سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

دوا سے علاج کی خاطر حمل کا سقط کرنا

ایک حاملہ عورت جو رحم کے کینسر کی مریضہ ہے، جس کا معالجہ شعاعوں کے ذریعہ ہوتا ہے جو بچے کے ناقص الخلقت (عیب دار) ہونے کا باعث بن سکتا ہے تو کیا ایسی حالت میں اس کے لیے بچہ کو سقط کرانا جائز ہے؟

جواب: اگر بچے کے ناقص الخلقت (معیوب) ہونے کا یقین ہو اور حمل ابتدائی مراحل میں ہو اور اس نے انسانی صورت اختیار نہ کی ہو، مزید علاج اس راہ پر منحصر ہو تو ایسا کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان میراث کو برابر تقسیم کرنے کی وصیت

دوسال پہلے میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا، جبکہ ان کی اولاد میں سے ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، مرحومہ کی میراث میں ایک جگہ ہے جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ تومان ہے ، ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ اس کو فروخت کرکے، سب بہن بھائی اپنا اپنا حصہ لے لیں، لیکن ہماری بہنیں مرحومہ والدہ کی اس مضمون کی تحریر پیش کرتی ہیں کہ میراث تقسیم کرتے وقت میرے بچے، بیٹی اور بیٹے کے حصہ میں کوئی فرق نہ رکھیں اور سب برابر طور پر حصہ وصول کریں ، اب جبکہ ہم سب اپنی ماں کی تحریر کے صحیح ہونے یعنی یہ کہ وہ تحریر ہماری والدہ کی ہے، یقین رکھتے ہیں، لیکن ممکن ہے کہ ہمارے بعض بھائی تہہ دل سے اس بات پر راضی نہ ہوں لہٰذا آپ فرمائیں کہ ہمارا شرعی وظیفہ کیا ہے؟

جواب: اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ماں کو اپنے مال کے ایک تہائی حصہ میں تصرف کرنے کا حق حاصل تھا، لہٰذا جو کچھ انھوں نے تمھاری بہنوں کے حصّوں کے بارے میں لکھا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اس لئے کہ مذکورہ فرق ایک تہائی حصّہ سے کم ہے، لہٰذا اس بناپر ماں کی وصیت کے مطابق عمل کریں ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

نذروں کے موضوع اور تعداد کو بھول جانا ۔

ایک شخص نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں (چاہے بالغ ہونے سے پہلے یا بالغ ہونے کے بعد) بہت نذریں مانی تھیں، اب وہ نذروں کی تعداد کو بھی بھول گیا اور ان کے موضوع کو بھی، ایسے شخص کی کیا تکلیف ہے؟

جواب: بلوغ سے پہلے والی نذروں پر عمل کرنا لازم نہیں ہے، ایسے ہی دل سے کی گئی نذروں جن میں زبان سے صیغہ نہ پڑھا گیا ہو ان پر عمل بھی عمل کرنا واجب نہیں ہے، ہاں وہ نذریں جو بلوغ کے بعد مانی گئیں اور زبان سے صیغہ نذر کو بھی ادا کیا گیا ہو ان پر عمل کرنا ہوگا اور شک کی صورت میں جتنی نذریں یقینی ہوں ان کو انجام دے اور اگر نذر کا مورد مشکوک ہو اور احتیاط بھی ممکن نہ ہو تو قرعہ ڈالے اور اس کے مطابق عمل کرے۔

دسته‌ها: نذر کے احکام

ٹیکس اور رقوم شرعیہ کی حدود

بہت سی نشستوں میں یہ بحث ہوتی ہے: کیا اسلامی حکومت میں ٹیکس (جبکہ کبھی اس کو زیادہ فی صد کے حساب سے لیا جاتا ہے) خمس وزکات کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر وہ ان کی جگہ نہ لے سکے تو ان لوگوں کے لئے جو خمس وزکات کے پابند ہیں کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تاکہ انھیں کم ٹیکس (کم سے کم ادا شدہ خمس وزکات کے برابر) ادا کرنا پڑے خصوصاً اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکس اور رقم وصولی کے دفتر پر ایک فقیہ جامع الشرائط حاضر وناظر ہوتا ہے؟

مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: مختلف مسائل

ایسے بینک میں کام کرنا جس کے معاملات فرضی ہوں

میں جنابعالی کا مقلِّد ہوں اور ایک بینک میں کام کرتا ہوں ، افسوس کہ سن ۱۳۷۳ ھ ش کے بعد بینکوں کے سود لینے اور کھاتے میں باقی ماندہ رقم کی بنیاد پر سہولیتیں فراہم کرنے سیایت سبب ہوئی کہ عقود اسلامی پر نظارت نہ ہو ۔ لہذا بہت سے معاملات عمداً یا سہواً با اطلاع یا بغیر اطلاع خانہ پُری کے عنوان سے انجام پاتےہیں ، اور اس کا وضعی اثر ہماری زندگی میں نمایاں ہے ۔ اب اس وقت کہ جب میں جنابعالی کو خط لکھ رہا ہوں مجھے یقین ہے بینکوں کی آمدنی حلال اور حرام سے مخلوط ہے اور ہماری تنخواہ بھی انھیں سہولتوں سے دی جاتی ہے ۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ میرے نزدیک کوئی بھی چیز رضائے پروردگار سے مہم نہیں ہے ، یہاں تک کہ میں اس تخواہ لینے سے بھی کراہت رکھتا ہوں اور ملازمت کو باقی رکھنے پر آمادہ نہیں ہوں ، لہٰذا میرے دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیں۔۱۔ کیا یہ صحیح ہے کہ میں ان حالات میں اپنی ملازمت کو باقی رکھوں ؟۲۔ ان سوسائٹیوں میں کام کرنے کا کیا حکم ہے جو بینکوں کی نظارت میں ہیں اور ان کا خرچ کسی دوسری جگہ مہیّا ہوتا ہے ؟

جواب: بینک کے اس شعبے میں کام کرنا کہ جو عقود کی خانہ پری کے عنوان سے سود لیتے ہیں ، جائز نہیں ہے ؛ لیکن دوسرے شعبوں میں کام کرنے میں اشکال نہیں ہے اور آپ کی تنخواہ اگر حلال کام کے عوض میں ہے اور آپ کو اس کے عیناً حرام ہونے بھی یقین نہ ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت