قصاص کے لئے قتل کے قصد کا ثابت کرنا
کیا جرم سے پہلے قتل کے قصد کا ثابت ہونا حکم قصاص کی مشروعیت کی شرط ہے؟
جواب : جی ہاں، قتل کے قصد کا ثابت ہونا شرط ہے؛ ہر چند کہ قرائن اور شواہد کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔
جواب : جی ہاں، قتل کے قصد کا ثابت ہونا شرط ہے؛ ہر چند کہ قرائن اور شواہد کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔
جواب : اس حکم میں باپ اور ماں کے درمیان فرق کی عمدہ دلیل وہ بہت ساری روایات ہیں جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ان میں بہت سی روایات میں کلمہ”رجل“ یا ”اب“ ہے جالب نظر، یہ ہے کہ کلمہ”رجل“ یا ”اب“ راوی کے سوال میں ہی نہیں ہے تاکہ کہہ سکیں کہ راوی نے اپنے محل ابتلاء کے متعلق سوال کیا تھا، بلکہ یہ امام (ع)کے کلام میں بھی موجود ہے، جو اس فرق پر بہترین دلیل ہے اور یقینا ”رجل“ یا ”اب“ کو مفہوم اعم پر حمل کرنا بہ حسب متفاہم عرب ممکن نہیں ہے اور ”والد“ کا ظہور بھی یہی معنی رکھتا ہے، مفہوم اعم پر حمل کرنا بہت مشکل نیز فقہی موازین سے بھی سازگاری نہیں رکھتا، اس کے علاوہ یہ مسئلہ تقریباً اجماعی ہے ان تمام روایات اور اقوال کے باوجود اس کی مخالفت کرنا ذوقِ فقہی سے سازگاری نہیں رکھتااور یہاں پر قاعدہٴ ”درء“ سے متمسک ہونا بہت زیادہ مشکل ہے؛ اس لئے کہ قانون قصاص کی عمومیت، متعدد آیات وروایات سے استفادہ ہوتی ہے اور اس حکم سے استثنا کرنے لئے ایک محکم دلیل درکار ہے کہ جو یہاں پر موجود نہیں ہے، ضمناً اس فرق کا فلسفہ نسبتاً روشن ہے جو اہل تحقیق قارئین کے اوپر پوشیدہ نہیں ہے، بہتر تھا کہ اس امتیاز کو باپ سے چھین نے کی کوئی فکر کرتے نہ یہ کہ اس امتیاز کو ماں کو بخشنے کی فکر میں لگے ہیں۔
جی ہاں، زمانے کے معمولی آلہٴ قتّالہ کے ذریعہ کہ جو خاص شکنجہ کا موجب نہ ہو، قصاص کرسکتے ہیں۔
مسئلہ شبہہ کے مورد میں سے ہے ، قاعدہ درء کو شامل ہوتا ہے۔
چنانچہ مقتول کے ولی ووارث، مجبور کرنے والے اور پکڑنے وتھامنے والے کی خطا سے درگذر کریں، تو ان کے متعلق، ان سے مربوط سزا کا حکم جاری کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، اس کا حکم بھی قصاص کے مثل ہے نیز مجبور کرنے اور پکڑنے والے یعنی دونوں کی سزا قید ہے، آنکھیں پھوڑنے کی سزا فقط دیکھنے والے (نگران) کی ہے اور وہ بھی خاص صورت میں ۔
جو شخص بھی کسی موٴمن کو عمداً قتل کردے، اس کا حکم قصاص ہے اور اگر وہ کسی خطا کا مرتکب ہوگیا ہو تو اس کے بارے میں حاکم شرع کے ذریعہ، حکم الٰہی جاری ہونا چاہیے ۔
جی ہاں ، حق الناس ہے اور ولی دم کے اختیار میں ہے۔
اس مسئلہ کی چند صورتیں ہیں:الف) اگر زخم کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی کا لحاظ کرنا، کمزور ہونے کی وجہ سے اس مجرم کے لئے یقینی خطرہ یہاں تک کہ جان کا خوف ہو، تب یقیناً قصاص کا حکم دیت میں بدل جائے گا اس لئے کہ قصاص کی دلیلوں کا اطلاق اس صورت کو شامل نہیں ہیں یا دوسرے الفاظ میں، لوگوں کی نظر میں دونوں میں مماثلث اور مشابہت نہیں پائی جاتی اور اس کے علاوہ وہ دلیلیں جو کہتی ہیں جائفہ(۱)، منقلہ(۲) اور مامومہ(۳)،میں قصاص نہیں ہے کیونکہ خطرے کا باعث ہے، وہ بھی مفروض مسئلہ کو شامل ہیں یعنی ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس صورت میں قصاص نہیں ہے ۔ب) اگر دوسرے فریق کے لئے خطرہ نہ ہو لیکن دونوں کے جسموں میں اس قدر فرق ہو کہ ایک کے بدن میں ایک سینٹی میٹر کی گہرائی، دوسرے کے بدن میں تین سینٹی میٹر گہرائی کے برابر ہو، اس صورت میں زخم کی گہرائی کا لحاظ نہیں کرنا چاہیے، اس لئے کہ عام لوگوں کی نظر میں دونوں کا برابر ہونا، جو قصاص کی دلیلوں کی بنیاد ہے، مذکورہ صورت میں حاصل نہیں ہے چونکہ مثال کے طور پر، تین سینٹی میٹر گہرا زخم، دبلے آدمی کی ہڈی تک پہنچ جائے گا جبکہ اُسے ایک فربہ اور موٹے شخص کے لئے ایک معمولی زخم سمجھا جائے گا، لہٰذا اس بناپر قصاص کی دلیلوں میں بیان شدہ، مساوات کو شامل نہیں ہے اور وہ مخصوص روایات جو زخم کی گہرائی میں مساوات اور برابر ہونے پر دلالت کرتی ہیں، وہ بھی موجود نہیں ہیں، دوسرے یہ کہ سجاج(۴)--- یا مطلقہ زخم کے بارے میں آنے والی روایات کے مطابق، زخم کی گہرائی کا معیار، (جائفہ، دامیہ(۵)، باضعہ(۶)، سمحاق(۷) ناموں میں سے کسی ایک نام کا صادق آنا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دبلے اور موٹے شخص پر، زخم کی گہرائی کے لحاظ سے مذکورہ ناموں کا صادق آنا برابر نہیں ہے ۔ج) یہ مسئلہ زخم کی لمبائی اور چوڑائی کے لحاظ سے بھی قابل غور ہے ، بالفرض اگر کسی کے بازو چھوٹے ہیں یا ان کی لمبائی اور چوڑائی بہت ہی کم ہے، اس کے برخلاف دوسرے فریق کے بازو کی لمبائی اور چوڑائی اس کے بازووٴں سے کئی گُنا زیادہ ہے، اب اگر موٹے آدمی کے بازو پر زخم آجائے جو اس کے آدھے بازو کو شامل ہو، یعنی آدھا بازو زخمی ہوجائے جبکہ لمبائی کے لحاظ سے یہ زخم دوسرے فریق (مجرم) کے کامل بازو کے برابر ہو، اس صورت میں بھی ، لمبائی اور چوڑائی کے لحاظ سے دونوں کے زخموں کےبرابر ہونے پر کوئی قانع کرنے والی دلیل نہیں ہے، بلکہ قصاص کے مفہوم کا تقاضا اور سورہٴ بقرہ کی آیہٴ کریمہ میں، مثل کا اطلاق، دونوں نسبی ہیں (جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے یعنی آیت میں لمبائی اور چوڑائی میںبرابری کو بیان نہیں کیا گیا ہے کہ جو کبھی کبھی ایک شخص کے کامل بازو کو شامل ہو جاتی ہے)۱۔ بدن کا گہرا زخم جس پر قصاص نہیں فقط دیت ہے-۲۔ ہڈی کا ٹوٹ کر اپنی جگہ سے ہٹ جان-۳۔ وہ زخم جو ہڈی سے گذر کر مغز تک پہنچ جائے-۴۔ سور صورت کا زخم جس قصاص کیا جاسگتا ہے-۵۔ معمولی زخم جو گوشت تک پہنچ جائے اور خون جاری ہوجائے-۶۔ دامیہ سے کچھ زیادہ گہرا زخم-۷۔ وہ زخم جو ہڈی کی جھلّی تک پہنچ جائے-قسّامہ (قسم اور قسم کھانے والوں کی تعداد نیز مخصوص طریقہ سے قسم کھانے کے ذریعہ، قتل کے دعوے کو ثابت کرنا)
چنانچہ رضاعی ماں کو قصاص کرنا بچے کی زندگی کو خطرے میں ڈالڈے یا قابل ملاحظہ ضرر کا سبب ہو تو ماں والا ہی حکم جاری ہوگا۔ اوپر والے جواب سے معلوم ہے۔اس مسئلہ میں حاکم شرع کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
وہ اپنے حال حیات میں جانی کو معاف کرسکتا ہے اور اپنے مال کے ایک ثلث (۳/۱)دیت میں وصیت کرسکتا ہے لیکن دوسری وصیتیں (اگر ورثہ کے درمیان صغیر نہ ہو) احتیاط یہ ہے کہ وارثین ان پر عمل کریں۔