وہ امام جماعت جس کی نماز باطل تھی
نما ز جماعت منعقد ہے ، یعنی جماعت ہو رہی ہے اس کے باوجود بعض لوگ وہیں پر فرادیٰ نما پڑھتے ہیں ، ان کی نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب:۔ جب بھی امام جماعت کی بے حر متی ہوجائے تب ان کی نماز میں اشکال ہے ۔
جواب:۔ جب بھی امام جماعت کی بے حر متی ہوجائے تب ان کی نماز میں اشکال ہے ۔
جو چیز سورہٴ مائدہ کی بیالیسویں آیہٴ شریفہ سے استفادہ ہوتی ہے اور باب حدود اور جہاد میں ہمارے مجتہدین کے فتوے بھی اس کی تائید کرتے ہیں نیز متعدد روایتیں بھی اس پر دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہیں کہ: مسلمان قاضی کے سامنے فقط دو راستے ہیں، پہلا راستہ یہ ہے کہ اگر وہ درخواست کریں تو اسلامی احکام کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ انہیں ان کے قاضیوں کے پاس بھیج دیا جائے تا کہ ان کے مذہب کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے ، اب رہی یہ بات کہ مسلمان قاضی ان کے مذہب کے مطابق، جو ہمارے عقیدہ کے مطابق تحریف شدہ اور منسوخ شدہ مذہب ہے، فیصلہ کرے اور اسی کو صحیح سمجھے تو اس طرح کی کوئی چیز نہ تو دلیلوں ہی سے استفادہ ہوتی ہے اور نہ ہی بزرگوں کے فتووٴں سے ثابت ہے، مذکورہ مشکل سے بچنے کے لئے جو آپ نے بیان کی ہے، فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ان ہی میں سے کوئی نیک قاضی ان کے مذہب کے احکام کے مطابق لیکن اسلامی حکومت کے زیر نظر، فیصلہ کرے، اور مزید دقّت کی مراعات اور عدالت وانصاف قائم کرنے کے لئے، پہلے ان کے مذہب کے احکام، ماہرین سے استفادہ کرکے، قانون کی شکل میں پاس کئے جائیںاور بعض موارد (شخصی حالات) کے ذیل میں، ترتیب دیئے جائیں تاکہ کسی طرح سے بھی ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے ۔
حاکم شرع کے حکم کے ذریعہ ہی سزا دی جانی چاہیے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ گناہ گار، حاکم شرع کے پاس جاکر اپنے گناہ کا اعتراف کرے بلکہ فوراً توبہ کرسکتا ہے اور نیک اعمال کے ذریعہ اپنے ماضی کی کسر پوری کرسکتا ہے اور اس طرح سے خود کو سزا سے بچا سکتا ہے ۔
اگر پشیمانی اور ندامت کا اظہار عدالت میں جاکر، قاضی کے سامنے کیا ہے تو اس صورت میں قاضی معاف کرسکتا ہے لیکن اگر عدالت سے پہلے ہی نادم ہوگیا ہے تو اس کا نادم ہونا ”حقوق الله“ میں سزا کے ساقط ہونے کا باعث ہے ۔
جواب : کتے کے دودھ کے حرام ہونے کے بارے میں کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے اگر چہ بھیڑ اس کا دودھ اتنا زیادہ پیئے کہ اس کی ہڈیاں بھی مضبوط ہوجائیں ، لیکن اگر خنزیر کا دودھ مذکورہ مقدار تک پئے تو خود اس بھیڑ کا گوشت بھی حرام ہے اور اس کی آنے والی نسلوں کا گوشت بھی ۔ لیکن اگر اس مقدار سے کم پیا ہو تو اس کا گوشت مکروہ ہے اور بہتر یہ ہے کہ سات دن تک اس کو باندھ کر رکھیں اور پاک کھانا دیں ۔
اگر تحقیق کے ساتھ اپنے مجتہد کا انتخاب کیا تھا تو اس کے گزشتہ اعمال کی قضا نہیں ہے ۔
چنانچہ رضاعی ماں کو قصاص کرنا بچے کی زندگی کو خطرے میں ڈالڈے یا قابل ملاحظہ ضرر کا سبب ہو تو ماں والا ہی حکم جاری ہوگا۔ اوپر والے جواب سے معلوم ہے۔اس مسئلہ میں حاکم شرع کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
جواب:۔ جب تک فتوے کے برخلاف ہو جانے کا یقین نہ ہو جا ئے اقتداء کرنا جائز ہے اور احتیاط کے طور پر دوبارہ نما زپڑھنا بھی لازم نہیں ہے ۔
جواب : بینہ نہ ہونے کے فرض میں منکر شخص قسم کھائے گا احتیاط یہ ہے کہ اسکا ولی بھی قسم کھائے
امام جماعت کو معیّن کرنے میں واقف کی رائے شرط نہیں ہے ۔
جواب: صاحب کار ضامن نہیں ہے؛ مگر یہ کہ کام کا قانون اس چیز کا اقتضاء کرتا ہو اور وارثین نے کام کے قانون کی بنیاد پر اقدام کیا ہو۔
جواب:۔استخارہ پر عمل کرنا واجب نہیں ہے لیکن حتی الامکان اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے مگر یہ کہ استخارہ کرائے ہوئے قابل ملاحظہ (کافی) مدّت گذر جائے اُس کے بعداقدام کرے
ہمارے علاوہ بہت سے مجتہدین نے بھی نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ عقل اس کی قباحت کا حکم کرتی ہے، اس کے علاوہ یہ آیہٴ کریمہ (بقرہ/۱۹۵) بھی ایسے لوگوں کو شامل ہے، بعض روایات بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ نقصاندہ اور مضر چیزوں کا استعمال کرنا حرام ہے ۔
جواب:۔مناسب ہے کہ اس کے ساتھ کچھ عرصہ تک، نرم برتاؤ اور اچھا سلوک کرو، اس کو نصیحت کرو ، اور اس کے ساتھ محبت سے پیش آؤ ، شاید آہستہ آہستہ بدل جائے اور طلاق کی نوبت نہ آئے اور حرام اور غیر واجب چیزوں کے علاوہ ، اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ، اگر اس کا بھی کوئی نتےجہ سامنے نہ آئے تو اس سے جدا ہوسکتے ہو، لیکن جو آپ نے تحریر کیا ہے اس کے مطابق آپ کی زوجہ ، ناشزہ (نافرمان) اور غیر مدخولہ ہے لہذا اس کو نفقہ کا حق نہیں ہے، اور اگر وہ طلاق لینا چاہئے تو اس کی طلاق ، طلاق، خلع ہے ، اورمہر کو بذل (بخش دینے) یا اس کے مثل کوئی اور چیز بذل (بخشے) کے بغیر نیز شوہر کی رضایت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں ہے .