حج پر جانے کيلئے زکات کے مال سے استفادہ کيا جاسکتاہے
مسئلہ 1687: فقير حج و زيارات و غيرہ پر جانے کے لئے زکوة لے سکتا ہے ليکن اگر اپنے سالانہ اخراجات کے لئے زکوة لے چکاہو تو حج و زيارات و غيرہ کے لئے زکوة کا لينا اشکال رکھتا ہے.
مسئلہ 1687: فقير حج و زيارات و غيرہ پر جانے کے لئے زکوة لے سکتا ہے ليکن اگر اپنے سالانہ اخراجات کے لئے زکوة لے چکاہو تو حج و زيارات و غيرہ کے لئے زکوة کا لينا اشکال رکھتا ہے.
مسئلہ 1688: اگر مالک کسي کو اپنے مال کي زکوة دينے کے لئے وکيل بنائے اور اس کي ظاہري عبارت کا مفہوم ہو کہ دوسروں کودے تو خواہ وکيل خود بھي مستحق ہو اس ميں سے نہيں لے سکتا اور اگر ظاہر عبارت عام ہو تو خود بھي لے سکتا ہے.
مسئلہ 1689:اگر کوئي بھيڑ ، گائے اونٹ يا سونا چاندي کو بعنوان زکوة بقدر ضرورت لے لے پھر اگر وہ نصاب ہو اور اتفاقا سال گزرجائے جائے تو اس کي بھي زکوة دے.
مسئلہ 1690: اگر کسي واجب شدہ زکوة کے مال ميں دو ادمي شريک ہوں اور ايک اپنے حصہ کے زکوة ديدے اور پھر مال کو تقسيم کرے تو اس کو اپنے حصہ ميں تصرف کا حق ہے چاہے دوسرے نے اپنے حصہ کي زکوة نہ دي ہو.
مسئلہ 1691:اگر کسي کے ذمہ خمس و زکوة کا قرضہ ہے اور وہ مقروض بھيسے اور کفارہ و نذر کا مال بھي اس پرواجب ہو اور وہ سب کو نہ دے سکتا ہو تو ايسي صورت ميں جس مال پر خمس يا زکوة واجب ہوئي تھي وہ بعينہ موجود ہو تو پہلے اس مال کا خمس يا زکوة دے اور اگر وہ مال موجود نہ ہو تو احتياط يہ ہے کہ لوگوں کے حق کو مقدم کرے اور اگر ايسا کوئي شخص مرجائے اور اس کا مال ان تمام چيزوں کے لئے کافي نہ ہو تب بھي اسي ترتيب سے عمل کرے.
مسئلہ 1692:تمام وہ لوگ جو شب عيد الفطر کو غروب افتاب سے پہلے بالغ، عاقل،مالدار ہوں ان پر زکوة فطرہ واجب ہے يعني وہ شخص اپني طرف سے اور جن لوگوں کو نفقہ ديتا ہے ان کي طرف سے ہر ايک کي طرف سے ايک ايک صاع (تقريبا تين کيلو) فطرہ دے اور وہ ايسي چيز ہو جو عموما وہاں کے لوگوں کي غذا ہو چاہے گيہوں، جو، کجھور، چاول ، اور اسکي مانند کوئي چيز ہو يا اس کي قيمت ہو فطرہ مستحق کوديا جائے گا.
مسئلہ 1693: مالدار سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اہل و عيال کے سال بھر کا خرچ رکھتا ہوچاہے وہ کار و بار سے حاصل ہو تا ہو (يا ملازمت و غيرہ سے)اور جو ايسا نہ ہو وہ فقير ہے اس پر زکوة فطرہ واجب نہيں ہے وہ خود زکوة فطرہ لے سکتا ہے.
مسئلہ 1694: جو لوگ غروب سب عيد سے پہلے کسي کے يہاں کھانا کھانے والوں ميں شمارہوں انکا فطرہ ميزبان پر واجب ہے خواہ وہ لوگ بڑے ہوں يا چھوٹے، مسلمان ہوں يا کافر، واجب النفقہ ہوں يا نہ ہوں اس کے پاس رہتے ہوں يا کسي اور جگہ رہتے ہوں.
مسئلہ 1695:اگر کوئي شخص کسي ايسے ا?دمي کے نفقہ کا ذمہ دار ہو جو دوسرے شہر ميں رہتا ہو اور مالک اس کو وکيل کردے کہ تم ميرے مال سے اپنا فطرہ ديدينا اور مالک کو اطمينان و بھر و سہ ہوکہ وہ فطرہ ديد يگا تو کافي ہے (مالک کو فطرہ نکالنے کي ضرورت نہيں ہے مترجم ).
مسئلہ 1696:شب غروب افتاب سے پہلے مالک مکان کي رضا مندي سے جو مہمان اجائے اور اس کا مہمان شمار ہو يعني يہ ارادہ رکھتا ہو کہ ايک ملت تک اسکے پاس رہيگا تو اسکا بھي فطرہ ميزبان پر واجب ہے ليکن اگر صرف شب عيد اسکي دعوت ہو تو اسکا فطرہ ميزبان پر واجب نہيں ہے اور اگر کوئي مہمان صاحب خانہ کي رضامندي کے بغير اجائے تب بھي بناء بر احتياط واجب اسکا فطرہ دے اسي طرح اس شخص کا بھي فطرہ دے جس کے لئے لوگوں نے مجبور کيا ہو کہ اسکا خرچ ديا کرو.
مسئلہ 1697: غروب سے پہلے بالغ ہونے والے بچے، عاقل ہوجانے والے پاگل، مالدار ہو جانے والے فقير کو فطرہ دينا چاہئے ليکن اگر غروب افتاب کے بعد ہو تو اسکا فطرہ واجب نہيں ہے اگر چہ مستحب ہے کہ عيد الفطر کے دن ظہر تک اگر شرائط حاصل ہوجائيں تو فطرہ دے.
مسئلہ 1698: جس فقير کے پاس فقط ايک صاع (تقريبا تين کلو) گيہوں، جو و غيرہ ہو اس کو بھي فطرہ دينا مستحب ہے اور اگر اس کے اہل و عيال ہوں اور وہ ان سب کا فطرہ دينا چاہتا ہو تو اسي ايک صاع کو فطرہ کي نيت سے ان ميں سے کسي ايک کودے اور وہ بھي اسي اسي نيت سے دوسرے کودے يہاں تک کہ اخري فرد تک پہونچ جائے اور بہتر ہے کہ اخر ميں کسي ايسے کو ديديں جوان ميں سے نہ ہو اور اگر ان ميں سي کوئي کم سن ہو تو اسکي جگہ پر اس کاولي لے لے اور بعد ميں دوسرے کو ديدے.