ایسی بات کہنا جس کے جھوٹ کا احتمال ہو
چھوٹ گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اگر انسان کو کسی بات کے صحیح ہونے کا زیادہ احتمال ہو تو کیا وہ اسے بیان کر سکتا ہے مثلا ۵۰ فی صد سے زیادہ، خاص طور پر ان موارد میں آپ کی بات پکڑنے والے حاضر ہوں مثلا استاد شاگرد سے کوئی سوال پوچھے اور شاگرد ۵۰ فی صد سے زیادہ احتمال دے تو کیا وہ یقین سے بیان کر سکتا ہے؟
جب تک انسان کو کسی بات کا یقین نہ ہو اسے قطعیت کے ساتھ بیان نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے احتمال کے ساتھ بیان کرنا چاہیے مگر یہ کہ اس کی بات پر قرینہ موجود ہو جو اس کے احتمال پر دلالت رکھتا ہو اور امتحان میں جس جواب کے صحیح ہونے کا قوی احتمال دے اسے لکھ سکتا ہے۔
خیالی داستانیں
بہت سے قصے اور کہانیاں بنائی جاتی ہیں جو جھوٹی ہوتی ہیں اور حقیقت سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوتا (لیکن مخاطبین کی مثبت تعلیم کے لئے بنائی جاتی اور کہی جاتی ہیں )اسلام کی مقدس شریعت اور فقہ کے لحاظ سے ان کا کیا حکم ہے ؟
جواب ۔اگر انکے خیالی ہونے پر قرائن اور شواہد موجود ہوں تو کوئی ممانعت نہیں ہے
مذاق میں جھوٹ بولنا یا کسی مصلحت کی غرض سے جھوٹ بولنا
آج کے زمانے میں بہت سے لوگوں سے جھوٹ سننے کو ملتا ہے اور جس وقت انھیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کیا جاتا ہے تووہ کہدیتے ہیں: ”ہم نے تو مذاق کیا ہے!“ یا کہتے ہیں: ”کسی مصلحت سے جھوٹ بولا ہے“ برائے مہربانی آپ فرمادیں کہ مذاق میں جھوٹ بولنے کا کیا حکم ہے؟ اور مصلحت کے لئے جھوٹ بولنا کسے کہتے ہیں؟
اگر مخاطب سمجھ جائے کہ مذاق میں کہہ رہا ہے تو جھوٹ شمار نہیں ہوگا اور مصلحت کے لئے جھوٹ ، اُسے کہتے ہیں کہ سچ بولنے سے زیادہ جھوٹ بولنے میں مصلحت ہو جیسے دو حضرات کے درمیان میں صلح کرانے کے لئے جھوٹ سے کام لینا ۔
خاص موقعوں پر جھوٹی قسم کھانا
جب کسی شخص نے اپنا قرض ادا کردیا ہو یا قرضہ دینے والے نے اس کو بخش دیا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد مقروض آدمی کے خلاف رپورٹ کردے کیا اس صورت میں مذکورہ دعوے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے وہ شخص توریہ کرسکتا ہے یا قسم کھاسکتا ہے کہ اس نے بالکل قرض نہیں لیا ہے؟
سوال کے فرض میں اگر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو اور فقط یہی ایک راستہ ہو تو کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔
توریہ کا مطلب
توریہ کسے کہتے ہیں؟ برائے مہربانی مثال دے کر وضاحت فرمائیں کیا توریہ، ضرورت کے وقت سے مخصوص ہوتا ہے یا غیر ضروری مواقعہ پر بھی جائز ہے؟
توریہ، یہ ہے کہ آدمی دو پہلو بات کرے، اس بات سے اس کی مراد کوئی اور چیز ہو لیکن مخاطب کچھ اور سمجھے جیسے کوئی کسی کے دروازے پر جاکر سوال کرے کہ: فلاں صاحب گھر پر ہیں؟ اور اندر سے جواب دینے والا شخص اس کے جواب میں کہے، یہاں پر نہیں ہیں اور ”یہاں“ سے اس کی مراد ، دروازے کے پیچھے کی جگہ ہو، لیکن سننے والا شخص خیال کرے کہ فلاں شخص گھر میں نہیں ہے، نیز اس قسم کے توریہ میں، حالت ضرورت کی شرط نہیں ہے؛ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ حالت ضرورت کی مراعات کی جائے ۔
جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا
الف۔ کیا کسی مسلمان کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ب۔ آیا کافر ذمی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ج۔ ایسی جگہ پر جہان انسان کے جھوٹ بولنے سے اس کی، کسی اور کی یا چند مسلمانوں کی جان بچ سکتی ہو، اس کا کیا فریضہ ہے؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور کسی کی جان خطرہ میں پڑ جانے کی صورت میں (اس شخص کے جھوٹ کے سبب) اور اس کے تلف ہو جانے کی حالت میں دیت کس کے ذمہ ہوگی؟
جواب: الف۔ نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ واجب ہے ۔ب۔ کوئی قباحت نہیں ہے ۔ج۔ کسی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اپنی یا کسی دوسرے کی جان بچانے کی خاطر اپنی یا کسی اور کی جان خطرہ میں ڈالنا ضروری نہیں ہے اور اگر اس کی وجہ سے کسی جان خطرہ میں پڑی ہے تو وہ ضامن ہے ۔
اسلامی نظام کی مصلحت کا خاطر خبرنگار کا جھوٹ بولنا
امام خمینی رحمة الله علیہ فرماتے تھے: ”کبھی کبھی نظام کی حفاظت کے لئے بعض واجبات کو بھی ترک کیا جاسکتا ہے“ کیا یہ موضوع خبر کے سلسلے میں بھی صادق ہے؟ کیا خبر نگار بھی نظام کی حفاظت میں جھوٹ کا سہارا لے سکتا ہے؟
اگر واقعاً کوئی مسئلہ اہم اور مہم کی صورت اختیار کرلے اور جھوٹ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے مانند ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن چونکہ ممکن ہے کہ یہ حکم سوء استفادہ کا ذریعہ بن جائے اور خبرنگار کسی نہ کسی بہانے سے جھوٹی خبروں کو منتشر کریں، لہٰذا حتی الامکان اس کام سے پرہیز کیا جائے ۔