قحط کے سال میں کھائی اور پی جانے والی اشیاء کا بالفعل یا بالقوہ ہونا
جیساکہ معلوم ہے قحط سالی میں حدّ سرقت کا حکم، ماکولات(خوردونوش کی چیزیں)کی سرقت میں منحصر ہے تو کیا چوری شدہ مال کو ماکول بالفعل ہونا چاہئے یا ماکول بالقوة (ہر وہ چیز جو کھائے اور پےئے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو )کو بھی شامل ہے؟۔
جواب: تمام معمولی ماکولات کو شامل ہے۔
بیوی کا شوہر کی چوری کرنا
اگر کوئی عورت اپنے شوہرکی اجناس یا اموال کواس کی بغیر اطلاع، بغیر رضایت اور بغیر اجازت کے خرچ کرے یا بیچے ، کیا یہ سرقت شمار ہوگی؟
جواب: سرقت تو شمار نہیں ہوتی لیکن ےہ ایک طریقہ کی خیانت اور حرام ہے اور عورت کو اس کی تلافی کرنا چاہئے ۔
باپ یا داد کا اولاد کی چوری کرنا
اگر سارق ، صاحب مال کا باپ یا اس کادادا ہو ، کیا یہ سرقت فقط حد نہیں رکھتی ہے یاکوئی اور مجازات جیسے تعذیر بھی اس پر جاری نہیں ہوگی ؟
جواب:نہ حد رکھتی اور نہ تعذیر ، مگر یہ کہ یہاں پر عناوین ثانویہ آجائیں ۔
قحط کے سال میں کھائی اور پی جانے والی اشیاء کا حد سے زیادہ مہنگا ہونا
کیا قحط کے سال میں اس حالت مےں جب کہ غذا اور کھانے پینے والی چیزیں بازارمیں موجود ہوں لیکن ان کی قیمت زیادہ ہو اور اس حالت مےں جب خورد ونوش کی اشیاء بازار میں نہ ہو ں یا کم ہوں کوئی فرق ہے؟۔
جواب:کمیابی یا حد سے زیادہ گرانی غیرمتمکن افراد کے لئے فرق نہیں کرتی ۔
قحط کا ایک سال سے کم مدت میں واقع ہونا
کیا ”عامة المجاعہ“ (بھک مری کا سال) سے مراد، قحطی کا پورا سال ہے یا فقط دوران قحطی ہے؟ واضح بیان کے ساتھ اگر پورے سال میں ملک کی اقتصادی وضعیت اچھی ہو، لیکن ایک تھوڑی مدت (مثلاایک مہینہ) کے لئے ملک کی اقتصادی حالت خراب ہوجائے اور لوگوں کی معیشتی حالت گرجائے اور عمومی ارزاق کمیاب یا نایاب ہوجائیں، کیا اس کے اوپر سال قحطی صادق آئے گا؟۔
جواب: معیار وہ ہی ایک مہینہ ہے ۔
موّقت مال کی چوری کرنا
کیا دائمی سرقت کا محقق ہونا،محروم کرنے کے قصد پر مشروط ہے؟
جواب: اگر یہ یقین ہو کہ سارق کا تملک کا کوئی قصد نہیں تھا ،بلکہ اس کا قصد یہ تھا کہ استفادہ کرکے پلٹادے گا تو سرقت کے احکام جاری نہیں ہونگے لیکن اس کو تعذیر کیا جائے گا۔
زانی کا اپنے نامشروع بیٹے یا بیٹی کی چوری کرنا
اگر زانی اپنے نامشروع فرزند کے مال کو چرائے تو اس کا حکم کیا ہے؟۔
جواب: سرقت کی حد جاری نہیں ہوگی۔
منافع اور حقوق کی چوری کرنا
الف:کیا منافع کا چراناشرعی سرقت ہے اور مجازات کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ؟مثلا کوئی کرایہ پر لی ہوئی ٹیکسی کو حرز میں رکھے اور دوسرا اس کو لے جائے اگر ٹیکسی کا مالک عدالت مےں شکایت نہ کرے کیا کراےہ پر گاڑی لینے والا شخص شکایت اور مال مسروقہ کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے؟۔ب: کیا حق کا چرانا سرقت شمار ہوگا اور اموال کی چوری کی طرح یہ بھی مجازات کے قابل ہے؟ مثلا”الف“ ”ب“ سے ایک موبائل فون کرایہ پرلے تاکہ اس سے ایک مہینہ استفادہ کرے اور اس کا دس ہزار تومان کرایہ دے،”ج“اس فائدہ کو ”الف“ سے غصب کرلے یعنی موبائل فون کی چوری کا تو قصد نہیں رکھتا تھا لیکن چاہتا تھا کہ ایک مہینہ تک اس کو استعمال کرے پھر اس کے مالک کو پلٹا دے ،کیا”ج“ کا ےہ عمل،موبائیل کو کرایہ پر لینے والے کے حق کی سرقت شمار ہوگی اور اس کی کوئی سزا بھی ہے ؟
جواب :الف و ب۔ منافع اور حق کی سرقت کو اموال کی سرقت کے احکام شامل نہیں ہوتے، لیکن ےہ عمل قابل تعذیر ہے۔
چور کے مال کی چوری کرنا
کیا چوری ہوئے مال کی چوری کی کوئی سزا ہے ؟ اگر ہاں توکیا ہے۔
جواب: اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ چور کئے ہوئے مال کی چوری کی کیا سزا ہے تو جواب یہ ہے کہ اس کام کی کوئی شرعی حد نہیں ہے ، لیکن ےہ کام لوگوں کے اموال میں تصرف کی خاطر تعذیر رکھتا ہے۔
چور کے کٹے ہوئے ہاتھ کو جوڑ نا
چور کے ہاتھ کاٹنے کے بعد، کیا چور، اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو طبّی مدد کے ذریعہ جڑوا سکتا ہے؟
فقہ کے ”قصاص کے باب“ میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ اگر کٹے ہوئے کان کو دوبارہ اس کی پہلی جگہ جوڑدیا جائے اور وہ جُڑ بھی جائے، تو مجنی علیہ (جس کا اس نے کان کاٹا یا نقصان پہنچایا تھا) دوبارہ کاٹ سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس کے جیسا ہوجائے، اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہوئی ہے جس کی سند، معتبر ہے یا کم از کم علماء شیعہ نے اس کے مطابق عمل کیا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات سے صزف نظر کرتے ہوئے اور باب حدود میں بھی اس کو سرایت دیتے ہوئے (مذکورہ حکم) مشکل ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنے والی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا جائز نہیں ہے، خصوصاً یہ کہ علل وعیون میں امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے: ”وعلّة قطع الیمین من السارق لانّہ تباشر الاشیاء (غالباً) بیمینہ وھی افضل اعضائہ واٴنفعُھا لَہُ فجعل قطعھا نکالاً وعبرة للخلقِ لئِلّا تبتغوا اٴخذ الاموال من غیر حلّھا ولِانّہ اکثر ما یباشر السرقة بیمینہ“ اور یہ مطلب دوبارہ ہاتھ جُڑوانے سے، مناسب اور سازگار نہیں ہے، دوسری حدیث میں آیا ہے: ”عن النّبی صلی الله علیہ وآلہ: اِنّہ اٴتیٰ بسارق فَاٴَمرَ بہ فقطعت یدہ ثمّ علقت فی رقبتہ“ ۱.۱۔ جواہر، ج۴۱، ص۵۴۲؛ سنن بیہقی، ج۸، ص۲۷۵.