ہوا کو آلودہ کرنا
ایسے وسیلہ سے استفادہ جو ہوا کی آلودگی کا ذریعہ ہوں، ایسے وسایل کی موجودگی میں جو اس سے کم آلودگی پھہلاتے ہیں، کا شرعا کیا حکم ہے؟
ہوا اللہ تعالی کی بری نعمتوں میں سے ایک ہے اسے بیکار آلودہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ہوا اللہ تعالی کی بری نعمتوں میں سے ایک ہے اسے بیکار آلودہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
جواب: مہدورالدم لغوی اور فقہی نظر سے وہ شخص ہے کہ جس کا خو ن بہانا جائز ہےمختلف گروہ اس حکم میں شامل ہوتے ہیں جیسے: قاتل عمد، مفسدین فی الارض، محاربین کا ایک گروہ اور بعض دوسرے گروہ؛ لیکن یہ کام بہت ذہانت اور لازمی تحقیق اور حاکم شرع کی اجازت سے انجام ہونا چاہئے۔
اذکار، نماز، اور قرائت حمد وغیرہ کے معنی کا سمجھنا اور قصد انشاء کرنا نہ فقط جائز بلکہ بہت اچّھا ہے اور یہاں پر چند نکتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:۱۔ کوئی شک نہیں ہے کہ ان الفاظ کا مقصد ان کے معانی ہیں، تسبیح وتحلیل وحمد وتعریف کا ہدف خدا ہے اور یہ مطلب بغیر معنی کے قصد کے الفاظ کے قصد سے حاصل نہیں ہوسکتا ، یہاں تک کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق سورہٴ حمد بھی ایسا ہی ہے، آیات اور تعبیرات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ پروردگار کے سامنے بندہ کی زبان سے ہیں اور یہ فکر کہ ان میں قصد انشاء کرنا قصد قراٴنیت کے منافی ہیں، ایک بڑی غلطی ہے کہ جس سے خدا سے پناہ مانگنی چاہیے؛ کیونکہ یہ سورہٴ حمد کے مقصد کو بالکل ختم کردیتا ہے خصوصاً ان روایات کو ملاحظہ کرنے کے بعد جو سورہٴ حمد کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔۲۔ کوئی شک نہیں ہے کہ سورہٴ توحید یا دوسرے وہ سورے جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں اس امر سے جدا ہیں اور خداوندعالم کے کلمات کی حکایت، پند ونصیحت اور تعلیم کے لئے ہیں (مثلاً کوئی بھی ”قل ھو الله احد“ میں قصد انشاء نہیں کرتا ہے) ۔۳۔ معنا کا قصد کرنا کہ کبھی تفصیلی ہے (جیسے خواص کا قصد) اور کبھی اجمالی ہے (جیسے وہ قصد جو عوام کرتے ہیں) عوام جانتے ہیں کہ یہ کلمات، حمد وتسبیح وتمجید وثناء ودعا ہیں؛ لیکن ان کی جزئیات کو نہیں جانتے ہیں ۔۴۔ حق یہ ہے کہ اجمالی قصد کافی نہیں ہے اور عوام پر ضروری نہیں ہے کہ نماز کے معانی کو بطور تفصیل سمجھیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں عرب زبانوں کے علاوہ بہت زیادہ قومیں اسلام میں داخل ہوئی ہیں جو عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں بات کرتی ہیں، اگر قرائت نماز کے اذکار وقرائت کے معانی کا تفصیل کے ساتھ جاننا واجب ہوتا تو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ علیہم السلام کی روایات میں اس کی طرف اشارہ ہوتا ، خصوصاً بہت آئمہ علیہم السلام تو اس کا ذکر کرتے ہی جیسے امام رضا علیہ السلام کہ جنھوں نے ایک مدت ایرانیوں کے ساتھ زندگی گذاری ہے ۔
جواب: پہلی اور دوسری صورت میں، اس بات کے پیش نظر کہ دونوں کی حالت ایک جیسی ہے ڈاکٹر کو اختیار ہے جس کا چاہے علاج کرے لیکن اگر اس کا کسی گھرانے سے شرعی معاہدہ ہو تو اسے مقدم کرے گا اور تیسری صورت میں جس کی جان کو زیادہ خطرہ ہو اس کا پہلے علاج کرے گا ۔
جواب: ان سے روزہ باطل نہیں ہوتا مگر یہ کہ منھ کی رطوبت اس پر پڑے اور وہ دوبارہ منھ میں چلی جائے اور اس قدر زیادہ ہو کہ آب دھن میں مل کر ختم نہ ہو سکے اور حلق سے نیچے پہچ جائے ۔
جواب: مذکورہ تینوں صورتوں میں (حمل ٹھرنے کے بعد) نطفہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن چونکہ ایسا کرنا عام طور پر حرام لمس و نظر کا باعث ہوتا ہے لہذا صرف ایسی صورت میں جائز ہے جہاں شدید ضرورت کا تقاضا ہو۔
انہیں مدرسہ بھیجنا جایز بلکہ بعض اوقات لازم ہے، اسی طرح جس طرح والدین کے لیے بچوں کو اسکول بھیجنا ضروری ہے خاص کر لڑکیوں کے لیے کہ انہیں عقاید کی تعلیم دی جائے اور اگر ممکن ہو تو ان کے لیے الگ مدرسے بنائیں جائیں، ایسا کرنا ان کے لیے واجب ہے۔
اگر اس حد تک ارفاق اور مروت سے پیش آنا اساتذہ میں معمول ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جواب: چنانچہ قتل کے وقوع کو دونوں کی طرف منسوب کرسکتے ہوں ، ان میں سے ہر ایک ، وقوع قتل میں جتنی تاثیر رکھتے ہوں گے اسی کی مناسبت سے دیت کے ضامن ہوں گے، اس بنا پر وقوع حادثہ میں ذمہ داری کا معیار سببیت ہے اورجب بھی حادثہ دو یا دو سے زیادہ افراد کی طرف منسوب ہو، ہر ایک اپنی تاثیر کی مقدار بھر ضامن ہے۔
جواب:۔ اس کا مصرف فقط اطعام ہے ( یعنی فقط فقیروں کو کھانا کھلانے میں صرف کیا جائے )
جواب: اگر کپڑے یا کتے کا جسم گیلا نہ ہو تو نہ لباس نجس ہو گا اور نہ مسجد ۔
جواب 1:اس صورت میں جب کہ زید کا مقصد اپنے مال کو حاصل کرنا تھا تو اس کی کوئی تقصیر نہیں ہے اور دیت میں سے کوئی چیز اس پر نہیں ہے۔جواب 2: وہ دیت کی ادائیگی پر ذمہ دار نہیں ہے، لیکن اپنے عمل کی خاطر تعذیر کا مستحق ہے۔
جواب۔عام طور سے جنس(چیز)کی قیمت میں نقد اور ادھار کی صورت فروخت کرنے میںفرق ہوتا ہے اس فرق میں شرعاً کوئی اشکال نہیں ہے اور رومال اور ماچس یا اسی طرح کی دوسری چیزوں کو اس کے ساتھ ملاکر بیچنا لازم نہیں ہے
جواب : جب بھی ثابت ہوجائے کہ اکراہ اس حد تک تھا کہ اس خاتون نے شدیدشکنجے کی وجہ سے خودکشی پر اقدام کیا ، اکراہ کرنے والے قاتل عمد کے حکم میں ہیں۔
جواب الف : اس طرح کے مسائل میں قاضی تحقیق کرنے پر ماٴمور نہیں ہے (یعنی یہ اسکی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے )اور معائنہ کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی ضرورت پیش آجائے جو ایسا کرنے کاباعث ہوجواب ب: مزکورہ فرض میں فقط قانونی ڈاکٹر کا نظریہ کافی نہیں ہے