تب بھی لیکن اگر کوئی سند ان زمینوں کے ماضی کے متعلق، موجود نہیں ہے اور کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے تب وہ زمین تمھارے باپ دادا کی ملکیت تھی اور میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی