مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

معاملہ کے حق فسخ کی شرط

معمولہ قول ناموں میں یعنی سرکاری اور قانونی معاملہ سے پہلے معاملہ کرنے والے دونوں حضرات کے درمیان رائج ہے کہ کچھ مبلغ رقم کو معاملہ کو فسخ کرنے کے حق کی بابت شرط کی جائے الف: کیا اسلام کی مقدس شریعت کے لحاظ سے یہ شرط صحیح ہے ؟ب: دونوں میں سے جو بھیمعاملہ کو توڑے گا دوسرا شخص فسخ کرنے کے حق کی بابت جو رقم رکھی گئی تھی اسا رقم کو فسخ کرنے والے سے لے سکتا ہے ؟ج: کیا اس رقم کے قولنامے شرعی اور یقینی معاملات کا درجہ رکھتے ہیں اور شریعت کے لحاظ سے یہ سب کچھ صحیح ہے اور معاملہ کرنے والے دونوں پر اس کی مراعات کرنا ضروری ہے ؟

جواب ۔الف: جب معاملہ قطعی و یقینی ہو گیا ہو اور یہ شرط طے پائی ہو کہ دونوں کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ فلاں مقدار میں رقم ادا کریں یہ شرط صحیح ہے لیکن اگر قطعی طور پر معاملہ یعنی خرید و فروخت نہیں ہو ئی ہے تو مذکورہ رقم کو لینا جائز نہیں ہے جواب ۔ب: مندرجہ بالا جواب سے معلوم ہو گیا جواب۔ج: قولنامے مختلف ہیں بعض میں صراحت ہوتی ہے کہ خریداری قطعی طور پر انجام پا چکی ہے اور بعض قل نامے ایسے نہیں ہیں ہر قولنامے کا اپنا مخسوص حکم ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہو گیا ہے

حق خیار کے بغیر معاملہ کا فسخ ہو نا

کوئی شخص ایک قرآن دوسرے شخص کو فروخت کر دیتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قرآن خطی نسخہ تھا اور مجھے نقصان ہوا ہے کیا خریدار پر قرآن واپس کرنا ضروری ہے ؟

جواب۔ اگر اختیارات جیسے غبن کی صورت میں اختیار ہونا یا عیب نکلنے کی صورت میں اختیار ہونا وغیرہ میں سے کوئی اختیار اس کی شامل حال تھا تو (آکر معاملہ کو )فسخ کر سکتا ہے ورنہ اس صورت کے علاوہ فسخ کرنے کا حق نہیں رکھتا

فضول معاملہ میں اصلی مالک کا رجوع کرنا

فضولی (جو نہ خود مالک ہے اور نہ مالک سے اجازت لی ہے اور پھر بھی اس کی چیز کو بیچ دے اور دوسرا شخص خرید لے )طور پر معاملہ کرنے میں اصلی مالک خریدار اور بیچنے والے ان دونوں میں سے کس طرف رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے ؟

جواب ۔مالک اس جیسی چیز یا اس کی قیمت خریدار سے لے سکتا ہے اور اگر خریدار اس کی دسترس میں نہ ہو تو بیچنے والے سے لے سکتا ہے پہلی صورت میں خریدار نے جو رقم اصلی مالک کو دی ہے وہ اس رقم کو بیچنے والے سے واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ قیمت جو مالک کو دی ہے اس قیمت سے زیادہ ہو جو بیچنے والے کو دی تھی تو اجافی رقم کو بھی بیچنے والے سے لے سکتا ہے مگر یہ کہ اس نے جان بوجھ کر یہ معاملہ کیا ہو اگر ایسا ہو تو اس صورت میں اضافی رقم کو واپس نہیں لے سکتا -

جس چیز کا بیعنامہ یا معاملہ ہوا ہے طولانی مدت گذرنے کے بعد اس چیز کے عیب کا آشکار ہونا

ایک صحیح السند رہائشی مکان کو اپنی بیوی کے ساتھ آدھے آدھے کی مشارکت میں خریدا تھا، معاملہ کے وقت پہلی دیکھ بھال میں تو گھر کے اندر کوئی ظاہری عیب دکھائی نہیں دیا، لیکن اس کے ۲۰ سال بعد جب گھر کی عمارت خراب ہونے لگی اور رنگ و روغن بھی پھیکا پڑگیا تو ہم نے اس کی مرمّت کا ارادہ کیا، اس کام کے لئے ہم نے پہلے چونے کا پلاستر اُکھاڑ دیا جب اینٹیں نظر آنے لگیں تو پتہ چلا کہ گھر کی ایک طرف کی تقریباً ۷ میٹر کی دیوار ہی نہیں ہے! اس طرح کہ دیوار زمین سے اٹھائی گئی ہے جو زیر خانہ کی چھت تک آئی ہے، اس کے بعد ساڑھے تین میٹر اونچی دیوار نہیں ہے اور چھت کے بیم کو پڑوسی کی دیوار پر رکھا گیا ہے! جبکہ مکان کا بیچنے والا، خود اس گھر کا معمار تھا اور اس پوشیدہ نقص کو جانتا تھا لہٰذا حضور اس وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان فرمائیں کہ کیا گھر کے مالک کے لئے اس نقص وعیب سے خریدار کو مطلع کرنا ضروری ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا وہ ہمارا مقروض ہوگا؟

اگر علاقے کے ماہرین کی نظر میں یہ چیز عیب شمار ہوتی ہو، اوروہ اس کے عوض قیمت کے قائل ہوں تو خریدار حضرات اس عیب کے برابر قیمت واپس لے سکتے ہیں ۔

بولی کے ذریعہ ہونے والے معاملات میں خیار غبن

بعض لوگ ایک جائداد فروخت کردیتے ہیں اور بیعنامہ کی بنیاد پر عہد کرتے ہیں کہ مقررہ وقت میں قانونی طور پر اس جائداد کو خریدار کے نام کردیں گے اور فروخت کرنے کے وقت سے لے کر قانونی طور پر بیعنامہ کے وقت تک چند مہینوں کے فاصلہ سے میں، چند قسطوں کے ذریعہ اپنے ارادے اور اختیار سے جائداد کی کچھ قیمت وصول کرلیتے ہیں، دوسری طرف خریدار، جائداد کو قبضہ میں لے کر اس میں کچھ تبدیلی کرتا ہے، اسے ہموار اور کیاریاں وغیرہ بنالیتا ہے، لیکن قانونی بیعنامہ کا مقرر وقت آنے کے بعد بیچنے والا شخص غبن کا دعویٰ کرتا ہے اور قانونی طور پر بیعنامہ کرنے سے انکار کردیتا ہے، اگر خرید وفروخت کا یہ معاملہ، طرفین کی طرف سے بولی لگنے اور سب سے زیادہ قیمت پر بولی چھوٹنے اور ماہرفن کی طرف سے قانونی قیمت معیّن ہونے کے بعد ہوا ہو، نیز معاملہ کی قیمت بھی سب سے زیادہ لگائی گئی ہو نیز وہ قیمت قانونی طور پر لگائی گئی قیمت کے مطابق ہو کیا اس صورت میں بیچنے والے کی جانب سے غبن کے دعوے کی سنوائی ہوگی؟

اگر یہ معاملہ بولی لگنے کی صورت میں ہوا ہے اور عام لوگوں کے درمیان بولی لگنے کا مطلب، غبن پر توجہ اور غبن کا ساقط کرنا ہے، تب تو بیچنے والے کو غبن کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں ہے؛ لیکن اگربولی لگنے کے علاوہ یہ معاملہ ہوا ہے اور فروخت کرنے والا ثابت کرسکتا ہے کہ معاملہ کے وقت اس کو دھوکہ (غبن) ہوا ہے تب اس کو خیار غبن حاصل ہوگا اور اگر ثابت نہ کرسکے تو اس کا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا ۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی