زوجہ کیلئے ہبہ کرنا
کیا زوجہ کو کوئی چیز ہبہ کرنا، ہبہٴ لازم ہے؟
جواب: زوجہ کو کوئی چیز بخشنا، ہبہٴ لازم نہیں ہے لیکن اس کو واپس مانگنا مکروہ ہے۔
جواب: زوجہ کو کوئی چیز بخشنا، ہبہٴ لازم نہیں ہے لیکن اس کو واپس مانگنا مکروہ ہے۔
جواب: چنانچہ جائداد اور زمین کو اس شخص کے قبضہ میں دیدے تب تو کوئی اشکال نہیں ہے، ہبہ نافذ اور لازم ہے البتہ جب تک وہ خود با حیات ہے اس زمین کے منافع کا مالک رہے گا۔
جواب: جی ہاں انھیں فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
جواب:اگر غائب ہونے والا فرزند، بالغ ہوگیا ہے تو مذکورہ وکالت کاکوئی فائدہ نہیں ہے اوراگر نابالغ تھا تب کافی ہے بلکہ اس کو وکالت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
جواب: اگر قربةً الی الله کی نیت سے دیا تھا تب تو واپس لینے میں اشکال ہے۔
جواب:۔ وہ لڑکی جس نے اپنی چچی کا دودھ پیا ہے، اپنی چچی کی تمام اولاد کے ساتھ محرم ہوجا ئے گی، لیکن ان دونوں بھائیوں کی دیگر تمام اولادیں آپس میں شادی کرسکتی ہیں .
جواب:۔ جس بہن نے دودھ پلایا ہے وہ دودھ پینے والے بچہ کے باپ کے لئے محرم نہیں ہوگی لیکن اس کے بچے، دودھ پینے والے بچہ کے باپ کیلئے محرم ہو جائیں گے -.
جواب:۔اس کے نواسے نواسیاں، پوتے پوتیاں، دودھ پینے والے بچہ کیلئے محرم ہو جائیں گے .
جواب: اپنے سے دفاع کرسکتا ہے ؛ ہرچند مدمقابل کی نابودی کا سبب ہوجائے۔
جواب: اس صورت میں جبکہ فلسطین کے لوگ اپنے دفاع کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رکھتے ہوں تو جائز ہے اور دوسرے تمام ملکوں کے افراد کا ان کی حکومت کی اجازت کے بغیر اس کام لئے اقدام کرنا جائز نہیں ہے۔
اگر حملہ آور فوجی، تمھاری جان ومال یا تمھارے بچوں کی جان ومال کا ارادہ رکھتا تھا تب اس صورت میں، ہر طرح کی چیز کے ذریعہ، دفاع کرنا جائز تھا اور اس کا خون، ہدر اور رائیگاں ہوگا ۔
ان کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے لیکن ان کو نہایت کوشش کرنا چاہیے کہ اس طرح کے جھگڑوں سے روک تھام کریں تاکہ بات، قتل وخونریزی تک نہ پہنچے ۔
آپ ان کے پیسے کو استعمال کرسکتے ہیں بشرطیکہ اس کے خمس کو ادا کریں ۔باپ کا محتاج ہونا کوئی مہم نہیں بات ہے، کوشش کریں کہ اچھے اخلاق اور مودّبانہ طریقے سے اپنے والد کو راہ راست پرلے آئیں ۔کوشش کریں کہ آہستہ آہستہ تواضع، انکساری، بردباری اور خوش زبانی سے ان کے دل میں جگہ بنائیں اور ہرگز مایوس نہ ہوں، دھیان رہے کہ اُن کو خلوت میں تذکر دیں ، نہ کہ سب کے سامنے، اور یہ کام خیراندیشی کی صورت میں ہو نہ کہ تنقید اور دشمنی کی صورت میں ، یہ بھی جان لیں کہ فروع دین پر عمل کرنے میں لاپرواہی کرنا ہمیشہ اصول دین پر عدم ایمان کی دلیل نہیں ہوتا ۔
اگر پیسہ کا مالک کسی رقم کو صدقہ یا خمس کے عنوان سے الگ کردے، اس میں تصرف کرسکتا ہے؛ لیکن اسے کسی کی امانت میں تصرف کا حق نہیں ہے ۔
مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔