مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

مطلّقہ ماں کیلئے بیٹے کی میراث

پچیس (٢٥) سال پہلے ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی، اس کے شوہر نے دوسری شادی کی اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی ہوئی پھر اس کو بھی بیس سال پہلے طلاق دیدی، اس کے بعد تیسری شادی کی ہے، پھر وہ شخص اور اس کا بیٹا، گاڑی کے گرنے اور اس میں دبنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان میں کون پہلے مرا ہے اور کس کا انتقال بعد میں ہوا ہے، اس لڑے کی ماں یعنی مطلقہ خاتون کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کا تو کوئی مال یا دولت نہیں ہے اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھا اور اپنے والد کے ساتھ رہتا تھا لہٰذا اس کو باپ کی میراث ملنا چاہیے، کیا اس کو میراث ملے گی؟ (ملحوظ رہے کہ اس مرحوم شخص کے وارث یہ ہیں: دو بیٹیاں، مرحوم کی ماں اور وہ زوجہ جو اس وقت اس کے گھر موجود ہے)؟

جواب: اس شخص کی میراث، اس کی دوبیٹوں، ایکسیڈنٹ میں مرنے والا بیٹا، اس شخص کی ماں اور اس کی زوجہ کو ملے گی، میراث کا آٹھواں حصہ، زوجہ کو، چھٹا حصّہ ماں کو اور باقی مال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا حس میں سے دو حصّہ، اس کے مرحوم بیٹے کے ہیں جو اس کی ماں کو ملیں گے (یہ اس وقت ہوگاکہ جب اس کی وارث فقط ماں ہو) اور باقی ایک ایک حصّہ اس کی بیٹیوں کو ملے گا ۔

میراث کا نہ ملنا

پچھتر (۷۵) سال پہلے دو بھائی بنام سید سلیمان وسید خداداد، زندگی بسر کرتے تھے باپ کی موت کے بعد انھوں نے اس کی جائداد اور ترکہ کو اپنے درمیان بطور مساوی تقسیم کرلیا، سید خداداد اپنی مرضی سے اپنے حصہ کو بیچے یا اجارہ پر دیئے بغیر، اس جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اس کا بھائی سید سلیمان ایک شخص بنام سید عبدالله (کہ جو اس زمانے میں اس علاقہ کا بانفود اور مشہور ومعروف شخص تھا ) اور دوسرے چند لوگوں کی مدد سے سید خداداد کے حصے کو بہ شرط بیع قطعی فروخت کردیتا ہے، سید خداداد جب اس چیز سے مطلع ہوتا ہے تو وہ اس علاقہ میں آتا ہے اور اپنے حصے کا مطالبہ کرتا ہے ، اس کا بھائی اور دیگر افراد اس کو دھمکاتے ہیں اور اس کا حق نہیں دیتے، اس وقت سے لے کر آج تک سید خداداد کے وارثوں میں سے کوئی بھی اپنا حق نہیں لے پایا، لہٰذا فرمائیں کہ کیا سید خداداد کے وارثین اپنے حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟

جواب: چنانچہ بھائیوں نے اس مرحوم کا حق ضائع کیا ہے لہٰذا اس کے وارثین شرعاً اپنا حق واپس لے سکتے ہیں۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

۔مشروط صورت میں وارثوں کو مال فروخت کرنا

میں نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ مال ودولت کو، ایک ہزار تومان کے عوض، اپنے بیٹے کو فروخت اور اس کے حوالہ کردیا تھا، لیکن اس شرط پر کہ جب تک میں زندہ ہوں میرے اختیار میں رہے، افسوس کہ میرے بیٹے کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا، کیا وہ مال ودولت واپس مجھے مل جائے گا یا میرے بیٹے کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا ؟

جواب: اگر آپ کا مقصد یہ تھا کہ ملکیت آپ کے بیٹے کی جانب منتقل ہوجائے (یعنی وہ مالک ہوجائے) اور اس کا منافعہ، تا حیات آپ کے اختیار میں رہے، تو اب اس کے مرنے کے بعد، وہ مال اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا اور آپ تاحیات اس کے منافعہ کے مالک رہیں گے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

زرتشت (آتش پرست) گھرانے کے مسلمان بیٹے کی میراث

میرے شوہر اور میرے بچّوں کے والد، مرحوم بہرام جو زرتشتی (مجوسی)مذہب پر تھے، انھوں نے انتقال سے ۵ سال پہلے ایک مسلمان عورت سے عقد متعہ کیا تھا اور نکاح نامہ میں خود کو مسلمان ظاہر کیا تھا ، اس عقد متعہ کے نتیجہ میں ان کے یہاں دو بچہ ہوئے، لیکن چونکہ ہمیں ا ن کے مسلمان ہونے کے بارے میں جس کا امکان ہے ، کوئی اطلاع نہیں تھی، نیز ہم نے کبھی انھیں دینِ مقدس اسلام کے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھا بھی نہیں تھا اور خود انھوں نے بھی اس سلسلہ میں کوئی بات ہم سے یا دوسرے لوگوں سے نہیں کی تھی، لہٰذا جب ان کا انتقال ہوا تو ہم نے ایک مجوسیہونے کی حیثیت سے اور مجوسی رسم ورواج کے مطابق انھیں زرتشتی کے قبرستان میں دفن کردیا جبکہ ان کی متعی بیوی اور دونوں بچوں نے بھی ہم سے ان کے سلسلہ میں مسلمان ہونے یا اسلام لانے یا عقد متعہ کے متعلق کوئی تذکرہ نہیں کیا حالانکہ وہ لوگ ان کے دفن، کفن اور دیگر تمام رسومات میں شریک تھے یہاں تک کہ بعد میں ہمیں ان کے عقد متعہ اور نکاح نامہ کے بارے میں اطلاع ملی کہ جس میں ان کا دین، اسلام تحریر کیا گیا تھا تب ہم نے اس موضوع کو اپنے ایک مسلمان پڑوسی کے سامنے رکھا جو اسلامی فقہ اور حقوق کے موضوع پر کافی مطالعہ اور تحقیق کرچکے ہیں، انھوں نے دین مقدس اسلام کے امتیازات اور بہت سی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اور یہ کہ دین مبین اسلام، حق اور تمام ادیان الٰہی سے برتر، کاملترین، بہترین اور آخری دین الٰہی ہے، ہمیں اسلام کی جانب تشویق دلائی اور اسلام کی دعوت دی اور آخر کار ان کی ہدایت، راہنمائی اور بے لوث کوششوں سے ہم لوگ، دین مقدس اسلام کے احکام کی تعلیم سے شرفیاب ہوئے اور مسلمان ہوکر شیعہ اثناعشری ہوگئے، مذکورہ مطالب نیز یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ان کے مسلمان ہونے پر کوئی مستند دلائل موجود نہیں ہیں جو ان مرحوم کے مسلمان ہونے کو ثابت کرسکیں، ہماری خواہش ہے کہ آپ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف)کیا وہ مرحوم مسلمان تھے؟ب) کیا ان کا مسلمان خاتون سے عقد کرنا صحیح تھا ؟ج) کیا وہ بچّے جو عقد متعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں، ان کی جائز اولاد ہیں اور ان کے ترکہ میں سے ان دونوں بچوں کو بھی میراث ملے گی یا نہیں ؟د) یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے کہ مرنے والے کا ابھی تک قرض ادا نہیں کیا گیا اور ابھی تک ان کی میراث بھی تقسیم نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کے ترکہ کا حساب کا ابھی تک یقینی حکم بھی جاری نہیں ہوا ہے کیا ہم لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں ان کے وارثوں میں شمار ہوں گے اور ان کے ترکہ میں سے ہمیں بھی میراث ملے گی یا نہیں؟

جواب:الف) اگر اس نے اسلام کا اظہار کیا ہے تو اس پر اسلام کے احکام جاری ہوں گے اگرچہ عبادت اور دینی وظیفوں کے انجام دینے میں کوتاہی کی ہے ۔ب) بظاہر صحیح تھا ۔ج) مذکورہ بچے جائز ہیں ان کو میراث ملے گی ۔د) مفروضہ مسئلہ میں کہ ابھی تک ترکہ تقسیم نہیں کیا گیا اور آپ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں تو میراث کے بارے میں اسلامی قانون کے مطابق آپ لوگوں کو بھی میراث ملے گی ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

اگر شہید کے وارث ، اس کے باپ اور بیوی ہو

میرے بھائی، ١٢سال پہلے جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے، اس زمانے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شہید ہوگئے یا اسیر ہوئے ہیں، لیکن اب بارہ سال کے بعد ان کی شہادت مسلّم طور پر ثابت ہوگئی ہے اس شہید کی ایک بیوہ ہے لیکن بچہ کوئی نہیں ہے، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) اس شہید کی تنخواہ، بارہ سال کے عرصہ میں بطور کامل اور یکبارگی، ان کی بیوی کے ذریعہ وصول اور خرچ ہوئی ہے، کیا مذکورہ تنخواہ کی مکمل رقم، شہید کی زوجہ کا حق ہے، یا اس میں سے میراث کے عنوان سے، شہید کے والدین اور بہن بھائیوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟ب) اب جبکہ اُن کی شہادت یقینی طور پر ثابت ہوگئی ہے، ادارے کی جانب سے جس میں وہ کام کرتے تھے، کچھ رقم دی جارہی ہے، یہ رقم کس سے متعلق ہے یعنی یہ رقم کس شخص کی ہوگی؟ج) یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ سن ١٣٦١ شمسی میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کی اطلاع سن ١٣٧٢شمسی میں ملی ہے جبکہ اُن کے والدین ٦٦ میں مرحوم ہوگئے ہیں، کیا شہید اپنے والد کی میراث لیں گے یا والد کو شہید کی میراث ملے گی؟د) شہادت کے ثابت ہونے سے دوسال پہلے ان کی زوجہ نے 'بنیاد شہید'' نامی ادارے سے، طلاق کا تقاضا کیا تھا اور ادارے کے مدیر نے قوانین کے مطابق اس کو شرعی طلاق دے دی تھی، کیا اس صورت میں یہ زوجہ، اس شہید کی میراث لے گی؟ کیا اس رقم میں سے جو ادارے نے، دیت وغیرہ کے عنوان سے دی ہے، زوجہ کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور کیا اس دو سال کی مدّت میں، شہید کی تنخواہ لے کر خرچ کرنے کا حق رکھتی تھی یا نہیں؟

جواب: اس کی تنخواہ اس کی بیوی سے متعلق تھی، یعنی اس کی زوجہ کا حق ہے ۔جواب: تمام وارثوں سے مربوط ہے مگر یہ کہ وہ ادارہ مذکورہ رقم کے لئے کوئی خاص مصرف معین کرے ۔جواب: والد کو ان کے مال سے میراث ملے گی، لیکن حکومت سے جو رقم دی گئی ہے اس میں سے انھیں (والد کو) میراث نہیں ملے گی ۔جواب: چنانچہ حکومت یہ جان کر کہ طلاق ہوگئی ہے، اُسے تنخواہ دیتی تھی تب تو لینا جائز ہے لیکن اگر اس شرط پر تنخواہ دیتی کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، تب مذکورہ رقم وصول کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا لیکن بہرحال شہید کے مال سے میراث وصول کرے گی اور اسی طرح اس کی دیت کی رقم سے میراث لے گی ۔

اگر شہید کے وارث ، اس کے باپ اور بیوی ہو

میرے بھائی، ١٢سال پہلے جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے، اس زمانے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شہید ہوگئے یا اسیر ہوئے ہیں، لیکن اب بارہ سال کے بعد ان کی شہادت مسلّم طور پر ثابت ہوگئی ہے اس شہید کی ایک بیوہ ہے لیکن بچہ کوئی نہیں ہے، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) اس شہید کی تنخواہ، بارہ سال کے عرصہ میں بطور کامل اور یکبارگی، ان کی بیوی کے ذریعہ وصول اور خرچ ہوئی ہے، کیا مذکورہ تنخواہ کی مکمل رقم، شہید کی زوجہ کا حق ہے، یا اس میں سے میراث کے عنوان سے، شہید کے والدین اور بہن بھائیوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟ب) اب جبکہ اُن کی شہادت یقینی طور پر ثابت ہوگئی ہے، ادارے کی جانب سے جس میں وہ کام کرتے تھے، کچھ رقم دی جارہی ہے، یہ رقم کس سے متعلق ہے یعنی یہ رقم کس شخص کی ہوگی؟ج) یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ سن ١٣٦١ شمسی میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کی اطلاع سن ١٣٧٢شمسی میں ملی ہے جبکہ اُن کے والدین ٦٦ میں مرحوم ہوگئے ہیں، کیا شہید اپنے والد کی میراث لیں گے یا والد کو شہید کی میراث ملے گی؟د) شہادت کے ثابت ہونے سے دوسال پہلے ان کی زوجہ نے 'بنیاد شہید'' نامی ادارے سے، طلاق کا تقاضا کیا تھا اور ادارے کے مدیر نے قوانین کے مطابق اس کو شرعی طلاق دے دی تھی، کیا اس صورت میں یہ زوجہ، اس شہید کی میراث لے گی؟ کیا اس رقم میں سے جو ادارے نے، دیت وغیرہ کے عنوان سے دی ہے، زوجہ کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور کیا اس دو سال کی مدّت میں، شہید کی تنخواہ لے کر خرچ کرنے کا حق رکھتی تھی یا نہیں؟

جواب: اس کی تنخواہ اس کی بیوی سے متعلق تھی، یعنی اس کی زوجہ کا حق ہے ۔جواب: تمام وارثوں سے مربوط ہے مگر یہ کہ وہ ادارہ مذکورہ رقم کے لئے کوئی خاص مصرف معین کرے ۔جواب: والد کو ان کے مال سے میراث ملے گی، لیکن حکومت سے جو رقم دی گئی ہے اس میں سے انھیں (والد کو) میراث نہیں ملے گی ۔جواب: چنانچہ حکومت یہ جان کر کہ طلاق ہوگئی ہے، اُسے تنخواہ دیتی تھی تب تو لینا جائز ہے لیکن اگر اس شرط پر تنخواہ دیتی کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، تب مذکورہ رقم وصول کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا لیکن بہرحال شہید کے مال سے میراث وصول کرے گی اور اسی طرح اس کی دیت کی رقم سے میراث لے گی ۔

میت کی میراث کے مال میں دوسری بیوی کا حصّہ

میرا نام فاطمہ ہے، میرے شوہر کا سن ٦٣ھ شمسی میں انتقال ہوگیا تھا، ملحوظ رہے کہ میں ان مرحوم کی دوسری بیوی ہوں، ان کے انتقال کے دو سال بعد ان کے بچوں نے ان کا مال میراث کے طور پر تقسیم کرلیا جبکہ مجھے میرا حق بالکل نہیں دیا گیا، اُن مرحوم کی دولت وثروت اور زمین جائداد درج ذیل شرح کے مطابق ہے:١۔ پستہ کے باغات، ٢۔تین رہائشی مکان جو اُن مرحوم کے نام ہیں ٣۔ٹریکٹر اور اس کا سازوسامان ٤۔کنواں، ٹیوب ویل اور اس کی عمارت، پانی بجلی کا کنکشن اور کنویں بنانے کے لئے حکومت سے اجازت نامہ ٥۔منقولہ مال اور گھر کی ضروریات کا سامان، مذکورہ مطالب کو ملحوظ رکھتے ہوئے برائے مہربانی درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) کیا مجھے ان چیزوں میں کوئی حق ہے اور اگر ہے تو اس کی کیا صورت ہے؟ب) یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس ١٣سال کی مدت میں مجھے میرا حق نہیں دیا گیا ہے کیا ان چند سال کی آمدنی میں بھی میرا حصہ ہے؟ج) کیا ان چیزوں کی میراث دینے کے لئے، ان کی دور حاضر کی قیمت معیار ہے، یا میت کے انتقال کے وقت کی قیمت اور اگر میت کے انتقال کے وقت کی قیمت معیار ہے تو کیا مہنگائی وغیرہ کا اس میں حساب ہوگا؟

جواب:الف) غیر منقولہ چیزوں (جیسے باغات وغیرہ) کا آٹھواں حصّہ اور اسی طرح منقولہ چیزوں کا آٹھواں حصّہ دونوں بیویوں کو ملے گا، جو برابر دونوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ب) منقولہ مال کی آمدنی میں سے ، مذکورہ مدّت کے منافعہ کو ادا کریں اور احتیاط یہ ہے کہ غیر منقولہ چیزوں کے بارے میں بھی ایسا ہی کریں (یعنی مذکورہ مدت کا منافعہ ادا کریں)ج) ادا کرتے وقت کی قیمت معیار ہے ۔

خاندان کی میراث اور دیت کا حکم جو ایک ساتھ فوت ہوا ہو

میرا بھائی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ایک کار حادثہ میں ایک ہی وقت انتقال کرگئے، اس کا فقط ایک بیٹا ہے اور اس کے علاوہ اس بیٹے کے دادی اور نانا، نانی بقید حیات ہیں، مرحومین کی دیت اور ان کا تمام مال کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟

جواب: اول فرض کریں گے کہ باپ سب سے پہلے مرا ہے، اس کی میراث منجملہ دیت بھی، ماں اور وونوں بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگی، ان میں سے جو حیات ہیں اپنے حصے کو لے لیں گے، وہ دو نفر جو مرگئے (یعنی زوجہ اور اس کا بیٹا) اس کا حصہ ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگا، جن کا ذکر بعد میں کریں گے، پھر ہم فرض کریں گے کہ پہلے بیوی مری ہے، اس کی میراث اور دیت باپ، ماں اور اس کے دو بیٹوں کو پہنچے گی جو ان میں سے زندہ ہیں وہ اپنا حصہ لے لیں گے اور وہ دونوں جو فوت ہوگئے (یعنی شوہر اور پہلا بیٹا) ان کا حصہ ان کے وارثین کو پہنچے گا پھر ہم فرض کریں گے کہ بیٹا سب سے پہلے مرا ہے، اس کی میراث اور دیت فقط اس کے باپ اور ماں کو پہنچے گی اور ان سے گذرکر ان ورثہ کی طرف منتقل ہوجائے گی جن کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا ہے، مسئلہ کی پیچیدگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اگر آپ عمل نہ کرپائیں کسی مقامی عالم دین سے پڑھوائیں اور عمل کریں۔

روایت میں ((عول)) کے معنیٰ

مہربانی فرما کر درج ذیل روایت: ”قال الشعبی:” ماراٴیت افرض من علیّ ولا احسب منہ و قدسئل عنہ علیہ السلام وہو علی المنبر یخطب، عن رجل مات وترک إمراتہ وابوین وابنتین، کم نصیب اٴمرئة؟ فقال(علیہ السلام) صار ثمنہا تسعاً، فلقبت بالمسئلة المنبریہ شرح ذلٰک: لابوین السدسان وللبنتین الثلثان، وللمراٴة الثمن عالت الفریضة فکان لہا ۳ من ۲۴ ثمنہا فلما صارت الی۲۷ صار ثمنہا تسعاً فان ثلاثة مِن۲۷ تسعہا ویبقی۲۴ لابنتین ۱۶ و۸ لابوین سَوَاء“ میں جملہٴ ”عالت الفریضہ“ کی وضاحت فرمائیں؟

جواب: مراد یہ ہے کہ شوہر کی میراث میں سے اس زوجہ کا حصہ جس کا شوہر صاحب اولاد ہو، حکم اوّلی کی بناپر ترکہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے لیکن جب والدین اور بیٹیوں کے حصے کے ساتھ جوڑا جائے اور سب کے حصوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو کل ۲۷ حصہ ہوتے ہیں (جب مال کے ۲۴ حصہ کئے جائیں تو ان میں سے دوتہائی ۱۶ حصہ ہوں گے اور چھ میں سے دو، ۸ حصّہ ہوں گے اور آٹھواں حصہ ایک تہائی حصہ قرار پائے گا اور ۱۶ و۸ و۳ سب کو ملاکر ۲۷ ہوجائیں گے) جب بھی ۲۷ حصّوں میں سے تین حصوں کو علیحدہ کیا جائے گاتو وہ کل مال کے نویں حصہ کے برار ہوگا، ا س حدیث کی تفسیر ووضاحت یہی تھی، لیکن تمام احادیث کو پیش نظر رکھ کر فقہی نظریات کے اعتبار سے، اس مسئلہ میں گفتگو کی گنجائش باقی ہے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی