غسل جمعہ کی قضا
کیا جمعہ کے غسل کی قضا کے بارے میں کوئی دلیل موجود ہے ؟
جواب : جی ہاں اس کے بارے میں روایت میں ہے کے ہفتہ کے دن مغرب کے وقت تک قضا کرسکتا ہے ۔
جواب : جی ہاں اس کے بارے میں روایت میں ہے کے ہفتہ کے دن مغرب کے وقت تک قضا کرسکتا ہے ۔
جواب : سچ بات یہ ہے کہ یہ مشکل آپ ہی کی طرف سے ہے اور مقصر آپ خود ہی ہیں اسی وجہ سے آپکی دعا قبول نہیں ہوتی اور اسکی اصلی وجہ یہ ہے کے آپ مسئلہ کو نہیں جانتے ، صحیح یہ ہے کے آپ پر واجب نہیں کہ آپ طہارت اور غسل کرنے پر یقین حاصل کریں ، شرعی فریضے کے لحاظ سے آپ پر فرض ہے کے جس مقدار میں دوسرے لوگ پانی کا استعمال کرتے ہیں آپ بھی اسی مقدار میں پانی کا استعمال کریں اور اسی پر اکتفا کریں ، چاہے آپ کو طہارت اور غسل کرنے میں شک ہی کیوں نہ ہو، اسکی شرعی ذمہ داری ہم پر ہے ، آج سے آپ صرف اتنا پانی استعمال کریں جتنا دوسرے لوگ کرتے ہیں اور اسی پر اکتفا کریں اور نجس بدن کے ساتھ اور جنابت کی حالت میں (اپنے گمان کے مطابق ) نماز پڑھیں ، کوئی مسئلہ نہیں ہے اور آپکی نماز اور روزہ بالکل صحیح ہے اور اسی بناء پر ہم آپ پر اور تمام لوگوں پر جو وسواس کا شکار ہیں اپنی حجت کو تمام کرتے ہیں اور اسکی مخالفت کرنا گناہ کا باعث ہوگا اور خدا سے التماس ہے کے خداوند آپ کو اس مسئلہ کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور شیطان کے چنگل سے رہایی عنایت فرمائے ۔
جواب : منی کی علامات کو جاننے کے لئے توضیح المسائل کے مسئلہ ۳۴۱ کی طرف رجوع کریں لیکن اگر انسان سے کوئی رطوبت خارج ہو اور اسے معلوم نہ ہوسکے کہ یہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت ( مثال کے طور پر مذی ، وذی اور ودی کے جوتینوں پاک ہیں اور غسل کرنا ضروری نہیں اور وضوکو بھی باطل نہیں کرتیں ) اگر اچھل کر یا شہوت کے ساتھ باہر آئے تو وہ منی کا حکم رکھتی ہے لیکن گاڑھی رطوبت (لزج ) جو پیشاب کے بعد خارج ہوتی ہے منی نہیں ہے اور جہاں پر بھی آپکو شک ہے غسل کرنا واجب نہیں ہے ، اور جہاں پر منی کے خارج ہونے کا یقین ہوجائے اور گرم پانی نہ ہونے کی یا کسی اور وجہ سے غسل نہ کرسکیں تو غسل کے بدلے تیمم کریں اور بدن کو پاک کریں اور پاک لباس کے ساتھ نماز پڑھیں اور جب تک یہ سلسلہ جاری رہے آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔
جواب:تمام واجب غسل اور وہ غسل جو بطور یقینی مستحب ہیں مثال کے طور پر ”غسل جمعہ کے بعد“ بغیر وضو کئے نماز پڑھ سکتا ہے لیکن مستحب غسلوں کے بعد جورجاء مطلوبیت کی نیت سے انجام دئیے جاتے ہیں وضو کے جانشین نہیں بنتے۔
جواب: غسل کرنا لازم نہیں ہے لیکن اگر اس کو یقین ہے کہ منی ہے تو خود کو پانی سے دھولے۔
جواب: عورت کے لئے لازم نہیں ہے کہ منی اچھل کر باہر آئے بلکہ اگر رطوبت اس وقت باہر آئے کہ جب شہوت انتہا پر پہنچ چکی ہو تو وہ منی کا حکم رکھتی ہے۔
جواب: جی نہیں داخل نہیں ہوسکتا ۔
جواب: اس پر لازم ہے کہ پہلے غسل کرے پھر درس میں شرکت کرے۔
جواب: احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کو دوبارہ کرے اور غسل کے بعد نماز اور اسی جیسے امور کے لئے وضو کرے۔
جواب: پانی کا زیادہ مقدار میں استعمال کرنا غسل کو نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اگر پانی کا اصراف ہو تو اصراف کی مقدار حرام ہے، اگر پسینا پانی کو مضاف نہ کرے تو غسل صحیح ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ پہلے پسینے کو دھوئے، اس کے بعد غسل کرلے۔
جواب: منی کا ہر صورت میں خارج ہونا غسل کا باعث بنتا ہے، بشرطیکہ اس کو منی کے خارج ہونے کا یقین ہو اور اگرپروسٹیٹ (prostate)(مثانے کے غدود)کے آپریشن کی وجہ سے منی کے ذرات پیشاب میں حل ہوجائیں تو جنابت کا باعث نہیں ہے۔
جواب: ان کو چاہئے کہ جس طرح عام لوگ انجام دیتے ہیں وہ بھی اسی مقدار پر اکتفاء کریں، یہاں تک کہ اگر ان کو کوئی ظن و گمان حاصل بھی نہ ہو۔
جواب: اگر یہ احتمال دے کہ مانع وضو کے بعد واقع ہوا ہے تو اعادہ لازم نہیں ہے۔
جواب:جب بھی ان چیزوں کا کوئی ذرہ جو پانی کے پہنچنے میں مانع ہو ہاتھوں پر باقی نہ رہے تو وضو کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں، اگر چہ رنگ یا چربی موجود رہے ، لیکن اگر وہ وضو کے پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ بنے اور اسے فی الحال برطرف بھی نہیں کیا جا سکتا ہو تو اسے چاہئے کہ جبیرہ وضو کے طریقے پر عمل کرے ۔