مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

زوجہ کا کنوے، قنات (قدرتی نالی) اور آب جاری سے میراث ملنا

کیا زوجہ، گہرے کنویں، قنات اور آب جاری میں سے میراث کی حقدار ہے؟

جواب: اگر پانی مباح زمین میں جاری ہو جیسے بڑی بڑی نہریںتو اس صورت میں زوجہ کو عین مال سے میراث ملے گی اور اگر بالفرض اس کا شوہر ہفتہ میں دو گھنٹہ پانی کا مالک تھا تو اس کا ۴/۱ ،یا ۸/۱حصہ زوجہ کو دیا جائے گا اور اگر قنات یا پانی کاکنواں موجود ہو تو زوجہ اس کے عین مال سے میراث نہیں لے گی، بلکہ کنویں اور اس قنات کے وسائل کی قیمت لگاکر زوجہ کو اس کی قیمت میں سے میراث دی جائے گی۔

میت کے مال کے تیسرے حصّہ کو مصرف کرنے کیلئے بہتریں راستہ وطریقہ

ایک شخص نے وصیت کی ہے: میرا ایک تہائی مال ایسی جگہ پر خرچ کیا جائے جو قرآن اور سنت کی نظر میں سب سے بہتر ہو اور اس سے کوئی چیز بہتر نہ ہو، اس سلسلہ میں آپ اپنا مبارک نظریہ بیان فرمائیں؟

جواب: دینی مدارس اور ان باتقویٰ اشخاص پر، خرچ کریں، جو ان مدارس میں تعلیم دینے، تمام خلائق کو تبلیغ اور راہنمائی کرنے نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضوں میں مصروف ہیں، اس لئے کہ حدیث میں وارد ہوا ہے: ''وما اعمال البر کلّہا والجہاد فی سبیل اﷲ، عند الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الّا کنفثہ فی بحر لجّی؛تمام نیک اعمال یہاں تک کہ راہ خدا میں جہاد کرنا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسا ہے، جیسے دریا کے مقالہ میں منھ کا پانی

متوفیٰ عورت کے وارثین کا مہر کا مطالبہ کرنا

اگر ایک خاتون کا مہر سفر حج مقرر تھا اور وہ خاتون حج کے سفر سے مشرف ہونے سے پہلے مرجاتی ہے، کیا اس کے وارث مہر کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟ ایک سفر حج کا کئی وارثوں کے درمیان تقسیم کا کیا طریقہ ہوگا؟

جواب: جی ہاں، مطالبہ کرسکتے ہیں اور مرحومہ کے انتقال کے وقت کا ایک حج کے سفر کا خرچ شوہر سے لیں گے اور خاتون کے تمام اموال کی طرح اس مال کو بھی ورثہ کے درمیان تقسیم کریں گے

وہ زمین جن کے ملکیت میں آنے کا طریقہ معلوم نہیں

کچھ زمین، ہمیں اپنے باپ داد کی جانب سے وراثت کے ذریعہ، حاصل ہوئی ہیں، لیکن وہ حضرات کیسے ان زمینوں کے مالک بنے، یہ بات ہمارے لئے واضح نہیں ہے، کیا ہم لوگ دوسرے مال کی طرح ان زمینوں کو بھی میراث کے قانون کے مطابق، تقسیم کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر تمہارے باپ داد نے، ان زمینوں کو آباد کیا تھا اور اس سے پہلے وہ زمینیں بنجر اور بے آباد تھیں تب تو میراث کے قانون کے مطابق وارثوں کو ملیں گی، اسی طرح اگر انھوں نے خریدا ہو تب بھی لیکن اگر کوئی سند ان زمینوں کے ماضی کے متعلق، موجود نہیں ہے اور کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے تب وہ زمین تمھارے باپ دادا کی ملکیت تھی اور میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

اگر وارثین تین ابوینی (ماں باپ دونوں کی طرف سے ) بہنیں ایک دادی اور ایک نانا ہوں

ایک شخص فوت ہوا، انتقال کے وقت اس کے ورثہ یہ ہیں: تین حقیقی بہنیں (جن کے ماں باپ ایک ہوں)دادی اور نانا، مذکورہ وارثوں کی میراث کے حصّے کا دقیق میزا ن کیا ہے اور کیسے ان میں تقسیم ہوگا؟

جواب: نانا، بھائی کے مثل اور دادی بہن کے مثل ہے ؛ اس بناپر مال کے چھ حصّے کئے جائیں گے، دو حصّے نانا کو دےے جائیں گے اور بقیہ چار حصے دادی اور تین بہنوں میں تقسیم ہوںہو گے ، ہر ایک کو ایک حصہ ملے گا۔

متوفیٰ کے ترکہ کا تمام قرضوںکی ادائیگی کے لئے کافی نہ ہونا

قرض خواہوں کے متعدد ہونے اور متوفی کی جائداد کا تمام قرضوں کے لئے ناکافی ہونے کی صورت میں ، کیا قرض اور قرض خواہوں کی نوعیت کے لحاظ (ذیل کی شرح کے ساتھ) حق تقدم اور اولویت کے قائل ہوسکتے ہیں:۱۔ زوجہ کا نفقہ اور مہر۔۲۔ کمسن اولاد کا نفقہ۔۳۔ وہ قرض جس کی بابت مقروض کا کچھ مال قرض دینے والے کے پاس بطور رہن اور وثیقہ رکھا ہوا ہے۔۴۔ گھر اور کاروبار کہ جگہ (دفتر وغیرہ) کے خادموں اور کام کرنے والوں کی مزدوری اور تنخواہ ۔۵۔ جو خرچ متوفی کے علاج میںاس کی موت سے پہلے ہوا ہے جیسے ڈاکٹروں کی فیس اسپتال کا خرچ دواخانہ کا قرض وغیرہ۔۶۔ حکومت اسلامی کے قرضے جیسے مالیات (ٹیکس) پانی، بجلی اور گیس وغیرہ کا بِل۔۷۔ شرعی قرضے (خمس وزکات) اور نماز، روزہ اور واجب حج کو ادا کرانے کے لئے اجیر بنانا۔۸۔ کفن ، دفن اور معمول کے مطابق ایصال ثواب کی مجالس اور فاتحہ وغیرہ کا اخراجات۔

جواب: معمول کے مطابق کفن اور دفن کے اخراجات سب پر مقدم ہےں، لیکن مجالس ترحیم وفاتحہ وغیرہ واجبات میں سے نہیں ہیں، اسی طرح کمسن بچوں کا نفقہ اگر پہلے نہ دیا گیا ہو، قرض میں شمار نہیں ہوتا، نماز وروزہ کے خرچ کو بھی میت کے اموال میں سے نہیں لے سکتے، باقی قرضے ایک صف میں قرار پاتے ہیں لہٰذا ان کو بہ نسبت ادا کیا جائے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی