قتل عمد میں حقِ قصاص کا مالک
قتل عمد میں حق ِ قصاص کا مالک کون ہے؟ مجنی علیہ (مقتول) یا اولیاء دم (وارثین)
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
بہرحال یہ عیب شمار ہوگی ۔
جرم کو ثابت کرنے لئے ممکن ہے کہ حاکم شرع کو اُن مسائل میں جہاں اس کو ماہرین کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی نظروں پر تکیہ کرنا پڑے، اور موضوع کے ثابت ہونے کے بعد حکم صادر کرے ۔
ایسے لوگوں کی ہمنشینی ترک کرنا بہتر ہے اور اگر شک قوی ہو تو ان کی صحبت ترک کرنا واجب ہے۔
اگر تیسرا مجتہد اجازت دیدے کہ جن مسائل پر مردہ مجتہد کی زندگی میں عمل نہیں کیا تھا ، ان پر بھی باقی رہ سکتے ہوں تو مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن ہمارے عقیدہ کے مطابق احتیاط یہ ہے کہ جن فتووں پر عمل نہیں کیا ہے ،ان پر باقی نہ رہیں ۔
ہر وہ عادل مجتہد جو اس علاقہ میں موجود ہے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور مجتہد کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی عادل عالم جو جامع الشرائط مجتہد کی جانب سے نمائندگی گررہا ہو، حدود الٰہی کو جاری کرسکتا ہے
زنا کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچہ کا حکم، پرورش اور اس کے اخراجات وغیرہ کے لحاظ سے (ان صورتوں کے علاوہ جہاں دلیل مستثنیٰ قرار دیتی ہے جیسے میراث کا مسئلہ) وہی ہے جو شرعی بچہ کا ہوتا ہے لہٰذا اس بناپر، محرم ہونے، اس کی پرورش، نگہداشت اور تربیت کے تمام احکام ولد الزنا کے بارے میں جاری ہوں گے فقط اس کو میراث نہیں ملے گی ۔
جواب:۔ تین سلام جو تین طرف (رخ کرکے) پڑھے جاتے ہیں ان کے لئے کوئی خاص نص موجود نہیں ہے لیکن زیارت کے مطلقہ حکم کی نیت سے کوئی حرج نہیں ہے ۔
احتیاط یہ ہے کہ اس مکان میں کوئی چیز اضافہ کرے سفیدی کرے یا مزید فرش بچھادے یا اس طرح کا کوئی اور کام کرادے ۔
جواب: فقط ماٴمومہ کی دیت کے علاوہ مغز کے اوپر کی جھلی پارہ ہوجانے کے ارش دے گا ۔
ایسے موقعوں پر محترم متولی کی اجازت سے کام کرنا چاہیے؛ لیکن اگر اس کی اجازت کے بغیر کام انجام پایا ہے تو مسجد میں نماز پڑھنا یہاں تک کہ مسجد کی نئی عمارتوں میں بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سرکاری نوکری طاہرا عقد اجارہ کے ضمن میں آتی ہے۔ نوکری کے دوران انجام دی جانے والی خدمات،ان کے اوقات اور تنخواہ کے عوض میں پیدا یونے والے معاملات سے اس عقد اجارہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتیں، انہیں ان دو طریقوں سے سمچھا جا سکتا ہے:الف: وکالت کے طور پر، نوکری کرنے والا خود کو نوکری کے آغاز سے مثلا تیس سال کی مدت، معین تنخواہ اور مقرر اوقات میں سرکار کو اپنی خدمات پیش کرتا ہے اور یہ عقد اجارہ (تحریر شدہ شکل میں یا عملی طور پر) دونوں فریق میں ہو جاتا ہے۔ پھر وہ حکومت اور سرکار کو اپنی مطلقہ وکالت دے دیتا ہے جس کے مطابق اگر حکومت چاہے تو مثلا پچیس سال یا اس سے کم و بیش مدت کے بعد اس قرارداد اور سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور وہ حکومت کو اس بات کی وکالت بھی دے دیتا ہے کہ وہ کام کے اوقات، تنخواہ کے تعین اور دوسری سہولتوں میں اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق رد و بدل کر سکتی ہے اور جدید قرارداد اور اگریمینٹ نئے اصول و ضوابط اور ضرورتوں کے تحت تنظیم کر سکتے ہیں۔ حکومت ان معاملات میں جس طرح سے مالک کی حیثیت رکھتی ہے اسے طرح سے وکالت بھی رکھتی ہے۔ب۔ اس عرصہ میں پیش آنے والی تبدیلیوں کو شرط ضمن عقد کے تحت بھی حل کیا جا سکتا ہے، اس معنا میں کہ پہلی قرارداد میں یہ شرط ہوگی کی حکومت جب چاہے گی (قانون کے مطابق) اس سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور اسے ریٹائر یا مستعفی کر سکتی ہے۔ یا ایسا ہو سکتا ہے کہ نوکری کرنے والا یہ شرط رکھے کہ اسے تنخواہ کے علاوہ مزید پیسا دیا جائے جو قانون کے مطابق ہو۔واضح رہے کہ یہ شراءط بہت واضح نہیں یوتے مگر اس حد تک ضرور واضح ہوتے ہیں کہ ان پر عمل ہو سکے۔
متعہ کی عدت کو بھی پورا کرے، اس کے بعد دوسرے مرد سے شادی کرے لیکن اگر متعہ کے دوران دخول نہ ہو تو متعہ کی عدت کی ضرورت نہیں ہے ۔
جواب: تقریباً جنین کی لانہ سازی کے تین ہفتے کے بعد جفت تشکیل پاتا ہے ، اس مرحلہ میں جفت کا وظیفہ رحم کی ضخیم شدہ دیوار سے، بند ناف کے ذریعہ ، خوراک اور آکسیجن، حاصل کرنا ہے ۔اسی طرح جنین کی حیاتی فعالیت سے حاصل شدہ ، کاربنک گیس کو ماںکے خون میں منتقل کرتا ہے اور ا س بطن مادر میں موجود جفت کا دوسرا وظیفہ، مادری ماہا رمون یاپرجسترون کو مترشح کرنا ہے ، جس سے ماہواری بند ہوجاتی ہے ۔ د:اگر حاملہ نہ ہوسکے، تورحم کی پر خون اور ضخیم شدہ دیوار گرنا اوربہنا شروع ہوجاتی ہے ، جو ماہواری کے نام سے مشہور ہے ، خون بند ہوجانے کے بعد ، رحم دوبارہ نئے طریقہ سے استقرار حمل کے لئے تیار ہوجاتا ہے یعنی پُرخون اور ضخیم ہونا شروع ہوجاتا ہے لہٰذا جب ایک عورت حاملہ ہو جاتی ہے ، تو ہارمون کے مترشح ہونے کی وجہ سے جس کا تذکرہ گزرچکا ہے، معمولاً اس عورت کو ماہواری نہیں آتی ، ( نہ یہ کہ وہ خون بچہ کی غذا بن جاتا ہے ) یعنی حقیقت میں خونریزی اور ماہواری ہوتی ہی نہیں ہے جو بچہ کی خوراک بن سکے ۔ ھ: یہ تمام مذکورہ مراحل ، مختلف ہارمون کے مترشح ہونے کے ذریعہ کنٹرول ہوتے ہیں لہٰذاان ہارمونس کو کسی خاتون کو خوراک کے طورپر کھلا نے یا انجکشن کے ذریعہ سے دئے جائیں تو بھی وہ خاتون حائض نہیں ہوسکتی یعنی اس طرح سے اسکو ماہواری نہیں آسکتی ، تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خون بچہ کیغذا بن جاتا ہے ۔ ؟جواب: مقصود یہ نہیں ہے کہ رحم سے خونر یزی ہوتی ہے جس کو بچہ نگل لیتا ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حاملہ ہونے کی صورت میں ، خون ماں (حاملہ) کی رگوں میں ذخیرہ ہوجاتا ہے اور جفت وغیرہ کے ذریعہ،جنین کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور وہ آکسیجن اور خوراک کو بچہ ، اپنی ماں کے اسی خون سے حاصل کرتا ہے ، جیسا کہ بچہ کو دودھ پلانے کے زمانے میں بھی اکثر اوقات ، ماہواری نہیں ہوتی ، اس لئے کہ خون کا کچھ حصہ ، دودھ میں تبدیل ہو کر ، بچہ کی غذا بن جاتا ہے ۔ لہٰذ ااگر ہم کہیں کہ وہ خون ،بچہ کی غذا ہے ، تو مقصود یہ ہے ہم نے بیا ن کیا ہے وہ نہیں جو آپ نے تحریرکیا ہے ۔