ملکيت کو بيچنے کي صورت ميں کرايہ باطل نہيں ہوتا
مسئلہ 1881:اجارہ کي مدت ختم ہونے سے پہلے اگر کرايہ پر دي ہوئي چيز کو کرايہ دار کے ہاتھ بيچ دے تب بھي کرايہ اپني جگہ پہ باقي رہے گا.
مسئلہ 1881:اجارہ کي مدت ختم ہونے سے پہلے اگر کرايہ پر دي ہوئي چيز کو کرايہ دار کے ہاتھ بيچ دے تب بھي کرايہ اپني جگہ پہ باقي رہے گا.
مسئلہ 1882: کرايہ داري کي مدت شروع ہونے سے پہلے اگر چيز اس طرح خراب ہوجائے کہ اس سے استفادہ ممکن نہ ہو يا وہ استفادہ ممکن نہ ہو يا وہ استفادہ ممکن نہ ہو جو قرارداد ميں بيان کياگيا ہو تو اجارہ باطل ہوجاتاہے اور کرايہ دار نے جو رقم مالک کودي ہے واپس لے سکتاہے ليکن اگر اتني مدت گزرجانے کے بعد کہ جس ميں استفادہ کرسکتا تھا وہ خراب ہوجائے تو باقيماندہ مدت کا اجارہ باطل ہوجائے گا.
مسئلہ 1883:اگر کسي ايسے گھر کو کرايہ پرديں جس ميں مثلا دو کمرے ہوں اور ايک کمرہ خراب ہوجائے تو اگر مالک اس کو فورا بنوادے جس سے استفادہ کي کوئي مقدار ضايع نہ ہو تب تو اجارہ باطل نہيں ہوتا اور کرايہ دار بھي معاملہ کو ختم کرنے کا حق نہيں رکھتا ليکن اگر بنانے ميں اتني دير ہوجائے کہ استفادہ کي ايک مقدار برباد ہوجائے تو اس خراب شدہ کمرے کي نسبت کرايہ باطل ہوجاتاہے اور دوسرے ميں بھي اس کو معاملہ ختم کرنے کا حق ہے.
مسئلہ 1884:مالک يا کرايہ دار کے مرنے سي اجارہ باطل نہيں ہوتا بلکہ وہ حق کرايہ کي مدت تک ورثہ کو حاصل ہوجاتا ہے ليکن اگرشرط ہو کہ صرف کرايہ داري اسے استفادہ کرسکتا ہے دوسرا نہيں تو مالک کو حق ہے کہ کرايہ دار کے مرنے کے بعد باقيماندہ مدت کو ختم کردے.
مسئلہ 1885:اگر مالک کسي مستري کو وکيل کرے کہ تم ميري طرف سے مزدوروں کو لے او تو اگر متري مزدور کو جو مزدوري ديتا ہے اس سے زيادہ مالک سے لے تو حرام ہے ليکن اگر مالک قبول کرلے کہ اتني رقم ميں اس کو بناو تو اگر اس سے کم ميں بنائے تو باقيماندہ رقم ميں اشکال نہيں ہے ليکن احتياط تو يہ ہے کہ متري نے خود بھي کام کيا ہوچاہے تعمير کا کام ہو يا نگراني کا يا ميٹريل کا انتظام کياہو.
مسئلہ 1886:اگر رنگ ريز يہ قرار داد کرے کہ کپڑے کو فلاں رنگ سے رنگوں گا ليکن دوسرے رنگ ميں رنگ دے تو مزدوري کا حق نہيں رکھتا بلکہ اگر کپڑے کي خرابي با قيمت ميں گراوٹ کا سبب ہو تو ضامن بھي ہے يہي حکم ورزي، اوہار، جوتي بنانے والےاور اس طرح کے کام کرنے والوں پر لاگوہے.
مسئلہ 1887: مزارعت کا مطلب ہے کہ زمين کا مالک اپني زمين کسان کے حوالہ زراعت کے لئے کردے کہ وہ زمين کے حاصل کا ايک معين حصہ مالک کودے مزارعہ لفظي صيغہ سے بھي ممکن ہے مثلا مالک کہے ميں اس زمين کو دو سال کے لئے تم کو ديتاہوں کہ اس کي پيدا وارسے1/3 حصہ تم مجھ کو ديا کرو اور کسان کہے ميں نے قبول کيا اور بغير صيغہ کے بھي ممکن ہے مثلا کھيت کسان کے تحويل ميں ديدے اور کسان اسے اپني تحويل ميں لے لے (مگر مدت و حصہ و غيرہ جو ضروري چيزيں ہيں ان کے بارے ميں پہلے سے گفتگو مکمل ہوچکي ہو).
مسئلہ 1888:مزارعہ ميں چند شرطيں ہيں:1 مالک و کسان دونوں بالغ و عاقل ہوں اور اپنے قصد و اختيار سے مزارعہ کو انجام ديں اور حاکم شرع (قاضي) نے ان کو اپنے اموال ميں تصرف سے نہ روکا ہو اور لاابالي بھي نہ ہو2 زمين کي پوري پيدا وار کسي ايک کے سپرد نہ کي جائے3 ہر ايک کا حصہ بطور مشاع ہو مثلا نصف، ثلث و غيرہ لہذا اگر يہ شرط کرے کہ پيدا وار کي ايک قسم ايک کے لئے اور دوسري قسم دوسرے کے لئے مخصوص ہوگي يا شرط کرے کہ زمين کے فلاں حصہ کي پيدا وار ايک کے لئے اور فلاں حصہ کي پيدا وار دوسرے کي لئي ہوگي تو صحيح نہيں ہے? اسي طرح اگر مالک کہے کہ تم اس ميں زراعت کرو اور جوجي ميں ائے مجھے ديد و تب بھي باطل ہے.4 جتني مدت کي لئے زمين کسان کوديں دہ معين ہوار وہ مدت کم سے کم اتني ہو کہ اس ميں پيدا وار کا حاصل ہونا ممکن ہو.5 زمين قابل زراعت ہو ليکن اگر في الحال زمين قابل کاشت تو نہيں ہے، مگر اس ميں کچھ کام کرکے اس کو قابل کاشت بنا يا جاسکتا ہو تب بھي مزارعت صحيح ہے.6 زراعت کي تقسيم بھي معين ہو البتہ اگر کاشت ايسي ہو کہ ان کي نظروں ميں اور عام لوگوں کي نظروں ميں بھے فرق نہ رکھتي ہو يا مثلا معلوم ہو کہ اس زمين پر کس چيز کي کاشت مناسب ہے تو تعين ضروري نہيں ہے.7 زمين بھي معين ہو بنابرايں اگر کسي کے پاس کئي زمينں ہوں اور وہ کہے ان ميں سے کسي ايک زمين کو مزارعہ پر ديا اور زمينوں ميں مرغوبيت کے لحاظ سے فرق ہو تو مزارعہ باطل ہے ليکن اگر ساري زمينيں ايک جيسي ہيں اور وہ کہے کہ اس زمين کے پانچ بيگھہ تمہارے حوالہ کرتاہوں تو صحيح ہے اور يہ بھي ممکن ہے کہ کسان نے زمين کو نہ ديکھاہو صرف اس کے اوصاف ہي بيان کئے گئے ہوں.8 زراعت کے اخراجات اور بيج و غيرہ کو معين کريں کہ کس کے ذمہ ہوگا البتہ اگر وہاں کے لوگوں ميں رواج ہو کہ کو نسا خرچ کس کے ذمہ ہوگاتو کافي ہے.
مسئلہ 1890:مدت مزارعہ تمام ہونے کے بعد اگر کوئي حاصل ہاتھ نہ لگے او يہ کسان کي کوتاہي کي وجہ سے ہو تو مالک کسان کو مجبور کرسکتاہے کہ اپني کھيتي کاٹ ليجائے ليکن اگر يہ بات سال کے پيچھے ہوجانے کي وجہ سے ہو جيسا کہ عام طور پر ہوتاہے تو مالک کو صبر کرنا چاہيے او ر اگر ان ميں سے کوئي وجہ نہ ہو اور کھيتي کا کاٹنا کسان کے لئے باعث نقصان ہو اور مالک کو کوئي نقصان نہ ہو تب بھي مالک کو صبر کرنا چاہئے ليکن اگر مالک کو نقصان ہو تو کسان کو کاٹنے پرمجبور کرسکتاہے.
مسئلہ 1891: اگر کسي حادثہ کي بناپر زمين ميں زراعت ممکن نہ ہوسکے، مثلا پاني کا سلسلہ قطع ہوجائے تو اگر کچھ بھي اس سے حاصل ہو يہاں تک کہ چارہ بھي اگر ہاتھ لگ سکے جو جانوروں کے کام ائے تو قرارداد کے مطابق دہ دونوں کا ہوگا اور باقي ميں مزارعہ باطل ہے.
مسئلہ 1892:اگر کسان کاشت نہ کرے اور زمين اس کے قبضے ميں رہي تو معمول کے مطابق اس زمين کا کرايہ مالک کو ادا کرے اور اگر زمين ميں کوئي نقص پيدا ہوجائے تو اس کا بھي ضامن ہے.
مسئلہ 1893: مالک و کسان ايک دوسرے کي مرضي کے بغير مزارعہ کو ختم نہيں کرسکتے البتہ اگر قرارداد کے وقت دونوں کو يا کسي ايک کو معاملہ توڑنے کا حق دياگياہو تو قرارداد کے مطابق عمل کرسکتے ہيں.