سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

دوا سے علاج کی خاطر حمل کا سقط کرنا

ایک حاملہ عورت جو رحم کے کینسر کی مریضہ ہے، جس کا معالجہ شعاعوں کے ذریعہ ہوتا ہے جو بچے کے ناقص الخلقت (عیب دار) ہونے کا باعث بن سکتا ہے تو کیا ایسی حالت میں اس کے لیے بچہ کو سقط کرانا جائز ہے؟

جواب: اگر بچے کے ناقص الخلقت (معیوب) ہونے کا یقین ہو اور حمل ابتدائی مراحل میں ہو اور اس نے انسانی صورت اختیار نہ کی ہو، مزید علاج اس راہ پر منحصر ہو تو ایسا کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

ٹیکس اور رقوم شرعیہ کی حدود

بہت سی نشستوں میں یہ بحث ہوتی ہے: کیا اسلامی حکومت میں ٹیکس (جبکہ کبھی اس کو زیادہ فی صد کے حساب سے لیا جاتا ہے) خمس وزکات کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر وہ ان کی جگہ نہ لے سکے تو ان لوگوں کے لئے جو خمس وزکات کے پابند ہیں کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تاکہ انھیں کم ٹیکس (کم سے کم ادا شدہ خمس وزکات کے برابر) ادا کرنا پڑے خصوصاً اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکس اور رقم وصولی کے دفتر پر ایک فقیہ جامع الشرائط حاضر وناظر ہوتا ہے؟

مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: مختلف مسائل

ایسے بینک میں کام کرنا جس کے معاملات فرضی ہوں

میں جنابعالی کا مقلِّد ہوں اور ایک بینک میں کام کرتا ہوں ، افسوس کہ سن ۱۳۷۳ ھ ش کے بعد بینکوں کے سود لینے اور کھاتے میں باقی ماندہ رقم کی بنیاد پر سہولیتیں فراہم کرنے سیایت سبب ہوئی کہ عقود اسلامی پر نظارت نہ ہو ۔ لہذا بہت سے معاملات عمداً یا سہواً با اطلاع یا بغیر اطلاع خانہ پُری کے عنوان سے انجام پاتےہیں ، اور اس کا وضعی اثر ہماری زندگی میں نمایاں ہے ۔ اب اس وقت کہ جب میں جنابعالی کو خط لکھ رہا ہوں مجھے یقین ہے بینکوں کی آمدنی حلال اور حرام سے مخلوط ہے اور ہماری تنخواہ بھی انھیں سہولتوں سے دی جاتی ہے ۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ میرے نزدیک کوئی بھی چیز رضائے پروردگار سے مہم نہیں ہے ، یہاں تک کہ میں اس تخواہ لینے سے بھی کراہت رکھتا ہوں اور ملازمت کو باقی رکھنے پر آمادہ نہیں ہوں ، لہٰذا میرے دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیں۔۱۔ کیا یہ صحیح ہے کہ میں ان حالات میں اپنی ملازمت کو باقی رکھوں ؟۲۔ ان سوسائٹیوں میں کام کرنے کا کیا حکم ہے جو بینکوں کی نظارت میں ہیں اور ان کا خرچ کسی دوسری جگہ مہیّا ہوتا ہے ؟

جواب: بینک کے اس شعبے میں کام کرنا کہ جو عقود کی خانہ پری کے عنوان سے سود لیتے ہیں ، جائز نہیں ہے ؛ لیکن دوسرے شعبوں میں کام کرنے میں اشکال نہیں ہے اور آپ کی تنخواہ اگر حلال کام کے عوض میں ہے اور آپ کو اس کے عیناً حرام ہونے بھی یقین نہ ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔

مریض کے مفلوج ہو جانے کے احتمال کے باوجود آپریشن کرنا

ایسا مریض، جو شدید روانی اور عصبی بیماریوں کا شکار ہو، اور ڈاکٹر کے پاس معاینہ کے لیے جاتا ہے تو ڈاکٹر بھی اس کے علاج کو آپریشن پر منحصر قرار دیتا ہے ۔ اور آپریشن میں اس بات کا بھی احتمال ہو کہ وہ ہمیشہ کے لیے ذہنی توازن کھو دے اور مفلوج ہو جائے تو کیا ایسے حالات میں ڈاکٹر آپریشن کر سکتا ہے؟

جواب: اگر اس کی روانی بیماری اور آپریشن کے بعد اس کے صحیح ہو جانے کا احتمال اس حد تک ہو کہ عقلاء آپریشن کو منطقی و معقول قرار دیں تو آپریشن کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں اس کے ضمن میں مریض (اگر وہ ان حالات کو سمجھ سکتا ہو) یا اس کے ولی (اگر مریض حالات کو درک نہ کر سکتا ہو) سے اجازت لینا ضروری ہے ۔

دسته‌ها: علاج، معالجه

چوری میں مدد کرنے والوں پر حد جاری کرنا

چوری میں مشارکت کے متعلق فرمائیے:الف) کیا چوری میں شریک ہونا، شریک کا چوری کرنے پر مشروط ہے؟ب) الف کا جواب مثبت ہونے کی صورت میں، کیا سرقت کا اجرائی عمل، فقط ما ل کو حرز سے باہر لانے کوہی شامل ہے؟ یا چوری کے متحقَّق ہونے میں ہر طرح کی مدد موٴثر ہے (جیسے حرز کا توڑنا، یا تجوری کا کھولنا وغیرہ) ج) کیا سرقت میں مشارکت فقط اس صورت میں محقَّق ہوگی جب ہر شخص ایک ہی چیز کو چرائے یا ہر شخص ایک جدا جدا چیز کو چرانے پر بھی سرقت میں مشارکت شمار ہوگی ؟ مثلاً اگر دو شخص ایک ساتھ ایک ہی گھر میں داخل ہوں ، ایک جواہرات اور دوسرا قیمتی آرٹ کو چرائے، کیا سرقت میں مشارکت متحقق ہوجائے گی؟

جواب: جی ہاں، اس کے چوری کرنے پر مشروط ہے۔جواب: اس صورت میں جب سب لوگوںنے چوری میں مدد کی نیت سے چوری کے عمل کو انجام دیا ہو (چاہے بصورت مباشر ہو یا بصورت تسبیب) اور دوسرے شرائط بھی موجود ہوں تو یہ تمام افراد چور شمار ہوں گے۔جواب: جب یہ تمام، ایک سرقت شمار ہوںتو ایک ہی سرقت کا حکم رکھتی ہیں۔

دسته‌ها: چوری کی حد (سزا)
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت