مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

سامان کی اسمنگلنگ کا شرعی حکم

اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سرحدی علاقوں میں ہر طریقہ کی اسمنگلی فراوانی کے ساتھ رائج ہے اور معاشرے کو غیر تلافی نقصانات پہنچاتی آرہی ہے، میں کچھ دوستوں اور انشاء الله آپ بزرگوں کی مدد سے اسمنگلی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی غرض سے کچھ سوالات بنائے ہیں اور اُمید ہے کہ حضور ان سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں گے ۔۱۔ کلّی طور سے اسمنگلی کا اسلام کی مقدس شریعت میں کیا حکم ہے؟ چاہے وہ اسمنگلی شدہ اشیاء باواسطہ فساد آورد ہوں یا بلاواسطہ ہوں ۔۲۔ کیا اسمنگلی ملک اور لوگوں کے اوپر خیایت شمار ہوتی ہے؟ کیا اسمنگلی اور ہر وہ جو کسی بھی عنوان سے اس میں مدد کرتے ہیں منافقوں کے حکم میں ہیں؟ کیا اس سلسلے میں قرآن مجید اور احادیث معصومین علیہم السلام کا کوئی خاص بیان ہے ؟۳۔ اسمنگلر کے اموال سے کسی دوسرے شخص کے لئے استفادہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ چاہے وہ اس کو پیسوں سے خریدے یا مفت حاصل کرے؟۴۔ اگر اسمنگلری سے حاصل کئے پیسے سے خود اسمنگلر یا کوئی اور شخص جائز کاروبار کرتے تو اصل پیسہ اور اس سے کمایا گیا مال کا کیا حکم ہے؟۵۔ اگر زندگی سختی سے گذر رہی ہو تو کیا اسمنگلی کے پیشہ کو بطور شغل اختیار کیا جاسکتا ہے؟۶۔ معاشرے کے لوگوں کو اسمنگلروں کے ساتھ اور عمومی بطور پر اسمنگلی کے مسئلہ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے؟۷۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کچھ سرکاری افسروں کا اسمنگلروں سے رشوت لینا بڑا عام ہوگیا ، ایسے اشخاص کے لئے جنابعالی کیا وصیت فرماتے ہیں؟

۱۔ سے آخر تک : اشیاء کی اسمنگلی (یعنی سرحدوں سے غیر قانونی طور پر سامان کا ملک میں وارد کرنا) اسلامی شریعت کے احکام کے خلاف ہے اور اس سے شدّت کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے، خصوصاً اس وقت جب ملک ومعاشرے کے لئے ضرر کا سبب ہو، اور اسلامی ملک کے اقتصاد کو نقصان پہنچائے، اور اسمنگلی میں اسمنگلروں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے اور اس کام کے لئے رشوت لینا دُہرا گناہ کناہ ہے، اور سب پر لازم ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو نہ بھلائیں ۔

دسته‌ها: اسمنگلنگ

قرض میں مہنگائی کا حساب کرنا

آیا قیمتوں میں اضافہ (مہنگائی)کا قرض وغیرہ میں حساب کرنا سود میں شمار ہوگا؟

جواب۔ہمارے زمانہ میں قیمتوں میں اضافہ کا مسئلہ اس شدّت اور وسعت کے ساتھ جو کاغذی پیسہ (کرنسی) کی دین ہے۔ جب بھی عام لوگوں میں مرسوم اور رائج ہونے کی حیثیت سے مشہور اور معروف ہو جائے مفروضہ مسئلہ میں سود شمار نہیں ہوگا۔(جیسا کہ بعض بیرونی ممالک کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں بینک میں جمع رقم کے سلسلہ میں بھی قیمتوں میں اضافہ (مہنگائی)کا محاسبہ کرتے ہیں اور سود کا بھی حساب کرتے ہیں )۔ایسے حالات اور شرائط میں مہنگائی کا حساب کرنا سود نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ فائدہ لینا سود ہے لیکن پمارے معاشرہ میں اور اسی طرح کی دوسری جگہوں پر کہ جہاں عاملوگوں میں مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ کا حساب نہیں ہوتا لہٰذا سب کا سب سود شمار ہوگا۔ اس لئے کہ جو لوگ ایک دوسرے کو قرض دیتے ہیں چند مہینہ یا اس سے زیادہ مدّت کے گزر جانے کے بعد بھی اپنی معیّن رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور مہنگائی کے فرق کا حساب نہیں ہوتا اور رہی ےہ بات کہ علمی نشستوں میں مہنگائی کا حساب ہوتا ہے فقط ےہی کافی نہیں ہے اس لئے کہ معیار وہ ہے جو عام لوگوں میں رائج ہے لیکن ہم ایک صورت کو مستثنیٰ(الگ)کرتے ہیں اور وہ ےہ کہ مثال کے طور پر تیس سال گزرنے کے بعد بہت زیادہ فرق ہو گیا ہو۔لہٰذا خواتین کا قدیم مہر یا انکے اسی طرح کے دیگر مطالبات کے سلسلہ میں ہم احتیاط واجب جانتے ہیں کہ آج ادا کرنے کے وقت کی قیمت کا حساب کیا جائے یا کم از کم مصالحت کی جائے ۔

دسته‌ها: ربا (سود)

نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر ادھار میں فروخت کرنا

اگر کسی چیز کی قیمت معین ہے ادھار کی صورت میں کیا اس چیز کی معین قیمت سے زیادہ میں فروخت کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب۔عام طور سے جنس(چیز)کی قیمت میں نقد اور ادھار کی صورت فروخت کرنے میںفرق ہوتا ہے اس فرق میں شرعاً کوئی اشکال نہیں ہے اور رومال اور ماچس یا اسی طرح کی دوسری چیزوں کو اس کے ساتھ ملاکر بیچنا لازم نہیں ہے

دسته‌ها: بیع سلف
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی