مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

توریہ کا مطلب

توریہ کسے کہتے ہیں؟ برائے مہربانی مثال دے کر وضاحت فرمائیں کیا توریہ، ضرورت کے وقت سے مخصوص ہوتا ہے یا غیر ضروری مواقعہ پر بھی جائز ہے؟

توریہ، یہ ہے کہ آدمی دو پہلو بات کرے، اس بات سے اس کی مراد کوئی اور چیز ہو لیکن مخاطب کچھ اور سمجھے جیسے کوئی کسی کے دروازے پر جاکر سوال کرے کہ: فلاں صاحب گھر پر ہیں؟ اور اندر سے جواب دینے والا شخص اس کے جواب میں کہے، یہاں پر نہیں ہیں اور ”یہاں“ سے اس کی مراد ، دروازے کے پیچھے کی جگہ ہو، لیکن سننے والا شخص خیال کرے کہ فلاں شخص گھر میں نہیں ہے، نیز اس قسم کے توریہ میں، حالت ضرورت کی شرط نہیں ہے؛ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ حالت ضرورت کی مراعات کی جائے ۔

دسته‌ها: جهوٹ بولنا

جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا

الف۔ کیا کسی مسلمان کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ب۔ آیا کافر ذمی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ج۔ ایسی جگہ پر جہان انسان کے جھوٹ بولنے سے اس کی، کسی اور کی یا چند مسلمانوں کی جان بچ سکتی ہو، اس کا کیا فریضہ ہے؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور کسی کی جان خطرہ میں پڑ جانے کی صورت میں (اس شخص کے جھوٹ کے سبب) اور اس کے تلف ہو جانے کی حالت میں دیت کس کے ذمہ ہوگی؟

جواب: الف۔ نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ واجب ہے ۔ب۔ کوئی قباحت نہیں ہے ۔ج۔ کسی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اپنی یا کسی دوسرے کی جان بچانے کی خاطر اپنی یا کسی اور کی جان خطرہ میں ڈالنا ضروری نہیں ہے اور اگر اس کی وجہ سے کسی جان خطرہ میں پڑی ہے تو وہ ضامن ہے ۔

دسته‌ها: جهوٹ بولنا

ایسی بات کہنا جس کے جھوٹ کا احتمال ہو

چھوٹ گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اگر انسان کو کسی بات کے صحیح ہونے کا زیادہ احتمال ہو تو کیا وہ اسے بیان کر سکتا ہے مثلا ۵۰ فی صد سے زیادہ، خاص طور پر ان موارد میں آپ کی بات پکڑنے والے حاضر ہوں مثلا استاد شاگرد سے کوئی سوال پوچھے اور شاگرد ۵۰ فی صد سے زیادہ احتمال دے تو کیا وہ یقین سے بیان کر سکتا ہے؟

جب تک انسان کو کسی بات کا یقین نہ ہو اسے قطعیت کے ساتھ بیان نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے احتمال کے ساتھ بیان کرنا چاہیے مگر یہ کہ اس کی بات پر قرینہ موجود ہو جو اس کے احتمال پر دلالت رکھتا ہو اور امتحان میں جس جواب کے صحیح ہونے کا قوی احتمال دے اسے لکھ سکتا ہے۔

دسته‌ها: جهوٹ بولنا

خودکشی کا قصد رکھنے والے کو اس سے روکنا

ایک شخص کسی طرح سے خودکشی کرنا چاہتا ہے، اس کے بارے میں ذیل میں دئے جا رہے سوالوں کے احکام بیان فرمائیں:الف۔ کیا اسے خودکشی سے روکنا دوسروں کے لیے واجب ہے؟ب۔ اگر اس شخص کو خود کشی سے روکنا کسی خرچ کا باعث ہو تو ہو کس کے ذمے ہوگا؟ج۔ اگر بچانے والی کی خود کی جان کسی خطرے میں پڑ جائے تو کس اس کا کس حد تک خود کو خطرہ میں ڈالنا صحیح ہے؟د۔ خود کشی کرنے والے کی جان بچانے کے مسئلہ میں، کیا مسلمان، کافر حربی و غیر حربی میں کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ھ۔ کیا اس شخص کو خود کشی سے روکنے کے لیے اس کی اجازت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟و۔ اگر خودکشی والا بچانے والی کی کوشش سے راضی نہ ہو اور بچانے میں اسے کوئی نقصان پہچ جائے تو کیا بچانے والا ضامن ہے؟

جواب: الف تا ج۔ خودکشی سے روکنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور اگر اس کے بچانے میں کم ہیسا خرچ ہو رہا ہو تو جان بچانے والے کو خرچ کرنا چاہیے لیکن اگر پیسا زیادہ خرچ ہو رہا ہو تو یا جان کا خطرہ ہو تو اس کے اوپر بچانا لازم نہیں ہے لیکن اگر بیت المال اسے ادا کر سکتا ہو تو اسے ادا کرنا چاہیے ۔د۔ کافر حربی کی جان بچانا لازم نہیں ہے جبکہ کافر ذمی کے بارے میں احتیاط یہ ہے کہ اس کی جان بچانا چاہیے ۔ھ۔ اس کی اجازت کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔و۔ اگر اسے بچانے کے راہیں محدود ہوں اور اس میں اسے ضرر پہچ جائے تو اسے بچانے کے لیے ایسا کر سکتا ہے اور ضامن بھی نہیں ہے ۔

دسته‌ها: خود کشی

خودکشی کا قصد رکھنے والے کو اس سے روکنا

ایک شخص کسی طرح سے خودکشی کرنا چاہتا ہے، اس کے بارے میں ذیل میں دئے جا رہے سوالوں کے احکام بیان فرمائیں:الف۔ کیا اسے خودکشی سے روکنا دوسروں کے لیے واجب ہے؟ب۔ اگر اس شخص کو خود کشی سے روکنا کسی خرچ کا باعث ہو تو ہو کس کے ذمے ہوگا؟ج۔ اگر بچانے والی کی خود کی جان کسی خطرے میں پڑ جائے تو کس اس کا کس حد تک خود کو خطرہ میں ڈالنا صحیح ہے؟د۔ خود کشی کرنے والے کی جان بچانے کے مسئلہ میں، کیا مسلمان، کافر حربی و غیر حربی میں کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ھ۔ کیا اس شخص کو خود کشی سے روکنے کے لیے اس کی اجازت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟و۔ اگر خودکشی والا بچانے والی کی کوشش سے راضی نہ ہو اور بچانے میں اسے کوئی نقصان پہچ جائے تو کیا بچانے والا ضامن ہے؟

جواب: الف تا ج۔ خودکشی سے روکنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور اگر اس کے بچانے میں کم ہیسا خرچ ہو رہا ہو تو جان بچانے والے کو خرچ کرنا چاہیے لیکن اگر پیسا زیادہ خرچ ہو رہا ہو تو یا جان کا خطرہ ہو تو اس کے اوپر بچانا لازم نہیں ہے لیکن اگر بیت المال اسے ادا کر سکتا ہو تو اسے ادا کرنا چاہیے ۔د۔ کافر حربی کی جان بچانا لازم نہیں ہے جبکہ کافر ذمی کے بارے میں احتیاط یہ ہے کہ اس کی جان بچانا چاہیے ۔ھ۔ اس کی اجازت کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔و۔ اگر اسے بچانے کے راہیں محدود ہوں اور اس میں اسے ضرر پہچ جائے تو اسے بچانے کے لیے ایسا کر سکتا ہے اور ضامن بھی نہیں ہے ۔

دسته‌ها: خود کشی

خود کشی سے مربوط احکام

افسوس کہ کچھ سالوں سے ہمارے شہر میں خود کشی بڑی عام ہوگئی ہے اور کچھ جوان اس بُرے کام کا اقدام کرتے رہتے ہیں لیکن اگر ایسا ہوجائے کہ اس کا شرعی پہلو اور اس کے معاشرتی نقصانات کو اس سن کے افراد کے لئے تشریح اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے تو ان میں سے بہت کچھ افراد اس عمل سے باز آجائیں گے اور اس کی طرف ان کی سوچ تک بھی نہ پہنچے گی، اس موضوع پر عنایت رکھتے ہوئے، مہربانی فرماکر نیچے دیئے گئے کچھ سوالوں کے جواب مرقوم فرمائیں:الف) قتل نفس کا شرعی حکم کیا ہے؟ب) اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انسان کا بدن خود اس کا بدن ہے نہ کسی دوسرے کا اور اس کی ذمہ داری خود اسی کی طرف پلٹتی ہے تو پھر خود کشی کیوں حرام ہے؟ج) جو افراد اپنے کو قتل کرتے ہیں ان کا عالم برزخ میں کیا حال ہوگا؟د) جو شخص خود کشی کرتا ہے، کیا خداوندعالم کی عدالت میں اس کا برا اثر اس کے والدین پر بھی پڑے گا؟ھ) ایسے اشخاص کا مومنین کے قبرستان میں دفن کرنا اور ان کے لئے سوگ کی مجالس برپا کرنا کیسا ہے ؟و) بہت سی جگہوں میں متوفی کا غمزدہ اور داغدار گھر اس بہانہ کے ساتھ کہ یہ کام عام اور طبیعی حالات میں انجام نہیں پایا ہے، اس کے لئے طبیعی موت والے سارے رسوم وآداب انجام دیتے ہیں، کیا ان کا یہ عمل صحیح ہے؟ز) وہ اشخاص جو خودکشی کرتے ہیں کیا اہل بیت علیہم السلام کی شفاعت ان کے شامل حال ہوگی؟ح) معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں کیا خداوندعالم کی بارگاہ میں خود کشی کرنے والوں کے بخشے جانے کا کوئی احتمال ہے؟

جواب: الف سے ح تک: یقیناً خودکشی گناہ کبیرہ ہے اور انسان کا اپنے نفس کا مالک ہونا خودکشی کی دلیل نہیں بن سکتا، ایسے ہی جیسے کہ انسان کا اپنے اموال کا مالک اس میں آگ لگانے کی دلیل نہیں ہوسکتا ہے البتہ ایسے اشخاص کے لئے تمام رسومات دیگر عام مسلمانوں کی طرح انجام دیئے جائیں اور ان کی نجات کی دعا کی جائے شاید عفو الٰہی ان کے شامل حال ہوجائے ۔

دسته‌ها: خود کشی

گداگری کا شرعی حکم

جیسا کہ حضور کو معلوم ہے کہ تعزیرات اسلامی کی دفعہ ۶۱۲ اور ۶۱۳ میں گدائی کو جرم شمار کیا گیا ہے اور اس کے لئے قید کی سزا کو معیّن ہے، لہٰذا جزائی صفت اور شرعی حرمت کے بارے میں اپنی شریف نظر بیان فرمائیں، اور یہ بھی فرمائیں کہ حکومت اسلامی میں اس کی روک تھام اور دیکھ بھال کی ذمہ داری کس قانونی ادارہ کے ذمہ ہے؟

جس کو ضرورت نہیں ہے اس کے لئے حرام ہے کہ گدائی کرے، یہاں تک کہ ضرورت کی صورت میں حکومت اسلامی کو چاہیے کہ ایسے پروگرام ترتیب دے جس سے وہ لوگ آبرومندانہ زندگی گذار سکیں، اور اس حکم کے جاری کی ذمہ دار انتظامیہ اور عدلیہ ہیں اور وہ دوسرے ادارے جو حکومت کی طرف سے معین ہوتے ہیں ۔

دسته‌ها: بهیک مانگنا
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی