مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

اگر وارث بہن کے بچّے اور چچا زاد ہوں

مرحوم زید کے وارثوں میں، ایک بھانجا جو اس کی ماں جائی بہن کا بچہ ہے، اور تین چچازاد بھائی ہیں جو با حیات ہیں، مرحوم زید کی میراث کیسے تقسیم کی جائے گی؟

جواب: بھانجہ کے ہوتے ہوئے، چچا زاد بھائیوں کو میراث نہیں ملے گی اور اگر دوسرا کوئی وارث نہیں ہے تو تمام مال اسی بھانجہ (یا بھانجی) کو دیا جائے گا ۔

اگر وارث بہن کے بچّے اور چچا زاد ہوں

مرحوم زید کے وارثوں میں، ایک بھانجا جو اس کی ماں جائی بہن کا بچہ ہے، اور تین چچازاد بھائی ہیں جو با حیات ہیں، مرحوم زید کی میراث کیسے تقسیم کی جائے گی؟

جواب: بھانجہ کے ہوتے ہوئے، چچا زاد بھائیوں کو میراث نہیں ملے گی اور اگر دوسرا کوئی وارث نہیں ہے تو تمام مال اسی بھانجہ (یا بھانجی) کو دیا جائے گا ۔

مطلّقہ ماں کیلئے بیٹے کی میراث

پچیس (٢٥) سال پہلے ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی، اس کے شوہر نے دوسری شادی کی اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی ہوئی پھر اس کو بھی بیس سال پہلے طلاق دیدی، اس کے بعد تیسری شادی کی ہے، پھر وہ شخص اور اس کا بیٹا، گاڑی کے گرنے اور اس میں دبنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان میں کون پہلے مرا ہے اور کس کا انتقال بعد میں ہوا ہے، اس لڑے کی ماں یعنی مطلقہ خاتون کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کا تو کوئی مال یا دولت نہیں ہے اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھا اور اپنے والد کے ساتھ رہتا تھا لہٰذا اس کو باپ کی میراث ملنا چاہیے، کیا اس کو میراث ملے گی؟ (ملحوظ رہے کہ اس مرحوم شخص کے وارث یہ ہیں: دو بیٹیاں، مرحوم کی ماں اور وہ زوجہ جو اس وقت اس کے گھر موجود ہے)؟

جواب: اس شخص کی میراث، اس کی دوبیٹوں، ایکسیڈنٹ میں مرنے والا بیٹا، اس شخص کی ماں اور اس کی زوجہ کو ملے گی، میراث کا آٹھواں حصہ، زوجہ کو، چھٹا حصّہ ماں کو اور باقی مال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا حس میں سے دو حصّہ، اس کے مرحوم بیٹے کے ہیں جو اس کی ماں کو ملیں گے (یہ اس وقت ہوگاکہ جب اس کی وارث فقط ماں ہو) اور باقی ایک ایک حصّہ اس کی بیٹیوں کو ملے گا ۔

مطلّقہ ماں کیلئے بیٹے کی میراث

پچیس (٢٥) سال پہلے ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی، اس کے شوہر نے دوسری شادی کی اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی ہوئی پھر اس کو بھی بیس سال پہلے طلاق دیدی، اس کے بعد تیسری شادی کی ہے، پھر وہ شخص اور اس کا بیٹا، گاڑی کے گرنے اور اس میں دبنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان میں کون پہلے مرا ہے اور کس کا انتقال بعد میں ہوا ہے، اس لڑے کی ماں یعنی مطلقہ خاتون کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کا تو کوئی مال یا دولت نہیں ہے اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھا اور اپنے والد کے ساتھ رہتا تھا لہٰذا اس کو باپ کی میراث ملنا چاہیے، کیا اس کو میراث ملے گی؟ (ملحوظ رہے کہ اس مرحوم شخص کے وارث یہ ہیں: دو بیٹیاں، مرحوم کی ماں اور وہ زوجہ جو اس وقت اس کے گھر موجود ہے)؟

جواب: اس شخص کی میراث، اس کی دوبیٹوں، ایکسیڈنٹ میں مرنے والا بیٹا، اس شخص کی ماں اور اس کی زوجہ کو ملے گی، میراث کا آٹھواں حصہ، زوجہ کو، چھٹا حصّہ ماں کو اور باقی مال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا حس میں سے دو حصّہ، اس کے مرحوم بیٹے کے ہیں جو اس کی ماں کو ملیں گے (یہ اس وقت ہوگاکہ جب اس کی وارث فقط ماں ہو) اور باقی ایک ایک حصّہ اس کی بیٹیوں کو ملے گا ۔

بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان میراث کو برابر تقسیم کرنے کی وصیت

دوسال پہلے میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا، جبکہ ان کی اولاد میں سے ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، مرحومہ کی میراث میں ایک جگہ ہے جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ تومان ہے ، ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ اس کو فروخت کرکے، سب بہن بھائی اپنا اپنا حصہ لے لیں، لیکن ہماری بہنیں مرحومہ والدہ کی اس مضمون کی تحریر پیش کرتی ہیں کہ میراث تقسیم کرتے وقت میرے بچے، بیٹی اور بیٹے کے حصہ میں کوئی فرق نہ رکھیں اور سب برابر طور پر حصہ وصول کریں ، اب جبکہ ہم سب اپنی ماں کی تحریر کے صحیح ہونے یعنی یہ کہ وہ تحریر ہماری والدہ کی ہے، یقین رکھتے ہیں، لیکن ممکن ہے کہ ہمارے بعض بھائی تہہ دل سے اس بات پر راضی نہ ہوں لہٰذا آپ فرمائیں کہ ہمارا شرعی وظیفہ کیا ہے؟

جواب: اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ماں کو اپنے مال کے ایک تہائی حصہ میں تصرف کرنے کا حق حاصل تھا، لہٰذا جو کچھ انھوں نے تمھاری بہنوں کے حصّوں کے بارے میں لکھا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اس لئے کہ مذکورہ فرق ایک تہائی حصّہ سے کم ہے، لہٰذا اس بناپر ماں کی وصیت کے مطابق عمل کریں ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان میراث کو برابر تقسیم کرنے کی وصیت

دوسال پہلے میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا، جبکہ ان کی اولاد میں سے ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، مرحومہ کی میراث میں ایک جگہ ہے جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ تومان ہے ، ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ اس کو فروخت کرکے، سب بہن بھائی اپنا اپنا حصہ لے لیں، لیکن ہماری بہنیں مرحومہ والدہ کی اس مضمون کی تحریر پیش کرتی ہیں کہ میراث تقسیم کرتے وقت میرے بچے، بیٹی اور بیٹے کے حصہ میں کوئی فرق نہ رکھیں اور سب برابر طور پر حصہ وصول کریں ، اب جبکہ ہم سب اپنی ماں کی تحریر کے صحیح ہونے یعنی یہ کہ وہ تحریر ہماری والدہ کی ہے، یقین رکھتے ہیں، لیکن ممکن ہے کہ ہمارے بعض بھائی تہہ دل سے اس بات پر راضی نہ ہوں لہٰذا آپ فرمائیں کہ ہمارا شرعی وظیفہ کیا ہے؟

جواب: اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ماں کو اپنے مال کے ایک تہائی حصہ میں تصرف کرنے کا حق حاصل تھا، لہٰذا جو کچھ انھوں نے تمھاری بہنوں کے حصّوں کے بارے میں لکھا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اس لئے کہ مذکورہ فرق ایک تہائی حصّہ سے کم ہے، لہٰذا اس بناپر ماں کی وصیت کے مطابق عمل کریں ۔

میراث کا حصّہ بخش دینے کے بارے میں شک کرنا

کشمیر کے ایک علاقہ میں مسلمانوں کے یہاں یہ دستور ہے کہ بیٹے اپنے والدین کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں اور جب والد کا انتقال ہوجاتا ہے تو ن کی تمام میراث بیٹوں کے اختیار میں آجاتی ہے، لیکن بیٹیاں جو اپنے شوہروں کے گھر میں رہتی ہیں،اپنے بھائیوں سے، باپ کی میراث کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنا حصہ بھائیوں کو بخش دیتی ہیں، بعض بہنیں جب تک زندہ رہتی ہیں اپنا حصہ اپنی خوشی سے بھائیوں کے اختیار میں دیتی ہیں لیکن بھائی بہنوں کے انتقال کے بعد، بہنوں کی اولاد بھائیوں کی اولاد سے یہ کہتے ہوئے اپنی الدہ کے حصہ کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ہماری ماں نے اپنے والد کی میراث میں اپنا حصہ آپ کے والد کو نہیں بخشا تھا بلکہ ان کے لئے مباح کردیا تھا، جبکہ بھائیوں کی اولاد کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی پھوپھیوں نے ان کے والد کو اپنا حصہ بخشدیا تھا یا ان کے لئے مباح قرار دیا تھا، اس صورت میں بھائیوں کی اولاد کا کیا وظیفہ ہے؟

جواب: اگر اس مال ودولت کا بھائیوں کے لئے، بخش دینا، ثابت نہ ہوسکے تو بہنوں کا حصہ اُن کے وارثوں کوضرور دینا چاہیے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

اگر وارث ، باپ ماں اور زوجہ ہو

مرنے والے شخص کے وارثوں میں، والدین اور ایک زوجہ ہے جس سے زفاف نہیں ہوا تھا یعنی فقط نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں، آپ سے گذارش ہے کہ وارثوں کے درمیان مرحوم کی میراث کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمائیں؟

جواب: زمین کے علاوہ مرحوم کے مال کا چوتھائی حصہ زوجہ کو ملے گا اور سارے مال کا ایک تہائی حصہ والدہ کو اور باقی سب کچھ باپ کو ملے گا، ہاں البتہ اگر مرنے والے کے دو بھائی یا چار بہنیں یا ایک بھائی اور دو بہنیں ہوں (اور ان سب کے والدین ایک ہوں) تو اس صورت میں چھ حصوں میں سے ایک حصہ ماں کا ہوجائے گا اور باقی جو چھ میں سے ساڑھے تین حصہ ہوتے ہیں، والد کو ملیں گے ۔

اگر وارث ، باپ ماں اور زوجہ ہو

مرنے والے شخص کے وارثوں میں، والدین اور ایک زوجہ ہے جس سے زفاف نہیں ہوا تھا یعنی فقط نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں، آپ سے گذارش ہے کہ وارثوں کے درمیان مرحوم کی میراث کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمائیں؟

جواب: زمین کے علاوہ مرحوم کے مال کا چوتھائی حصہ زوجہ کو ملے گا اور سارے مال کا ایک تہائی حصہ والدہ کو اور باقی سب کچھ باپ کو ملے گا، ہاں البتہ اگر مرنے والے کے دو بھائی یا چار بہنیں یا ایک بھائی اور دو بہنیں ہوں (اور ان سب کے والدین ایک ہوں) تو اس صورت میں چھ حصوں میں سے ایک حصہ ماں کا ہوجائے گا اور باقی جو چھ میں سے ساڑھے تین حصہ ہوتے ہیں، والد کو ملیں گے ۔

اگر شہید کے وارث ، اس کے باپ اور بیوی ہو

میرے بھائی، ١٢سال پہلے جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے، اس زمانے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شہید ہوگئے یا اسیر ہوئے ہیں، لیکن اب بارہ سال کے بعد ان کی شہادت مسلّم طور پر ثابت ہوگئی ہے اس شہید کی ایک بیوہ ہے لیکن بچہ کوئی نہیں ہے، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) اس شہید کی تنخواہ، بارہ سال کے عرصہ میں بطور کامل اور یکبارگی، ان کی بیوی کے ذریعہ وصول اور خرچ ہوئی ہے، کیا مذکورہ تنخواہ کی مکمل رقم، شہید کی زوجہ کا حق ہے، یا اس میں سے میراث کے عنوان سے، شہید کے والدین اور بہن بھائیوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟ب) اب جبکہ اُن کی شہادت یقینی طور پر ثابت ہوگئی ہے، ادارے کی جانب سے جس میں وہ کام کرتے تھے، کچھ رقم دی جارہی ہے، یہ رقم کس سے متعلق ہے یعنی یہ رقم کس شخص کی ہوگی؟ج) یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ سن ١٣٦١ شمسی میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کی اطلاع سن ١٣٧٢شمسی میں ملی ہے جبکہ اُن کے والدین ٦٦ میں مرحوم ہوگئے ہیں، کیا شہید اپنے والد کی میراث لیں گے یا والد کو شہید کی میراث ملے گی؟د) شہادت کے ثابت ہونے سے دوسال پہلے ان کی زوجہ نے 'بنیاد شہید'' نامی ادارے سے، طلاق کا تقاضا کیا تھا اور ادارے کے مدیر نے قوانین کے مطابق اس کو شرعی طلاق دے دی تھی، کیا اس صورت میں یہ زوجہ، اس شہید کی میراث لے گی؟ کیا اس رقم میں سے جو ادارے نے، دیت وغیرہ کے عنوان سے دی ہے، زوجہ کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور کیا اس دو سال کی مدّت میں، شہید کی تنخواہ لے کر خرچ کرنے کا حق رکھتی تھی یا نہیں؟

جواب: اس کی تنخواہ اس کی بیوی سے متعلق تھی، یعنی اس کی زوجہ کا حق ہے ۔جواب: تمام وارثوں سے مربوط ہے مگر یہ کہ وہ ادارہ مذکورہ رقم کے لئے کوئی خاص مصرف معین کرے ۔جواب: والد کو ان کے مال سے میراث ملے گی، لیکن حکومت سے جو رقم دی گئی ہے اس میں سے انھیں (والد کو) میراث نہیں ملے گی ۔جواب: چنانچہ حکومت یہ جان کر کہ طلاق ہوگئی ہے، اُسے تنخواہ دیتی تھی تب تو لینا جائز ہے لیکن اگر اس شرط پر تنخواہ دیتی کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، تب مذکورہ رقم وصول کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا لیکن بہرحال شہید کے مال سے میراث وصول کرے گی اور اسی طرح اس کی دیت کی رقم سے میراث لے گی ۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی