دو وکيل کا ہونا احتياط مستحب ہے
مسئلہ 2029 احتياط واجب ہے کہ ايک ہي شخص مرد اور عورت دونوں کا وکيل نہ ہو? يعني دو وکيل عقد پڑھيں اسي طرح احتياط يہ بھي ہے کہ شوہر اپنے ہونے والي بيوي کي طرف سے وکيل ہو کر صيغہ جاري کرے خواہ عقد دائمي ہو يا وقتي.
مسئلہ 2029 احتياط واجب ہے کہ ايک ہي شخص مرد اور عورت دونوں کا وکيل نہ ہو? يعني دو وکيل عقد پڑھيں اسي طرح احتياط يہ بھي ہے کہ شوہر اپنے ہونے والي بيوي کي طرف سے وکيل ہو کر صيغہ جاري کرے خواہ عقد دائمي ہو يا وقتي.
مسئلہ 2030 دائمي صيغہ پڑھنے کے لئے عورت کا اتنا کہنا کافي ہے زوجتک نفسي علي الصداق المعلوميعني معين مہر ميں نے اپني نفس کو تمہاري زوجيت ميں ديدي ہے اور مرد اس کے بعد کہے قبلت التزويج يعني اس شادي کو ميں نے قبول کيااور اگر صيغہ جاري کرنے گے لئے کسي کو وکيل کرے تو پہلے عورت کا وکيل کہے:زوجت موکلتي موکلک علي الصداق المعلوميعني ميں اپني موکلہ کو معين مہر پر تمہارے موکل کي زوجيت ميں ديا، پھر مردکا وکيل کہے: قبلت لموکلي ھکذا يعني ميں نے بھي اسي طرح اپنےموکل کي طرف سے قبول کيا.
مسئلہ 2031 متعہ کا صيغہ جاري کرنے کے لئے اتنا ہي کافي ہے (ليکن پہلے مہر اور مدت معين ہوچکي ہو) اور عورت کہے: زوجتک نفسي في المدہ المعلومہ علي المھر المعلوم يعني ميں نے اپنے کو معين مہر اور معين مدت کے لئے تمہاري زوجيت ميں ديا اس کے بعد مرد کہے : قبلت (يعني ميں نے قبول کيا يا پہلي عورت کا وکيل کہے متعت موکلتي موکلک في المدہ المعلومہ علي المہر المعلوم يعني ميں اپني موکلہ کو معين مدت اور معين مہر گے ساتھ تمہارے موکل گے ازدواج ميں ديا اس کے بعد مرد کا وکيل کہيں گے: قبلت لموکلي ھکذا (ميں نے بھي اسي طرح اپنے موکل کے لئے قبول کيا.
مسئلہ 2032:ازدواجي عقد کے چند شرائط ہيں?احتياط يہ ہے کہ عقد کا صيغہ عربي ميں پڑھاجائے ہاں اگر مرد و عورت عربي ميں نہ پڑھ سکيں تو اپني زبان ميں بھي صيغہ جاري کرسکتے ہيں عربي زبان ميں صيغہ جاري کرنے کے لئے وکيل کرنا واجب نہيں ہے ليکن ايسے الفاظ کا ادا کرنا بہت ضروري ہے جو عربي صيغہ کے مفہوم کو اداکر سکيں.1 صيغہ جاري کرنے والے کے لئے قصد انشاء کرنا ضروري ہے يعني اس کا قصد يہ ہو کہ ان الفاظ کے جاري کرنے کے ساتھ دونوں مياں بيوي ہوجائيں گے اور عورت اپنے کو مردکي زوجيت ميں دے رہي ہو اور مرد بھي اسکو قبول کررہاہو اور وکيل بھي يہي قصد رکھتاہو2 صيغہ جاري کرنے والے کو عاقل ہونا چاہئے اور احتياط ہے کہ بالغ بھي ہوچاہئے وہ دوسرے کا وکيل ہو پھر بھي بالغ ہو3 ولي يا وکيل جو صيغہ جاري کرنے ميں مرد و عورت کو معين کريں اس لئے اگر کسي کے کئي لڑکياں ہوں تو وہ يہ نہيں کہہ سکتا کہ زوجتک احدي بناتي يعني:(ميں اپني کسي ايک لڑکي کي شادي تمہارے ساتھ کردي4 زن و شوہر اپنے ارادہ و اختيار سے شادي پر راضي ہوں، ليکن اگر کوئي ايک ناپسنديدگي اجازت دے مگر معلوم ہو کہ دل سے راضي ہے تو عقد صحيح ہے5 عقد کا صيغہ صحيح پڑھا جائے اور اگر اس طرح غلط پڑھے کہ معني بدل جائيں تو عقد باطل ہے ہاں اگر معني نہ بدليں تو کوئي اشکال نہيں ہے.
مسئلہ 2033:جو شخص عربي کے قواعد تو نہيں جانتا ليکن عقد کے صيغوں کو صحيح جاري کرتاہو اور ان صيغوں کے معني بھي سمجھتا ہو تو اس کا عقد پڑھنا صحيح ہے.
مسئلہ 2034:اگر کسي عورت و مرد کا نکاح ان سے اجازت حاصل کئے بغير پڑھ ديا جائے اور وہ دونوں بعد ميں راضي ہوجائيں اور اجازت ديديں تو صحيح ہے.
مسئلہ 2035:اگر مرد و عورت دونوں کو يا کسي ايک کو شادي پر مجبور کريں ليکن عقد کے بعد وہ راضي ہوجائيں اور اجازت بھي ديديں پھر بھي احتياط واجب ہے کہ صيغہ عقد کو دوبارہ وپڑھاجائے.
مسئلہ 2036: (ضرورت کے وقت) باپ اور دادا نا بالغ بچہ يا ديوانہ کا عقد خود بھي کرسکتے ہيں پھر بچہ بالغ ہونے کے بعد اور ديوانہ عاقل ہونے کے بعد اس عقد کو نہ توڑے.
مسئلہ 2037:جو لڑکي بالغہ ورشيدہ ہو (يعني اپنے اچھے برے کو سمجھتے ہو) اگر وہ کنواري ہے تو احتياط واجب کي بناپر باپ ياء اداکي اجازت سے اپنا عقد کرے ليکن اگر مناسب شوہر مل رہا ہو اور باپ مخالفت کرے تو اس کي اجازت ضروري نہيں ہے اسي طرح اگر باپ يا دادا تک رسائي ممکن نہ ہو تب بھي ان کي اجازت شرط نہيں ہے جبکہ لڑکي کو بھي شادي کرنا ضروري ہو اور اگر لڑکي کنواري نہ ہو (بلکہ پہلے شادي ہوچکي ہو) تو دوسري شادي کے لئے باپ يا دادا کي اجازت ضروري نہيں ہے.
مسئلہ 2038: جو لڑکي بالغہ ورشيدہ ہو (يعني اپنے اچھے برے کو سمجھتے ہو) اگر وہ کنواري ہے تو احتياط واجب کي بناپر باپ ياء اداکي اجازت سے اپنا عقد کرے ليکن اگر مناسب شوہر مل رہا ہو اور باپ مخالفت کرے تو اس کي اجازت ضروري نہيں ہے اسي طرح اگر باپ يا دادا تک رسائي ممکن نہ ہو تب بھي ان کي اجازت شرط نہيں ہے جبکہ لڑکي کو بھي شادي کرنا ضروري ہو اور اگر لڑکي کنواري نہ ہو (بلکہ پہلے شادي ہوچکي ہو) تو دوسري شادي کے لئے باپ يا دادا کي اجازت ضروري نہيں ہے.
مسئلہ 2038: اگر مرد کو عقد کے بعد معلوم ہو کہ عورت کے اندروج ذيل سات عيبوں ميں سے ايک عيب ہے تو وہ نکاح توڑسکتاہے:.1ديوانگي بشرطيکہ پتہ چل جائے کہ وہ عقد سے پہلے ہي پاگل تھي2 جذام3 برص4 اندھي ہو5 اس طرح شل ہو کہ وہ ظاہر ہو6 افضا ہوگيا ہو يعني اس کے حيض و پيشاب کا راستہ يا حيض و پايخانہ کا راستہ ايک ہوگيا ہو کليہ يہ ہے کہ اس طرح پارہ ہو کہ جنسي لذت اٹھانے کے قابل نہ ہو يا پيشاب7 پيشاب کے مقام ميں ايسا گوشت يا ہڈي يا عذود ہو کہ جس کي وجہ سے ہمبستري نہ ہوسکتي ہو.
مسئلہ 2040: اس سے پہلے دو مسئلوں ميں جو عيوب بيان کئے گئے ہيں ان کي بناپر مرد يا عورت نکاح کو توڑڈيں تو طلاق کي ضرورت نہيں ہے بلکہ وہي توڑناہي کافي ہے.