ہر شخص دوسرے کي نيابت ميں حج کر سکتا ہے
مسئلہ1740: ہر شخص دوسرے کي نيابت ميں حج کرسکتا ہے بشرطيکہ حج کے مسائل سے واقف ہو خواہ پہلے حج کرچکا ہو ليکن اگر وہ خود حج نہيں کرسکتا تو صاحب مال کي اجازت کے بغير دوسرے کو نائب نہيں بنا سکتا.
مسئلہ1740: ہر شخص دوسرے کي نيابت ميں حج کرسکتا ہے بشرطيکہ حج کے مسائل سے واقف ہو خواہ پہلے حج کرچکا ہو ليکن اگر وہ خود حج نہيں کرسکتا تو صاحب مال کي اجازت کے بغير دوسرے کو نائب نہيں بنا سکتا.
مسئلہ 1741: کسي کو ميت کا حج بجالانے کے لئے اجير کرنے سے ميت بري الذمہ نہيں ہوتي جب تک اطمينان نہ ہوجائے کہ حج بجالايا گيا ہے.
مسئلہ1742: زکوة يا سہم امام سے رقم لے کر حج کرنا جائز ہے اور يہ حج واجبي حج شمار ہوگا.
مسئلہ1743: جس کو شادي کي ضرورت ہو اور شادي کے اخراجات کے بعد حج کے لئے رقم نہ بچتي ہو تو وہ شخص مستطيع نہيں ہے اور نہ اس پر حج واجب ہے.
مسئلہ1744: حج واجب ہونے کے بعد اگر حج نہ بجالا يا جائے اور پھرا استطاعت ختم ہوجائے تو وہ شخص جس طرح بھي ہو حج کرے چاہے قرض لے کر يا اجير بن کر.
مسئلہ 1745:اگر مستطيع حج نہ کرے اور بعد ميں جسماني قوت ختم ہوجائے اور وہ خود حج کرنے سي نااميد ہوجائے تو کسي دوسرے کو نيابت ميں بھيجے ليکن اگر کوئي مالدار ہوجائے ليکن بيماري يا پڑھا پے کي وجہ سے حج پر قادر نہ ہو تو اس پر حج واجب نہيں ہے ليکن مستحب ہے کہ کسي کو اجير بنا کر حج کرائے.
مسئلہ1746: جو شخص حج کرچکا ہو دوبارہ حج کرنا اس کے لئے مستحب ہے ليکن اگر حاجيوں کے بہت زيادہ اژدھام کي وجہ سے جن لوگوں نے ابھي حج نہيں کيا ہے انکے لئے باعث زحمت ہو تو ان کے لئے بہتر ہے کہ وقتي طور پر مستحبي حج نہ کريں اسي طرح جہاں نمبر سے حج ہو تا ہو بہتر ہے کہ اپني نوبت ايسے شخص کوديں جو واجب حج ادا کرنا چاہتا ہے اور اگر ايک سال خانہ ي خدا حاجيوں سے خالي ہوجائے تو حاکم شرع کا فريضہ ہے کہ کچھ لوگوں کو حج کے لئے بھيجے چاہے وہ لوگ حج کر ہي چکے ہوں.
مسئلہ 1748: جو لوگ بيوي بچوں کے اخراجات نہيں رکھتے ان کے لئے زندگي بسر کرنے کيلئے تجارت، زراعت، صنعت، يا کوئي بہے ذريعہ معاش تلاش کرنا واجب ہے.اسي طرح اسلامي معاشرہ کے ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اور نظام کو برقرار رکھنے کيلئے يہ چيزيں واجب ہيں ان کے علاوہ اور صورتوں ميں يہ چيزيں مستحب موکد ہيں خصوصا فقيروں کي مدد کے لئے يا اپنے گھرانے کي زندگي اچھي بنانے کے لئے.
مسئلہ 1749: بيچنے والے کے لئے مستحب ہے تمام خريداروں کے لئے جنس کي قيمت مين کوئي فرق نہ رکھے، ان کے ساتھ سختي نہ برتے ، قسم نہ کھائے اور اگر مشتري (خريدار) پشيماں ہو کر خريدي ہوئي چيز واپس کرنا چاہے تو واپس کرے.
مسئلہ 1751: درج ذيل معاملات کو بہت سے فقہاء نے مکروہ قرار ديا ہے بہتر ہے کہ ان سے اجتناب کيا جائے1 صرافي اور وہ ہر کام جو انسان کو سود خوري يا ديگر حرام اعمال کي طرف لے جاتے ہوں.2 کفن فروشي اگر حرفہ اور مشغلہ کي صورت ميں ہو.3 پست قسم کے افراد اور جن لوگوں کا مال مشکوک ہو ان سے معاملہ کرنا اگر چہ بظاہر ان کے اموال حلال ہوں.4 اذان صبح اور طلوع افتاب کے در ميان معاملہ کرنا.5 جو شخص کسي چيز کو خريد رہاہو معاملہ طے ہونے سے پہلے اس ميں مداخلت کرنا.
مسئلہ 1752:درج ذيل مقامات پر معاملہ باطل ہے:1. عين نجس يعني جو چيزيں ذاتا نجس ہيں بنابر احتياط واجب ان کي خريد و فروخت حرام ہے جيسے پيشاب، پاخانہ، خون اس لئے نجس کھادکي خريد و فروخت محل اشکال ہے ليکن اس سے استفادہ کرنے ميں کوئي حرج نہيں ہے.البتہ ہمارے زمانے ميں زخميوں اور بيماروں کے لئے خون سے استفادہ کيا جاتا ہے اس لئے اس کي خريد و فروخت جائز ہے? اسي طرح شکاري اور گھر کي حفاظت کرنے والے کتوں کي خريد و فروخت جائز ہے2. غصبي چيزوں کي خريد و فروخت حرام و باطل ہے البتہ اگر مالک اجازت ديدے تو جائز ہے.3. جن چيزوں سے حاصل ہونے والے فائدے عام طور سے حرام ہيں ان کي خريد و فروخت حرام ہے جيسے موسيقي و جوئے کے الات. 4. ايسي چيزوں کي خريد و فروخت جو لوگوں کي نظر ميں ماليت نہيں رکھتي حرام ہے، چاہے مخصوص شخص کے لئے اس ميں بہت سے فائدہ ہو جيسے بہت سے حشرات الارض 5 سودي معاملہ بھي حرام ہے6 ان ملاوٹ والي اشياء کا بيچنا جس کے بارے ميں خريدار کو کچھ پتہ نہ ہو، جيسے دودھ ميں پاني ملاکر يا گھي ہيں چربي يا اور کوئي چيز ملا کر بيچنا اس عمل کو غش کہتے ہيں اور يہ گناہ کبيرہ ہے رسول اکرم سے منقول ہے: جو شخص مسلمانوں سے خريد و فروخت ميں ملاوٹ کرے يا ان کو نقصان پہونچائے لے يا ان سے حيلہ و چالبازي کرے وہ ہم سے نہيں ہے جو شخص اپنے برابر مومن سے دھو کہ کرتاہے خدا اس کي روزي سے برکت اٹھا ليتا ہے اور اس کے معاش کے راستے بند کرديتا ہے اور اس کو خود اس کے حوالہ کرديتا ہے.
مسئلہ 1766: سود کھانا حرام ہے سود کي دو قسميں ہيں اول: سودي قرض جو انشاء اللہ قرض کي بحث ميں اس کا ذکر کيا جائے گا دوئم: سودي معاملہ اس کا مطلب ہے کہ وزن يا پيمانہ سے زيادتي کے ساتھ بيچا جائے مثلا ايک من گيہوں کو ڈيڑھ من گيہوں سے بيچاجائے اسلامي روايات ميں سود کي بہت مذمت ائي ہے اور اس کو بہت بڑے گناہوں ميں شمار کيا گياہے.