مہدور الدم کے لغوی اور فقہی معنی
مہدورالدم یعنی کیا؟ مہدورالدم میں ملاک کیا ہے؟ بطور کلی کون سے گروہ یا اشخاص مہدورالدم ہوتے ہیں؟ کیا مہدورالدم افراد کا خون بہانا ضروری ہے کسی بھی حالت میں ہو، یہاں تک کہ ولی امر اور حاکم شرع کی اجازت کے بغیر ؟
جواب: مہدورالدم لغوی اور فقہی نظر سے وہ شخص ہے کہ جس کا خو ن بہانا جائز ہےمختلف گروہ اس حکم میں شامل ہوتے ہیں جیسے: قاتل عمد، مفسدین فی الارض، محاربین کا ایک گروہ اور بعض دوسرے گروہ؛ لیکن یہ کام بہت ذہانت اور لازمی تحقیق اور حاکم شرع کی اجازت سے انجام ہونا چاہئے۔
شوق دلانے کے لیے نمبر بڑھا دینے کا حکم
میں ایک اسکول میں پڑھاتا ہوں، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سالانہ امتحان میں کوئی طالب علم ایک دو نمبر سے پاس ہونے سے رہ جاتا ہے دوبارہ کاپی دیکھنے کے بعد بھی نمبر بڑھانے کی گنجایش نہیں نکلتی مگر ضرورت کے حساب سے، اس بات کے پیش نظر کہ انسان کا وقت بہت قیمتی ہے اور بعض دفعہ طلبہ نہایت غریب گھر کے ہوتے ہیں اگر وہ فیل ہو جائیں تو ان کی زندگی میں اس کا منفی اثر پڑتا ہے، استاد تشخیص دیتا ہے کہ نمبر کا بڑھانا اس کی زندگی میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے تو کیا ایسے میں میرے لیے ان کے نمبر بڑھا دینا جایز ہے؟
اگر اس حد تک ارفاق اور مروت سے پیش آنا اساتذہ میں معمول ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر ادھار میں فروخت کرنا
اگر کسی چیز کی قیمت معین ہے ادھار کی صورت میں کیا اس چیز کی معین قیمت سے زیادہ میں فروخت کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب۔عام طور سے جنس(چیز)کی قیمت میں نقد اور ادھار کی صورت فروخت کرنے میںفرق ہوتا ہے اس فرق میں شرعاً کوئی اشکال نہیں ہے اور رومال اور ماچس یا اسی طرح کی دوسری چیزوں کو اس کے ساتھ ملاکر بیچنا لازم نہیں ہے
ضرورت کے وقت اس مقام کے علاوہ، جہاں کیلئے نذر مانی تھی دوسرے مقام پر نذر کرنا
جس شخص نے یہ نظر مانی ہو کہ ،خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہونے کی صورت میں ، خانہ کعبہ کے طلائی ناودان (پرنالہ)کے نیچے ، پورا قرآن ختم کرے گا ،لیکن بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد ، وہاں پر تعمیر ہونے کی وجہ سے ،اس مقام پر تلاوت کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہو تو اس شخص کا کیا وظیفہ ہے ؟
جواب: احتیاط واجب یہ ہے کہ مسجد الحرام (خانہ کعبہ) میں دوسری جگہ جو اس مقام سے قریب ہو ، اپنی نذر بجا لائے۔
روزے کے کفارے کا مصرف
مجتہدین کرام ( دام بقائھم ) کی اجازت یاان لوگوں کی اجاز ت سے جنہیں مجتہدین مراجع کرام نے اجازت دے رکھی ہے کیا غیر عمدی روزے کے کفارے کو ( کھانا کھلانے کے علاوہ ) فقیروں کی عام ضرورتوں میں ، صرف کیاجاسکتا ہے ؟
جواب:۔ اس کا مصرف فقط اطعام ہے ( یعنی فقط فقیروں کو کھانا کھلانے میں صرف کیا جائے )
فاسد عقاید کی تعلیم والے مدرسہ میں پڑھنا
ہمارے شہر میں جو سرکاری اسکول ہے اس میں بعض باتیں ایسی بتائیں اور پڑھائی جاتی ہیں جو مذھب اہل ابیت (ع) کے خلاف ہیں بلکہ بعض فاسد عقاید بھی اس مین شامل ہیں جیسے یہ کہ خداوند عالم کو دیکھا جا سکتا ہے، اولیاء (پیغمبر اسلام (ص) اور اءمہ (ع) کے قبور کی زیارت حرام ہے۔ کیا اس صورت میں بچوں کو خاص کر لڑکیوں کو اسکول نہ بھیجنا، اس بات کے مد نظر کہ ان کا مدرسہ نہ جانا ان کے لیے نقصان دہ ہے اور اگر وہ نہ پڑھیں تو ان کے لیے مناسب رشتے نہیں آئیں گے۔ اس مسئلہ میں آپ کا کیا حکم ہے؟
انہیں مدرسہ بھیجنا جایز بلکہ بعض اوقات لازم ہے، اسی طرح جس طرح والدین کے لیے بچوں کو اسکول بھیجنا ضروری ہے خاص کر لڑکیوں کے لیے کہ انہیں عقاید کی تعلیم دی جائے اور اگر ممکن ہو تو ان کے لیے الگ مدرسے بنائیں جائیں، ایسا کرنا ان کے لیے واجب ہے۔
خود کشی پر اکراہ اور اجبار کرنا
ایک خاتون مناسب اخلاق نہیں رکھتی تھی، اپنے بھایؤں سے مار کھاتی تھی، بھائیوں کی مار کے نشانات اسکے بدن پر دیکھے جا سکتے تھے، پھر اس کے بھائیوں نے مقدمات قتل کی آمادگی کی ، رسی کو کسی چیز میں باندھا اور اپنی بہن کوخودکشی پر مجبور کیا ، بہن نے بھی رسی کو گلے میں باندھ لیا اور پھانسی کھا لی، کیا اس مرحومہ کی مار پیٹ اور اس کے لئے پھانسی کے وسائل کو فراہم کرنا قتل میں اکراہ واجبار کے مصادیق میں سے شمار ہوگا؟ اکراہ واجبار کرنے والوں کا شرعی حکم کیا ہے؟۔
جواب : جب بھی ثابت ہوجائے کہ اکراہ اس حد تک تھا کہ اس خاتون نے شدیدشکنجے کی وجہ سے خودکشی پر اقدام کیا ، اکراہ کرنے والے قاتل عمد کے حکم میں ہیں۔
قدرت و توانائی کی حد میں رہکر نذر کو انجام دینا (اپنی حیثیت کے مطابق نذر کرنا)
ایک شخص نے نذر مانی تھی کہ ہر روز اپنے والد مرحوم کی قبر پر جاکر ایک پارہ پڑھے گا ، لیکن اب شدید سردی ، یا شدید گرمی کی وجہ سے ،اس کام پر قادر نہیں ہے ، کیا اس کام کو گھر میں انجام دے سکتاہے یا پھر یہ کہ گرمیوں کے موسم میں ، رات کے وقت قبر پر جاکر ، ایک پارہ کی تلاوت کرے ؟
جواب: جس قدر کر سکتاہے اور قدرت رکھتاہے ،اسی قدر اپنی نذر پر عمل کرے۔
حمل کا ایک رحم سے دوسرے رحم میں منتقل کرنا
ڈاکٹر بچے کو اس عورت کے رحم سے نکال سکتے ہیں جس میں حمل مستقر (ٹھر) نہیں رہ پاتا اور اسے کسی دوسری عورت کے رحم میں ڈال سکتے ہیں جس میں وہ سالم طور پر پرورش پا کر پیدا ہو، اس تمہید کے ضمن میں درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت کریں:الف: اگر ایک مرد کی دو بیویاں ہوں (نطفہ ایک ہی شوہر کا ہونے کی صورت میں) کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ب: اگر عورت اجنبی ہو تو ایسا کرنے کا کیا حکم ہے؟ج: ایسا کرنے میں روح پڑنے یا نہ پڑنے سے کوئی فرق پڑتا ہے؟
جواب: مذکورہ تینوں صورتوں میں (حمل ٹھرنے کے بعد) نطفہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن چونکہ ایسا کرنا عام طور پر حرام لمس و نظر کا باعث ہوتا ہے لہذا صرف ایسی صورت میں جائز ہے جہاں شدید ضرورت کا تقاضا ہو۔
یتیم خانہ کا تحفہ“ کے عنوان سے ٹکٹ فروخت کرنا
کچھ عرصہ پہلے ایک مشکوک اقتصادی پیشکش اور پروگرام جو بظاہر یورپ سے لیا گیا ہے، حکومت کی اجازت سے ملک (ایران) کے بعض علاقوں میں اجرا کیا جارہا ہے، مذکورہ پیشکش اس قسم کی ہے:جو شخص اس اقتصادی پرگرام میں شریک ہونا چاہتا ہے ، پہلے مرحلہ میں ایک فارم دریافت کرتا ہے جس کی پشت پر، پروگرام چلانے والوں کے بینک کے اکاوٴنٹ نمبر کے ساتھ ساتھ سات لوگوں کا مکمل نام، پتہ اور اکاوٴنٹ نمبر درج ہوتا ہے، فارم کو وصول کرنے والے شخص کے لئے اس پروگرام میں شریک ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مبلغ پانچسو تومان پروگرام چلانے والوں کے بینک اکاوٴنٹ میں اور مبلغ دو سو تومان، فارم کے پیچھے درج شدہ ہر نام کے اکاوٴنٹ میں جمع کرکے دفتر کے پتہ پر روانہ کرے، کچھ مدت بعد اس دفتر کی طرف سے سات فارم اس کے لئے بھیجے جائیں گے، جن میں اس کا نام پہلے نمبر پر درج ہوگا اب اس کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ سات فارموں کو سات کارآمد اور فعّال اشخاص اور ممبروں میں تقسیم کرے ، مذکورہ فارم وصول کرنے والے اشخاص بھی اسی طرح عمل کریں گے، یہ قصہ اسی طرح جاری رہے گا، وہ لوگ مدّعی ہیں کہ آخر میں ہر شخص کو مبلغ ۰۰/۴۰۰/۶۸۱/۱ تومان حاصل ہوجائیں گے، دفتر کے کھاتے میں جمع ہونے والی رقم میں دس فیصد نیک کاموں میں خرچ کی جائے گیبرائے مہربانی اس مسئلہ کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں؟
اقتصاد کی اس قسم کی جھوٹی فعالیّت جائز نہیں ہے ، یہ مغربی دنیا کی بدترین دھوکہ دھڑی ہے، ایسا کذنے والا شریعت کی رو سے مستحق سزا ہے، اس لئے کہ وہ لمبی رقم جو بعض لوگوں کو دی جائے گی، نہ تو پیداوار سے حاصل ہوتی ہے اور نہ تجارت سے وصول ہوئی، بلکہ دھوکہ سے دوسروں کا مال ہڑپ کرکے کچھ حصہ، ادارے کے لئے، کچھ شریک ہونے والوں کے لئے اور ظاہر کو بچانے کے لئے ممکن ہے کچھ رقم کو نیک کاموں سے مخصوص کردیں، یہ عجوبہ اقتصادی پروگرام غیرممالک سے آئے ہیں، امید ہے مربوط محکمہ متوجہ ہوجائے اور اس طرح کے مسائل سے دھوکہ نہ کھائے، قابل احترام اسلامی حکومت پر لازم ہے اس مسئلہ میں مداخلت کرے اور اس غلط اقتصادی فعالیت کی روک تھام کرے، اس لئے کہ جب اس میں شریک حقداروں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی اور عملی طور پر پروگرام ایک مقام پر موقوف ہوجائے گا اور شریکوں کی کثیرت تعداد کوکچھ وصول نہیں ہوگا تب ممکن ہے کہ معاشرے میں شور وشرابہ ہو، ہماری عزیرالقدر قوم پر بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے تاکہ اس قسم کے جال میں نہ پھنسیں ۔
قرائت اور اذکار نماز میں قصد انشاء کرنا
کیا سورہٴ حمد اور نماز کے تمام اذکار میں انشاء کا قصد کرنا جائز ہے؟
اذکار، نماز، اور قرائت حمد وغیرہ کے معنی کا سمجھنا اور قصد انشاء کرنا نہ فقط جائز بلکہ بہت اچّھا ہے اور یہاں پر چند نکتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:۱۔ کوئی شک نہیں ہے کہ ان الفاظ کا مقصد ان کے معانی ہیں، تسبیح وتحلیل وحمد وتعریف کا ہدف خدا ہے اور یہ مطلب بغیر معنی کے قصد کے الفاظ کے قصد سے حاصل نہیں ہوسکتا ، یہاں تک کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق سورہٴ حمد بھی ایسا ہی ہے، آیات اور تعبیرات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ پروردگار کے سامنے بندہ کی زبان سے ہیں اور یہ فکر کہ ان میں قصد انشاء کرنا قصد قراٴنیت کے منافی ہیں، ایک بڑی غلطی ہے کہ جس سے خدا سے پناہ مانگنی چاہیے؛ کیونکہ یہ سورہٴ حمد کے مقصد کو بالکل ختم کردیتا ہے خصوصاً ان روایات کو ملاحظہ کرنے کے بعد جو سورہٴ حمد کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔۲۔ کوئی شک نہیں ہے کہ سورہٴ توحید یا دوسرے وہ سورے جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں اس امر سے جدا ہیں اور خداوندعالم کے کلمات کی حکایت، پند ونصیحت اور تعلیم کے لئے ہیں (مثلاً کوئی بھی ”قل ھو الله احد“ میں قصد انشاء نہیں کرتا ہے) ۔۳۔ معنا کا قصد کرنا کہ کبھی تفصیلی ہے (جیسے خواص کا قصد) اور کبھی اجمالی ہے (جیسے وہ قصد جو عوام کرتے ہیں) عوام جانتے ہیں کہ یہ کلمات، حمد وتسبیح وتمجید وثناء ودعا ہیں؛ لیکن ان کی جزئیات کو نہیں جانتے ہیں ۔۴۔ حق یہ ہے کہ اجمالی قصد کافی نہیں ہے اور عوام پر ضروری نہیں ہے کہ نماز کے معانی کو بطور تفصیل سمجھیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں عرب زبانوں کے علاوہ بہت زیادہ قومیں اسلام میں داخل ہوئی ہیں جو عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں بات کرتی ہیں، اگر قرائت نماز کے اذکار وقرائت کے معانی کا تفصیل کے ساتھ جاننا واجب ہوتا تو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ علیہم السلام کی روایات میں اس کی طرف اشارہ ہوتا ، خصوصاً بہت آئمہ علیہم السلام تو اس کا ذکر کرتے ہی جیسے امام رضا علیہ السلام کہ جنھوں نے ایک مدت ایرانیوں کے ساتھ زندگی گذاری ہے ۔
غیر مسلم شخص پر حدود اسلامی کا جاری کرنا
کیا حدود الٰہی غیر مسلم کے اوپر ہی جاری ہوسکتی ہےں؟ مثال کے طور پر، اگر ایک عیسائی شراب پئے ،یا زنا کرے کیا اس کا حکم مسلمان کے حکم سے جدا ہے اور کیا ان کے آئین کے مطابق ملزم پر حکم صادر ہونا چاہئے؟
جواب: زنا اور لواط جیسے جرم میں اگر دونو ں شخص غیر مسلمان ہوں تو حاکم شرع مخیر ہے کہ اسلام کے قوانین کے مطابق حکم جاری کرے یا ان کو ان کی عدالتوں کی طرف بھیج دے لیکن اگر ایک طرف مسلمان ہو ، چنانچہ اگر زانی مسلمان ہے اسلام کے حکم پر اس کے ساتھ عمل ہوگا، دوسرے شخص کے مورد میں مخیر ہے کہ اسلام کے قوانین کے مطابق عمل کرے یا اس کو اس کی عدالت کی طرف بھیج دے۔
نا جائز تعلقات کے بارے میں قاضی کا فحص اور جستجو کرنا
کبھی کبھی لڑکی اور لڑکے کے نا جائز تعلقات کی گزارش آتی ہے ،لیکن فائل بننے کے بعد طرفین ہر قسم کے تعلقات کا انکار کر دیتے ہیں یا جسمانی روابط کاعتراف کر تے ہیں اورمقاربت سے انکار کر دیتے ہیں اس صورت میں موضوع کی وضاحت کے لئے قاضی لڑکی کو قانونی ڈاکٹر کے پاس بھیج دیتے ہیں اور ڈاکٹر اس لڑکی کا آگے اور پیچھے سے معائنہ کرتا ہے ،سوال یہ ہے کہالف) کیا لڑکی کو ڈاکٹر (مرد یا عورت ) کے پاس معائنہ کے لئے بھیجنا ضروری ہے یا نہیں ؟اور اگر لڑکی کے گھر والے نگران ہوں اور معائنہ کی درخواست دیں تو کیا حکم ہے ؟ب) کیا ڈاکٹر کا نظریہ حکم میں تاثیر رکھتا ہے ؟چنانچہ قانونی ڈاکٹر گزارش دے کہ کوئی سخت چیز لڑکی کے آگے یا پیچھے کے حصے میں لگی ہے لیکن صراحت کے ساتھ تشخیص نہ دے تو کیا حکم ہے ؟
جواب الف : اس طرح کے مسائل میں قاضی تحقیق کرنے پر ماٴمور نہیں ہے (یعنی یہ اسکی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے )اور معائنہ کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی ضرورت پیش آجائے جو ایسا کرنے کاباعث ہوجواب ب: مزکورہ فرض میں فقط قانونی ڈاکٹر کا نظریہ کافی نہیں ہے
ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرنا
اگر ڈاکٹر قطعی طور پر کہے کہ بچہ کے پیٹ میں رہنے کی صورت میں ماں کی جان جا سکتی ہے تو درج ذیل مسائل کا حکم کیا ہوگا:الف: کیا بچہ کا رحم مادر میں ختم کر دینا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچ سکے؟ب: کیا ماں کو اسی حالت پر چھوڑ دینا جائز ہے تا کہ اس بچہ کی ولادت ہو جائے اور ماں مر جائے؟ج: اگر ماں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور ماں اور بچے دونوں کے مرنے کا احتمال ہو تو حکم کیا ہوگا؟ (موت و حیات کا احتمال دونوں کے لیے مساوی ہو)د: اگر بچہ میں روح پڑ چکی ہو یا نہ پڑی ہو تو اس سے مسئلہ پر کوئی فرق پڑے گا؟
جواب: الف۔ اگر بچہ کی خلقت کامل نہ ہوئی ہو تو سقط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ب۔ اگر بچے نے ابھی انسانی شکل و صورت اختیار نہ کی ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے اس کا سقط کرنا جائز ہے ۔ج۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی بچ سکے گا تو ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ جس کو بچنا ہو وہ بچ جائے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہ ہو اور اگر حالات یہ ہوں کہ یا دونوں مریں گے یا صرف بچہ مرے گا تو اس صورت میں بچہ کو سقط کرانا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچائی جا سکے ۔د۔ مذکورہ بالا جوابات سے اس کا جواب بھی روشن ہو چکا ہے ۔