سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

قتل کے خوف سے ناجائز بچے کا ساقط کرانا

ایک لڑکی زنا سے حاملہ ہوئی ہے ۔ گھر والوں کے مطلع ہوجانے کی صورت میں لڑکی کے قتل کا خطرہ ہے ۔ کیا وہ سقط جنین کرسکتی ہے ؟ اس کی دیت کیا ہے ؟

جواب: جبکہ واقعاً اس کی جان کو خطرہ ہو اور بچہ بھی چار مہینے سے کم کا ہو تو سقط جنین جائز ہے اور اس کی دیت بیت المال کو ادا کرے گی ۔

دسته‌ها: ارش

حملہ آور کو قتل کرنے کے سلسلہ میں شریعت کا حکم

کیا اُس حملہ آور یا چور کو قتل کرنا جائز ہے جو کسی انسان پر حملہ کرے یا اس کے گھر میں چوری کرنے آئے؟

اس وقت جائز ہے جب قتل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو اور اس صورت میں اس کا خون ہدر ہے (یعنی قصاص وغیرہ نہیں کیا جاسکتا)

کسی شخص کو حملہ آور سمجھ کر قتل کردینا

اگر کوئی شخص اس خیال سے کہ سامنے والا شخص حملہ آور ہے ، اس پر فائر کرے اور اس کو قتل کردے کیا اس کا قصاص ہوگا؟

اگر قاتل نے مدّمقابل شخص پر حملہ آور ہونے کا گمان کرکے گولی چلائی ہے، تو قصاص نہیں ہے لیکن دیت ضرور ادا کرے ۔

بہن کے ساتھ زنا کا دعوا کرنے والے کا قتل

علی کے ایک بائیس(۲۲) سالہ بہن ہے حسن کئی مرتبہ اس کا رشتہ مانگنے گیا لیکن ہر بار لڑکی کے گھر والوں نے مخالفت کا اظہار کیا، یہاں تک کہ چند مہینے پہلے دوبارہ لڑکی کے گھر رشتہ مانگنے گیا، لیکن پھر بھی انھوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا، اس کے بعد حسن نے یہ دعوا کیا کہ اس نے جبراً علی کی بہن پر تجاوز کیا ہے! علی یہ سن کر غصہ میں آگیا اور غیرت میں آکر گرم اسلحہ (بندوق وغیرہ) سے حسن کو قتل کردیا، یہ پورا قصہ عدالت کی مختلف تاریخوں اور انتظامیہ کے دفتر میں قاتل کی زبان سے بیان ہوا ہے، اس کی بہن نے بھی تھوڑے اختلاف کے ساتھ اسواقع ہ کی تائید کرتے ہوئے حسن کے بیان پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے، اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟

جواب: اگر یہ قتل، عمد کا پہلو رکھتا ہو تو اس صورت میںاس کا حکم، قصاص ہے اور اگر بے اختیاری صورت تھی اور اپنی معمولی حالت سے خارج ہوگیا تھا یا خیال کررہا تھا کہ شرعاً متجاوز کا قتل اس کے لئے جائز ہے، تو قصاص نہیں ہے، لیکن دیت ثابت ہے اور اگر صورتحال مشکوک ہو تب بھی دیت ہے قصاص نہیں ہوگا۔

رات کے وقت گھر میں گھسنے والے کا قتل

ایک شخص آدھی رات کے وقت ایکگھر میں داخل ہوتاہے ، اس وقت مکان مالک اپنی بیوی کے ساتھ کہیں پر گیا ہوا ہوتا ہے جبکہ گھر میں اس کی اولاد میں سے چار نفر موجود ہہوتے ہیں مکان مالک کا اٹھارہ(۱۸) سالہ ایک لڑکا آواز سننے کے بعد نیند سے بیدار ہوجاتا ہے اور سیدھا باورچی خانہ میں جاتا اور چاقو اٹھالیتا ہے، تاریکی شب میں حمام کے بند ہونے کی آواز سن کر خوف کے عالم میں چاقو لئے ہوئے حمام کی طرف بڑھتا ہے وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ کوئی حمام میں چھپ رہا ہے اور دروازے کو بند کرنے کی کوشش کررہا ہے وہ دروازہ کو اندر کی طرف دھکا دےتا ہے تاکہ دروازہ کھل جائے ، اسی اثنا میں اچانک دوروازہ کھل جاتا ہے اور ایک ۲۹ سالہ شخص فرار کے قصد سے حمام سے نکلتا ہے اسی وقت مالک مکان کے لڑکے ہاتھ فضا میں لہرتاہے اور چاقو سیدھا اس شخص کے دل کے پار ہوجاتا ہے اور اس طرح اس شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟نیز اگر قاتل کی بہن مقتول سے کوئی رابطہ رکھتی تھی اور اس کے بلانے پر وہ آیا تھا، جبکہ قاتل اس امر سے بے خبر تھا تو اس مسئلہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس صورت میں جبکہ قاتل کا تصور یہ تھا کہ وہ شخص حملہ آور ہے، اس نے اپنے اور اپنے دوسرے بہن بھائیوں سے کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے اس کو قتل کردیا تو مقتول کا خون ہدر ہے۔

دوسرے کی جان اور ناموس کی طرف سے دفاع کرنا

نیچے دیے گئے سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:۱۔ اگر کسی شخص پر کوئی حملہ کرے اور وہ شخص شرعی دفاع کی طاقت نہ رکھتا ہو اور ہم اس کی مدد کو جائیں لیکن اس کی جان خطرے میں ہونے کے باوجود ہماری مدد کو قبول نہ کرے بلکہ انکار کردے اس صورت میں ہمارا وظیفہ کیا ہے؟۲۔ مفروضہ مسئلہ میں ، اگر ہم اس کی مدد کی خاطر حملہ آور سے بھڑجائیں اور وہ قتل ہوجائے چنانچہ حملہ آور کے خطرے دورکرنا اس کے قتل پر متوقف ہو، کیا محمکہ عدالت میں شرعی دفاع کو دلیل کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں؟۳۔ مذکورہ فرض میں ، یا دوسروں کی عزت وناموس کو خطرے میں دیکھ کر ، اگر شرعی دفاع کی راہ سے کوئی اقدام نہ کرسکیں تواس صورت میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کے باب سے کس حد تک مدد اور اقدام کا امکان پاجاتا ہے، اگر حملہ آور کو قتل کرنا پڑجائے، اس فرض کی بنیاد پر کہ دفاع اس کے قتل پر متوقف ہوتو کیا حکم ہے؟

جواب:مسئلہ کے فرض میں اس وقت جبکہ کسی کی جان خطرے میں ہو، مشروع راستے کو اختیار کرنا کوئی مانع نہیں رکھتا۔

دفاع کا دعویٰ کرنے والے کے ذریعہ چور یا جانی کے قتل کا حکم

سوال ۹۰۶ -- جنایت کرنے والے یا چور سے مقابلہ کے جائز نہ ہونے کی صورت میں ، دفاع کے مدّعی کے ذریعہ جانی یا چور کے قتل کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ ثابت ہونا چاہیے کہ دفاع کے مدّعی کے ذریعہ ، واقعاً چور کو مقام دفاع میں قتل کیا ہے اور اس کے سوا اپنی جان یا مال کی حفاظت کے لئے کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

بیوی پر دست درازی کرنے والے کا قتل

ایک مسلمان مرد آدھی رات کو اپنی مسکونی منزل میں داخل ہوتا ہے اور بغیر ارادہ کے اور اس لاعلمی کے ساتھ کہ ایک اجنبی اس کے گھر میں موجود ہے، ایسے شخص کے روبرو ہوتا ہے کہ جو دوبار اس کی ناموس کی ابرو ریزی کا سبب بنا تھا اور عدالت سے سزا پاچکا تھا ، وہ گھر کی موجودہ حالت اور اس شخص کی جسمانی وضعیت اور دیگر معقول قرائن سے علم حاصل کرلےتا ہے کہ وہ شخص اس کی ناموس پر تجاوز کرنے کے ارادہ سے اس کے گھر میں داخل ہوا تھا،لہٰذا وہ اس سے گتھم گھتا ہونے لگتا ہے، ایک خاض وضیعت اور بحرانی وغافلگیر کیفیت میں کہ جس میں وقت کے فوت ہوجانے اور متجاوز شخص کے غالب ہوجانے کا خوف شامل تھا، نہ پولیس کو بلانے کا امکان تھا اور نہ ہی متجاوز کو آسان طریقے سے دور کرسکتا تھا ، ناچار بورچی خانہ کے چاقو سے اپنی ناموس کی دفاع کی خاطر اس کی جان کے پیچھے لگ جاتاہے ، آخر اس کو قتل کرڈالتا ہے ، پھر خود پولیس میں جاکر اپنے کو قانون کے حوالے کردیتا ہے، کیا شخص زانی کی دیت اس کے اولیاء دم کو دینا پڑے گی؟

جواب: جبکہ دفاع، اجنبی شخص کے قتل سے کم ، ممکن نہ تھا، تو اس کا خون ہدر (رائگان) ہے اور اس کی کوئی دیت نہیں ہے۔

زنا ہونے کے یقین کی وجہ سے زنا کار کو قتل کردینا

ایک شخص نے اس یقین کے ساتھ کہ اس کے داماد نے اس کی زوجہ (یعنی اپنی خوشدامن) کے ساتھ زنا کیا ہے، عمداً اس کو قتل کردیا ہے، کیا زنا کا جاننا، قتل کا جواز ہے؟ اور کیا قاتل کا یقین واعتقاد، قتل کی نوعیت میں اثر رکھتا ہے اور مقتول کے مہدور الدم (جن کا خون رائگاں اور قصاص نہ ہو) ہونے کے اعتقاد سے ملحق ، موضوع ہے؟

فقط زنا سے واقف ہونا، قتل کرنے کا جواز نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ اس کو اپنی زوجہ سے زنا کرتے ہوئے دیکھ لے کہ اس صورت میں اس کا قتل جائز ہے لیکن جب تک عدالت میں ثابت نہ کرے، عمدی قتل شمار ہوگا اور ان موارد میں کہ جہاں ثابت ہوجائے کہ قاتل، مقتول کے مہدور الدم ہونے کا یقین رکھتا تھا اور اسی یقین سے اُسے قتل کردیا ہے، تب یہ قتل، قتل شبہ عمد شمار ہوگا ۔

اسلامی قوانین کا عورت اور مرد کے درمیان عدم فرق کے کنویشن سے ٹکراؤ

کنوینشن کے مضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا حضور اس بین الاقوامی معاہدہ کے احکام اسلامی کے ساتھ متعارض مورد کو اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ اس کی جزئی باتوں کو اس طرح سے حذف نہ کریں کہ کنوینشن کی روح یعنی مرد اور عورت کے ہر طرح کے عدم افتراق کے مخالف نہ ہو توکیا اس صورت میں احکام اسلامی کے مخالف موارد کو حذف کرتے ہوئے اس معاہدہ کو قبول کیا جاسکتا ہے؟

اس کنوینشن کا احکام اسلامی کے ساتھ تعارض اس حد تک ہے کہ جس کی احکام اسلامی کے ساتھ تطبیق دینا ممکن نہیں ہے، لیکن بعض موارد میں راہ حل موجود ہیں، البتہ احکام اسلامی کے ساتھ کامل طور سے اس کی تطبیق کی کوئی راہ نہیں ہے، کتنا اچھا ہے کہ دنیا کے مسلمان اپنے مکتب اور مذہب کی حفاظت کی خاطر اس طرح کے معاہدوں کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں اور ان جیسے معاہدوں کے سامنے تسلیم ہونے کی جگہ اسلام کے بزرگ علماء آپس میں ملکر بیٹھیں اور جس چیز پر سب اتفاق اور اجماع ہو اسے بیان کریں اور اختلافی موارد کو مجتہدین کے اوپر چھوڑدیں ۔ اور ہمیشہ کے لئے تہذیبوں اور قوانین کے تھوپنے والوں کی سازش کو اسلام کی ضرورت اور قوانین کے مخالف ہونے کے ذریعہ مایوس کردیں ۔

دسته‌ها: عورتوں کا حق

عورت اور مرد کے درمیان عدم فرق کے کنوینشن کاشرعیت اسلام سےمطابق نہ ہونا

اس کنوینشن کے بہت سے مادّے ایسے ہیں کہ جوفقہی نظر سے تنقید کے قابل ہیں، درخواست ہے کہ نیچے دیئے گئے موارد میں اپنی مبارک نظر بیان فرمائیں:اس معاہدے کے پہلے بند کے مطابق، جنسیت کی بنیاد پر مرد اور عورت کے درمیان ہر طرح کا فرق، استثنا یا محدودیت، سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، فرہنگی اور مدنی وغیرہ میدانوںمیں ختم ہونا چاہیے ۔اس مادّے پر توجہ رکھتے ہوئے ذیل کے موارد میں عورت اور مرد کے درمیان فرق جیسے بدن کے ڈھاپنے کاواجب میزان، صنف مخالف کے بدن کو دیکھنا، امامت جماعت، تمکین جنسی، بچوں پر ولایت، خاندان کی سرپرستی، حق حضانت، نکاح کے فسخ ہوجانے والے عیوب ،نشوز، دوسری شادی کے لئے ضروری عدت کا گذرنا، مرجعیت اور قضاوت کو غلط مانا جاتا ہے اور اس کو ختم ہونا چاہیے ۔آیا مذکورہ موارد میں مرد اور عورت کی مساوات، احکام شرع کے مطابق ہے؟

بے شک کامل مساوات نہ فقط فقہ شیعہ کی ضرورت کے مخالف ہے بلکہ ضرورت اسلام اور قرآن کی نص صریح اور روایات متواترہ کے مخالف ہے، اور علماء اسلام میں کوئی ایک بھی نہ آج ایسی مساوات کا قائل ہے اور نہ گذشتہ زمانہ میں کی کا قائل تھا، دراصل بین الاقوامی تنظیموں کو یہ سمجھا دیا جائے کہ قومیں اور ملتیں اپنی تہذیب اور مذہب کو الوادع نہیں کہہ سکتیں اور آنکھوں اور کانوں کو بند کرکے ایسے قوانین کو تسلیم نہیںکرسکتیںکہ جن کے بنانے میں وہ نہ ہی تو حاضر تھے اور نہ ہی منطق اور وجدان کی نظر سے ان میں قاطعیت پائی جاتی ہے، ممکن ہے بعض جزئی موارد میں علماء اسلام کے درمیان گفتگو کی گنجائش ہو، لیکن کامل طور سے مساوات کا جیسا کہ کہا گیا ہے کہ کوئی موافق نہیں ہے ۔

دسته‌ها: عورتوں کا حق
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت