سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

نماز میں صحیح قرائت سے مقصود کیا ہے

یہ جو کہا جاتا ہے کہ نماز میں ذکر اور قرائت کا صحیح طور پر اداکرنا ضروری ہے ، اس سے کیا مراد ہے ؟

جواب: ۔ اس قدر صحیح تلفظ کرنا کہ عرب حضرات ، اس کو صحیح عربی سمجھیں ،ضروری ہے لیکن علماء تجوید کی سی ، دقتوں کی مراعات کرنا ضروری نہیں ہے ۔

غیر مشہور قرائت کے مطابق نماز میں قرائت کرنا

کیا قرآن کی تمام قرائتوں کے مطابق ، نماز میں قرائت کی جاسکتی ہے ؟

جواب:۔ اگر مسلمانوں کے درمیان وہ قرائت مشہور ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن چونکہ ہمارے زمانے میں ، حفص کی روایت کے مطابق ، عاصم کی قرائت مشہور ہے ، جو عام قرآنی نسخوں میں پائی جاتی ہے ، دیگر قرائتیں ، اشکال سے خالی نہیں ہیں۔

دسته‌ها: قرائت

جمعہ کے دن ظہر کی نماز میں بلند آواز سے قرائت کرنا

کیا جمعہ کے دن ، نماز ظہر میں ، بلند آواز سے قرا ئت کرنا جائز ہے ؟

جواب:۔ اگر حضر میں نماز پڑھے تو بلند آواز سے قرا ئت کرنا ،مستحب ہے اور اگر سفر میں ہوتو اس صورت میں بلند آواز سے قراٴت کرنا مستحب ہے ، جب جماعت سے نماز پڑھے،فرادیٰ کی صورت میں نہیں ۔

جمعہ کے دن ظہر کی نماز میں بلند آواز سے قرائت کرنا

کیا جمعہ کے دن ، نماز ظہر میں ، بلند آواز سے قرا ئت کرنا جائز ہے ؟

جواب:۔ اگر حضر میں نماز پڑھے تو بلند آواز سے قرا ئت کرنا ،مستحب ہے اور اگر سفر میں ہوتو اس صورت میں بلند آواز سے قراٴت کرنا مستحب ہے ، جب جماعت سے نماز پڑھے،فرادیٰ کی صورت میں نہیں ۔

اذان کے جزء کی نیت سے اشہد ان علیا ولی اللہ کہنا

کیا ”اشہد انّ علیاً ولی اللہ “کااذان میں کہنا بدعت ہے ؟

جواب:۔ بدعت وقت ہے جب اذان کے جزء کے قصد سے کہے، اور اگر اس مقصد سے نہ ہوتو بدعت نہیں اور کوئی حرج بھی نہیں ہے اور شیعہ حضرات اس قصد سے نہیں کہتے ہیں ۔

اذان میں شہادت ثالثہ کہنا(اذان میں اشہد ان علیا ولی اللہ کہنا)

شیعہ معاشرے میں امیر المومنین مولای متقیان حضرت علی بن ابی طالب ( علیہ الآف التحیة و الثناء) کی ولایت کی شہادت ، یعنی اذان میں ، اشہد ان علی ولی اللہ ، کہنا ، کس زمانے سے شروع ہوا ہے ؟

جواب :۔ بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ عمل ائمہ علیہم السلام کے زمانے سے شروع ہوا ہے ، لیکن اس زمانے میں ، عام نہیں تھا ، اس کے بعد شیعیت کا شعار اور پہچان بن گیا، ( مزید وضاحت کے لئے ، نفیس کتاب” مستمسک“ میں اذان و اقامت کی بحث ملاحظہ فرمائیں )۔

مسجد کے تہہ خانہ کا تاسیسات کے طور پر استعمال

مسجد کی حدود میں مثال کے طور پرتہہ خانے ، یا صحن وغیرہ میں دینی ( قرآن، احکام اور عقائد کی ) تعلیم کے ساتھ ثقافتی اور ورزشی ، فعالیت ، انجام دینے کی غرض سے ٹینس کی میز رکھنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب:۔ مسجد اور اس کے حدود میں ، مذکورہ وسائل(کھیل کے سامان ) سے ، استفادہ کرنا ، جائز نہیں ہے لیکن اگر لائبریری یاثقافتی امور کے لئے ، مسجد میں ھال بنایا گیاہے تو اس ہال سے مسجد کی حدود کے اندر، اس کام کے لئے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔

دسته‌ها: مسجد

مسجد کی کمیٹی(امانتداروں کی انجمن)کے ذریعہ مسجد کی تعمیر

کیا مسجدکی کمیٹی کے افراد، متولی کی اجازت کے بغیر ، مسجد کی تعمیر یامسجد کے کسی اور کام کے لئے قدم اٹھا سکتے ہیں

جواب : ۔ احتیاط یہ ہے کہ متولی سے اجازت لیں ، لیکن اگر متولی ، مسجد کے قائدے کا لحاظ نہیں رکھتا یا مخالفت کرتا ہے تو حاکم شرع سے اجازت لیں ۔

دسته‌ها: مسجد

اس مسجد کو گرانا جس میں نماز پڑھنا ممکن نہ ہو

تقریباً ساٹھ یا ستر سال پہلی کی تعمیر شدہ ایک مسجد ہے لیکن اس کا جائے وقوع ، مناسب نہیں ہے ، یعنی سردیوں میں اس قدر ٹھنڈی رہتی ہے کہ محلہ والوں میں مسجد جانے اور وہاں پر نماز ، پڑھنے کی سکت اور ہمت نہیں ہے مذکورہ مسجد، ایسے شخص کی زمین کے قریب ہے ، جو خود تو دنیا سے گذر گیا ہے لیکن اس کی اولاد کا دعوا ہے کہ مسجد نوابین کے زور پر بنائی گئی تھی جبکہ مسجد اور اس کے آس پاس کی زمین ، ان کی ہے چونکہ انہوں نے اس بنجر زمین کو زراعت کے قابل بنایا اور آباد کیا تھا یہاں تک کہ ان لوگوں نے مسجد کے دروازے تک کھیت بنالیا ہے ، اس وجہ سے بستی والوں نے کچھ مدت سے ، دوسری مناسب جگہ پر مسجد تعمیر کر لی ہے ، جبکہ پہلی مسجد ، کھنڈر میں بدل چکی ہے ، اس سلسلہ میں لوگوں کا وظیفہ کیا ہے ؟ کیا مسجد کو گراکر ، اس جگہ باغ لگا سکتے ہیں تاکہ اس کی در آمدکونئی مسجدمیں خرچ کیاجاسکے، نیز توجہ رہے کہ بستی والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے ، جو دو مسجدوں کی ضرورت پڑے۔

جواب:۔ مسجد کو گرایا نہیں جاسکتا ، لیکن اگر خود بخود گر جائے نیز اس کے ملبہ اور سامان ، کے برباد ہونے کا خطرہ ہو تو اسے دوسری مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے ، اور اگر مسجد گر جائے اور اس کی زمین بہر کیف استعمال کے لائق نہ ہو تو اس صورت میں اس مسجد کی زمین کو، دوسری مسجد کے فائدے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور قریبی زمینوں کے مالکوں کا قول ( دعوا) شرعی سند کے بغیر قابل قبول نہیں ہے ۔

دسته‌ها: مسجد
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت