کسي کے مرجانے،ديوانہ، يا لا ابالي ہوجانے کي وجہ سے شريک تصرف نہيں کر سکتا
مسئلہ 1837:اگر کوئي شريک مرجانے يا ديوانہ ہوجائے يا لا ابالي ہوجائے تو دوسرے شريک شرکت کے مال ميں تصرف نہيں کرسکتے البتہ وقتي بے ہوشي سے کوئي فرق نہيں پڑتا.
مسئلہ 1837:اگر کوئي شريک مرجانے يا ديوانہ ہوجائے يا لا ابالي ہوجائے تو دوسرے شريک شرکت کے مال ميں تصرف نہيں کرسکتے البتہ وقتي بے ہوشي سے کوئي فرق نہيں پڑتا.
مسئلہ 1838:شريک اگر کسي چيز کو اپنے لئے خريدے تو نفع و نقصان کا وہ خود ذمہ دار ہے اور اگر قرارداد کے مطابق شرکت کے قصد سے خريدے تو دونوں کا مال ہے.
مسئلہ1839:شرکت کے سرمائے سے معاملہ کرنے کے بعد معلوم ہو کہ شرکت ہي باطل تھي تو اگر تمام شرکار نے اس معاملہ کي اجازت دي ہو تو صحيح ہے اور امدني ميں سب ہي شريک ہيں اور اس در ميان ميں جن لوگوں نے شرکت کے لئے کوئي کام کيا ہو تو معمول کے مطابق اپني مزدوري لے سکتے ہيں.
مسئلہ 1840:صلح کا مطلب يہ ہے: انسان کسي ايسے معاملے ميں جس ميں اختلاف ہو يا اس ميں نزاع و اختلاف کا امکان ہو دوسرے سے اس طريقہ سے اتفاق کرے کہ اپنے مال يا منفعت کا کچھ حصہ دوسرے کو ديدے يا اپنا حق دوسرے کو ديدے يا اپنا مطالبہ يا حق چھوڑدے اور دوسرا بھي اس کے مقابلہ ميں اپنے مال يا منفعت کا کچھ حصہ اس کو ديدے يا اپنا مطالبہ با حق چھوڑدے اس کو(صلح معوض) کہتے ہيں اور اگر يہ اجازت کسي عوض کے بغير ہو تو صلح (غير معوض) کہتے ہيں.
مسئلہ 1841: صلح کرنے والے کو بالغ، عامل ہونا چاہئے مجبور نہ ہو، لا ابالي نہ ہو حاکم شرع (قاضي) نے اس کو اپنے اموال ميں تصرف سے دوکانہ ہو? اور واقعي صلح کا قصد رکھتاہو.
مسئلہ 1842: صلح کرنے والے کو بالغ، عامل ہونا چاہئے مجبور نہ ہو، لا ابالي نہ ہو حاکم شرع (قاضي) نے اس کو اپنے اموال ميں تصرف سے دوکانہ ہو اور واقعي صلح کا قصد رکھتاہو.
مسئلہ 1843: جو شخص اپنے مطالبہ ميں کسي چيز کے بدلے ميں يا بغير بدلے کے صلح کرانا چاہے تو وہ اس وقت صحيح ہے جب دوسرا قبول کرے ليکن اپنا مطالبہ يا حق چھوڑنا چاہے تو دوسرے کي رضامندي ضروري نہيں ہے اور يہ بھي صلح کے قسم ہے.
مسئلہ 1844: جو شخص اپنے مطالبہ ميں کسي چيز کے بدلے ميں يا بغير بدلے کے صلح کرانا چاہے تو وہ اس وقت صحيح ہے جب دوسرا قبول کرے ليکن اپنا مطالبہ يا حق چھوڑنا چاہے تو دوسرے کي رضامندي ضروري نہيں ہے اور يہ بھي صلح کے قسم ہے.
مسئلہ 1844:انسان اگر اپنے قرضے کو جانتے ہوئے لا علمي کا اظہار کرے اور قرض خواہ کو معلوم نہ ہو اور وہ اپنے مطالبہ قرض کو اس مقدار سے کم پر صلح کرے تو صحيح نہيں ہے مقروض صلح کئے ہوئي مقدار سے زيادہ کا مقروض رہے گا البتہ قر ض خواہ اپنے قرضہ کي مقدار کو جانتے ہوئے بھي کم پر صلح تو صحيح ہے.
مسئلہ 1845:اگر دو ايسي چيزوں کي اصل ايک ہے اور دونوں کا وزن بھي معلوم ہو ان پر ايکدوسرے سے صلح کرنا چاہيں تو يہ صلح اسي وقت صحيح ہوگي جب سود نہ لازم اتاہو يعني ايک کا وزن دوسرے سے زيادہ نہ ہو اور اگر وزن معلوم نہ ہو بلکہ کم و زيادتي کا احتمال ہو تو صلح کرنے ميں اشکال ہے.
مسئلہ1846:جس کا کسي پر قرض ہو اور ادائيگي قرض کا وقت نہ اياہواور قرض دينے والا اپنے قرضوں کي کچھ مقدار کم کرکے صلح کرے اور باقي قرض کو نقدا وصول کرے تو درست ہے مثلا دس ہزار قرض دے رکھاتھا کہ چھ ماہ کے بعد واپس لوٹانا، اب وقت سے پہلے ايک ہزار روپے سے صرف نظر کرکے قرضدار کي مرضي سے نوہزار نقد لينے پر راضي ہو تو جائزہے.
مسئلہ 1847: صلح کي قرارداد کو دونوں کي رضايت سے ختم کياجاسکتا ہے اس طرح اگر قرارداد کے ضمن ميں کسي ايک کويا دونوں کو معاملہ ختم کرنے کا حق دياگيا ہو تو وہ شخص صلح ختم کرسکتا ہے.