مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

چوری کی سزا کا نصاب

یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ چوری کی حد (سزا) کا نصاب ایک چوتھائی شرعی دینار (کی مقدار )ہے اور اِس زمانے میں دینار ودرہم کا موضوع منتفی ہے یعنی درہم ودینار موجود ہی نہیں ہیں، اس صورت میں چوری کی حد کے نصاب کو کیسے حاصل کریں اور کیسے سمجھیں؟ کیا رائج الوقت سکّہ یا غیر سکّہ سونے کو معیار بنایا جاسکتا ہے؟

اہل علم وجانکار حضرات سے معلوم کرنا چاہیے کہ اگر دینار (سونے) کا سکّہ ہوتو اس کی کیا قیمت ہوگی جو بھی قیمت ہو اس کی ایک چوتھائی قیمت، حد سرقت کا نصاب ہوگی اور آخر کار جب بھی مقدار میں شک ہو تو قدر متیقن (جو یقینی مقدار ہو اس) کا حساب کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: چوری کی حد

تحریری سزاؤں میں صنف ( مرد و عورت) کی تاثیر

یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ فطری طور پر عورت، زیادہ حساس ہوتی ہے اور جلد ہی شیطانی وسوسوں کا اثر قبول کرلیتی ہے، کیا اس کی غلطیوں کی سزا مردوں سے مختلف ہوتی ہے؟

تعزیرات (اور سزا) کے مسائل میں اپنے اعمال کے بارے میں ہر شخص کی ذمہ داری کا تعلق، اس کے مختلف عوامل سے متاٴثر ہونے کی مقدار اور جرم کی نوعیت سے ہوتا ہے ۔

دسته‌ها: تعزیرات

ہمارے فقہاء نے بہت سی حدود مثل زنا کی حد، لواط ومساحقہ کی حد کے بارے میں فرمایا ہے: ”اس صورت میں جبکہ جرم اقرار سے ثابت ہوجائے اور مجرم اقرار کرنے کے بعد توبہ کرے ، امام ( حاکم ولی امر) کو اختیار ہے کہ اس کو معاف کردے یا اس پر حد جاری کرے“ اور تعزیرات اسلامی کے قانون میں آیا ہے: ”عدالت ، ولی امر سے معافی کا تقاضا کرسکتی ہے“ ذیل میں اسی سے متعلق کچھ سوال ہوئے ہیں:۱۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ فائیل کا قاضی معمولاً غیر مجتہد ہوتا ہے اور تدوین شدہ قوانین کے مطابق حکم کرتا ہے، کیا ایسے موارد میں قاضی کو اثبات جرم اور حکم صادر کرنے سے پہلے معافی کا تقاضا کرنا چاہیے (اس لئے کہ بہت سے معتقد ہیں انشاء یعنی حکم صادر ہونے کی صورت میں ، تاخیر کی گنجائش نہیں ہے او رحد جاری ہونا چاہیے) یا پہلے حکم صادر کرے اور پھر مجرم کے تقاضے کی بنیاد اور اس کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے معافی کا تقاضا کرے؟۲۔ سوال کے فرض میں ، کیا حکم کے صادر ہونے سے پہلے یا حکم کے بعد توبہ کرنے میں کوئی فرق ہے؟ توبہ کا زمانہ کس وقت تک ہے؟ اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ بعض روایات میں آیا ہے ،سانس کے گلے تک پہنچ جانے (یعنی دم نکلتے وقت تک) توبہ قبول ہوجاتی ہے، کیا یہا ں بھی ایسا ہی ہے؟ اور یہاں تک کہ اگر حکم کے اجراء کے وقت بھی توبہ کرلے، کیا حاکم کو معافی کا اختیار ہے؟۳۔ کسی شخص کے گناہ سے پاک ہونے کے اور گناہ پر نا دم ہونے کی صورت میں اقرار اور اس اعتراف کے درمیان جو بازپرس کے ذریعہ عمل میں آیا ہے کہ وہ اقرار واعتراف کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رکھتا ہو، کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے؟ اور کیا پہلی قسم کااقرار جو ظاہراً ندامت کی رو سے تھا، توبہ کے لئے کفایت کرتا ہے، یا صراحت سے توبہ کرنا جواز عفو کی شرط ہے؟۴۔ اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ سزایافتہ مجرمکو جرم کی سزا کے علاوہ بعض طبعی سزائیں بھی دی جاتی ہیں (وہ سزائیں جو حد کا نتیجہ ہوتی ہیں) جیسے بعض عہدے اور منصب سے محرومیت منجملہ منصب قضاوت، منصب امامت جمعہ وجماعت وغیرہ ، اب اگر کسی وجہ سے سزا معاف ہوجائے تو کیا احکام اور تبعی سزائیں بھی ختم ہو جائیں گی یا وہ ارتکاب جرم سے متعلق تھیں اور ثابت رہیں گی ؟ اس سلسلہ میں متعلق تائب او ر غیر تائب کے درمیان کوئی فرق ہے؟توبہ اور ملکہ عدالت کے پلٹ آنے سے، برگشت کے قابل ہیں۔

جواب 1: انشاء حکم اور اور عدم انشاء حکم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔جواب 2: کوئی فرق نہیں ہے۔جواب 3: توبہ ہر صورت میں عفو کا مجوز ہے۔جواب 4: وہ منصب جو عدالت پر مشروط ہیں، توبہ اور ملکہ عدالت کے پلٹ آنے سے، برگشت کے قابل ہیں۔

دسته‌ها: زنا کی حد

چور کے مال کی چوری کرنا

کیا چوری ہوئے مال کی چوری کی کوئی سزا ہے ؟ اگر ہاں توکیا ہے۔

جواب: اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ چور کئے ہوئے مال کی چوری کی کیا سزا ہے تو جواب یہ ہے کہ اس کام کی کوئی شرعی حد نہیں ہے ، لیکن ےہ کام لوگوں کے اموال میں تصرف کی خاطر تعذیر رکھتا ہے۔

غیر مسلم مجرموں سے برتاؤ کا طریقہ

کیا غیر مسلم مجروموں کو اسلامی احکام کے مطابق سزا دی جائے گی یا ان کے مذہب کے مطابق؟ دوسری صورت میں (یعنی اگر ان کو ان کے مذہب کے مطابق سزا دی جائے گی) سزا دینے والا قاضی مسلمان ہوگا یا ان کا اپنا (ہم مذہب) قاضی؟

جو چیز سورہٴ مائدہ کی بیالیسویں آیہٴ شریفہ سے استفادہ ہوتی ہے اور باب حدود اور جہاد میں ہمارے مجتہدین کے فتوے بھی اس کی تائید کرتے ہیں نیز متعدد روایتیں بھی اس پر دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہیں کہ: مسلمان قاضی کے سامنے فقط دو راستے ہیں، پہلا راستہ یہ ہے کہ اگر وہ درخواست کریں تو اسلامی احکام کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ انہیں ان کے قاضیوں کے پاس بھیج دیا جائے تا کہ ان کے مذہب کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے ، اب رہی یہ بات کہ مسلمان قاضی ان کے مذہب کے مطابق، جو ہمارے عقیدہ کے مطابق تحریف شدہ اور منسوخ شدہ مذہب ہے، فیصلہ کرے اور اسی کو صحیح سمجھے تو اس طرح کی کوئی چیز نہ تو دلیلوں ہی سے استفادہ ہوتی ہے اور نہ ہی بزرگوں کے فتووٴں سے ثابت ہے، مذکورہ مشکل سے بچنے کے لئے جو آپ نے بیان کی ہے، فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ان ہی میں سے کوئی نیک قاضی ان کے مذہب کے احکام کے مطابق لیکن اسلامی حکومت کے زیر نظر، فیصلہ کرے، اور مزید دقّت کی مراعات اور عدالت وانصاف قائم کرنے کے لئے، پہلے ان کے مذہب کے احکام، ماہرین سے استفادہ کرکے، قانون کی شکل میں پاس کئے جائیںاور بعض موارد (شخصی حالات) کے ذیل میں، ترتیب دیئے جائیں تاکہ کسی طرح سے بھی ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے ۔

خود مجرم کا حد جاری کرنا

کیا زناءِ محصنہ اور لواط کرنے والا خود کو قتل کرسکتا ہے؟

حاکم شرع کے حکم کے ذریعہ ہی سزا دی جانی چاہیے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ گناہ گار، حاکم شرع کے پاس جاکر اپنے گناہ کا اعتراف کرے بلکہ فوراً توبہ کرسکتا ہے اور نیک اعمال کے ذریعہ اپنے ماضی کی کسر پوری کرسکتا ہے اور اس طرح سے خود کو سزا سے بچا سکتا ہے ۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی