قران کے خط اور ورق کو نجس کرنا
مسئلہ ۱۵۸ : دوم : قرآن کے خط اور ورق کو نجس کرنا حرام ہے اور اگر نجس ہوجائے تو فورا پاک کرنا چاہئے۔ قرآن کی جلد کو نجس کرنا اگر قرآن کی بے احترامی کا باعث ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ ۱۵۸ : دوم : قرآن کے خط اور ورق کو نجس کرنا حرام ہے اور اگر نجس ہوجائے تو فورا پاک کرنا چاہئے۔ قرآن کی جلد کو نجس کرنا اگر قرآن کی بے احترامی کا باعث ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ 163 : قرآن کے ورق کا پاک کرنا صرف اسي شخص کافريضہ نہيں ہے جس نےاس کو نجس کيا ہے بلکہ جس کے بھي علم ميں ہو اسي کا فريضہ ہے کہ پاک کرے اور اگر ايک شخص بھي اس فريضہ کو انجام ديدے تودوسروں سے ساقط ہوجائے گا? ليکن اگر قرآن دوسرے کي ملکيت ہے اور دھونے سے ختم ہوجائے گا يا خراب ہوجائے گا تو جس نے اس کو نجس کيا ہے اس کو چاہئے کہ مالک کے خسارہ کو ادا کرے.
مسئلہ 703: نماز شب بہت ہی اہم نوافل میں سے ہے روایات اسلامی اور قرآن میں اس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔روح کی صفائی، قلب کی طہارت، انسانی نفوس کی تربیت اور حل مشکلات کے لئے بہت ہی زیادہ موثر ہے ۔ دعا کی مشہور کتابوں میں اس کے آداب ذکر کئے گئے ہیں خصوصا نافلہ وتر کی قنوت کے لئے۔ ان آداب کی رعایت اچھی بات ہے لیکن ان آداب کے بغیر بھی معمولی نمازوں کی طرح نماز شب کو پڑھا جا سکتا ہے ۔ اگر کوئی کسی مجبوری کی بناء پررات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکتا تو سونے سے پہلے پڑھ لے۔
مسئلہ ?1959:اگر قرض واقعي ميں معين ہو ليکن مقروض اور قرض خواہ حوالہ کرتے وقت اس کي جنس يا مقدار سے واقف نہ ہوں تب بھي حوالہ صحيح ہے مثلا کسي کا قرض رجڑ ميں رکھا ہو اور وہ رجڑ ميں ديکھے بغير حوالہ کردے اور بعد ميں رجڑ ديکھ کر قرض خواہ کو اس کا قرض بتادے تو حوالہ صحيح ہے بشرطيکہ قرض کے عدد معلوم ہوں.
مسئلہ ۱۴۷۶: مختلف تجارتوں اور ان کی آمدنیوں میں کسی قسم کا فرق نہیں ہے (سب ہی میں خمس واجب ہے) البتہ اگر انسان کسی سے قرض لے یا جو مال میراث میں ملے اس میں خمس نہیں ہے۔ ہاں اگر معلوم ہو کہ میت نے خمس ادا نہیں کیاہے یا دیگر اموال کی وجہ سے خمس کا مقروض ہے تب میراث میں خمس ہوگا اورا گر ميراث کے مال کي قيمت بڑھ جائے اور خمس کي تاريخ آجائے جتنا قيمت ميں ميں اضافه هو هے اس پر خمس هے۔
مسئلہ 1938: قرض دينا بہت ہي مستحب کام ہے قران مجيد اور احاديث ائمہ معصومين ميں اس کي بہت تاکيد ائي ہے حضرت رسول اکرم سے روايت ہے جو شخص اپنے برادر مومن کو قرض دے گا اس کا مال زيادہ ہوگا ملائکہ اس پر رحمت کي دعاکريں گے اگر اپنے قرض دار سے نرمي کا برتاو کرے تو بغير حساب اور بڑي جلدي سے پل صراط سے گزرجائے گا اور جس مسلمان سے اس کا مسلمان بھائي قرض مانگے اور وہ نہ دے تو جنت اس پر حرام ہے ايک حديث ميں ہے کہ صدقہ کا ثواب دس گناہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گناہے.
مسئلہ 1973:اگر مقروض قرض کو وعدے کے مطابق قرض خواہ کے مطالبہ کے يا وجود ادا نہ کرے تو قرض خواہ گروي مال کو بيچ کر اس سے اپنا قرض لے کرباقي رقم مقروض کے حوالہ کرسکتا ہے اور اگر حاکم شرع تک رسائي ممکن ہو تو احتياط يہ ہے کہ اس کام کے لئے حاکم شرع سے اجازت حاصل کرلے.
مسئلہ 1990:اگر کوئي شخص قرض خواہ کے ہاتھ سے زبردستي قرض دار کو چھڑاڈے اور قرض خواہ، قرض دار پر دست رس نہ رکھتا ہو تو چھڑوانے والے پر واجب ہے کہ قرض دار کو قرض خواہ کے حوالے کرے يا اس کا قرض ادا کرے اگر ايک ادمي يا کئي ادمي مل کر قاتل کو صاحبان خون سے چھڑا کر بھگاديں تو حاکم شرع اس ايک ادمي کو يا ان کئي ادميوں کو اس وقت تک قيد کرسکتا ہے جب تک وہ لوگ اپنے ذرايع سے قاتل کو حوالہ نہ کرديں اور اگر قاتل کو تحويل ميں دينانا ممکن ہوجائے تو يہ لوگ مقتول کو ديتت دس.
مسئلہ 1938: قرض دينا بہت ہي مستحب کام ہے قران مجيد اور احاديث ائمہ معصومين ميں اس کي بہت تاکيد ائي ہے حضرت رسول اکرم سے روايت ہے جو شخص اپنے برادر مومن کو قرض دے گا اس کا مال زيادہ ہوگا ملائکہ اس پر رحمت کي دعاکريں گے اگر اپنے قرض دار سے نرمي کا برتاو کرے تو بغير حساب اور بڑي جلدي سے پل صراط سے گزرجائے گا اور جس مسلمان سے اس کا مسلمان بھائي قرض مانگے اور وہ نہ دے تو جنت اس پر حرام ہے ايک حديث ميں ہے کہ صدقہ کا ثواب دس گناہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گناہے.
مسئلہ :1960:قرض خواہ اگر چاہے تو حوالہ کو قبول نہ کرے خواہ وہ شخص مادار ہو يا فقير جس کے حوالہ کياجارہاہے اور خواہ وہ خوش حساب ہو يا بد حساب.
مسئلہ 1947:اگر ادائيگي قرض کا وقت اجائے اور قرض لي ہوئي چيز بعينہ موجود ہو اور قرض دينے والا اسي کو مانگ رہا ہو جب بھي ضروري نہيں ہے کہ اسي کو ديدے اگر چہ احتياط مستحب يہي ہے کہ وہي ديدے.
مسئلہ ۱۴۷۷: جس کو کوئی چیز بخشی گئی ہو اور اس بخشی گئی چیز سے سال بھر کا خرچ نکالنے کے بعد کچھ بچ جائے تو احتیاط واجب ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔ اسی طرح اگر کسی ایسی میت کی میراث ملے جس سے دور کی رشتہ داری ہو اور اس کو اس رشتہ داری کی اطلاع نہ ہو اور نہ اس سے اس قسم کی میراث کی توقع نہ رہی ہو تویہاں بھی احتیاط واجب ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔