دودھ پلانے والي عورت کے رشتہ دار شير خوار کے بھائي اور بہنوں کي محرم نہيں ہے
مسئلہ 2111: دودھ پلانے والي عورت شيرخوار کے بھائيوں کے لئے محرم نہيں ہوگي اسي طرح اس عورت کے رشتہ دار شيرخوار کے بھائي بہن کے محرم نہيں ہوں گے.
مسئلہ 2111: دودھ پلانے والي عورت شيرخوار کے بھائيوں کے لئے محرم نہيں ہوگي اسي طرح اس عورت کے رشتہ دار شيرخوار کے بھائي بہن کے محرم نہيں ہوں گے.
مسئلہ 2112:جس بچہ ماں يا دادي،ناني کسي لڑکي کو دودھ پلادے وہ بچہ اس لڑکي سے شادي نہيں کرسکتا اسي طرح اگر باپ کي بيوي نے باپ کا دودھ کسي لڑکي کو پلادے تو يہ شخص اس لڑکي سے شادي نہيں کرسکتا.
مسئلہ 2113:جس لڑکي کو کسي کي بہن نے يا بھاوج نے (بشرطيکہ دودھ بھائي کاہو)مکمل دودھ پلاديا ہو وہ لڑکي اس شخص کي محرم ہوجائے گي اور وہ اس لڑکي سے عقد نہيں کرسکتا اس طرح بھانجي نے يا بھيتجي نے يا نو اسي يا پوتي نے دودھ پلايا ہوتو اس لڑکي سے شادي نہيں ہوسکتي.
مسئلہ 2114:کوئي عورت اپنے نواسے يا نواسي کو کامل دودھ نہيں پلاسکتي ور نہ اس کي لڑکي اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گے اسي طرح و امادگي دوسري بيوي کے بچوں کو بھي دودھ نہيں پلاسکتي ہاں پوتے (پوتي) کو دودھ پلاسکتي ہے.
مسئلہ 2115:اگر کسي لڑکي کي سوتيلي ماں اس لڑکي کے شوہر کے بچے کو اس لڑکي کے باپ کے ذريعے پيدا ہو نيوالا دودھ پلادے تو وہ لڑکي اپنے شوہر پر حرام ہوجائيگي خواہ وہ بچہ اسي لڑکي کا ہو يا اس کي شوہر کي کسي اور بيوي کا ہو.
مسئلہ35: جارى پانى چاہےكُرسےكم ہوپهربهى نجاست كے ملنےسے نجس نهيں ہوتاہاں اگرنجاست سے رنگ بو,ياذايقہ بدل جائےتونجس ہوجاتاہے.
مسئلہ 43 :اگر بارش کسي عين نجس پر برسے اور اس کي چھينٹيں دوسري چيزوں پر پڑيں تو بناء بر احتياط واجب اس سے اجتناب کريں.
مسئلہ 1013 :سہوو نسیان یابھول کر بولنے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
مسئلہ1017۔ حمدوسورہ کی آیتوں،رکوع وسجودکے ذکراورتسبیحات کی تکرارمیں کوئی حرج نہیں ہے، اگر به نیت ثواب یا به قصد احتیاط هو لیکن اگر وسوسہ کی وجہ سے ہو تو اشکال ہے۔
مسئلہ1018۔ نمازی کوحالت نمازمیں کسی کوسلام نہیں کرناچاہئے لیکن اگر کوئی اس کوسلام کرے توجواب دیناواجب ہے، لیکن جواب سلام ہی کی طرح ہو۔ مثلا اگر اس نے کہا ہے السلام علیک تو نمازی بھی کہے السلام علیک اور اگر سلام کرنے والے نے سلام علیکم کہا ہے تو نماز ی بھی جواب میں سلام علیکم کہے حتی کہ اگر اس نے صرف سلام کہا ہے تو یہ بھی سلام کہے۔
مسئلہ 13: اگر کوئي ايسا مسئلہ درپيش آجائے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو احتياط پر عمل کرسکتا ہے اور اگر اس کا وقت گذر جانے کا خطرہ نہيں توصبر کرے. يہاں تک کہ کسي مجتہد تک رسائي ہو اور اگر مجتہد تک رسائي ممکن نہ ہو تو جس طرح صحت کا زيادہ احتمال ہو. اس پر عمل کرے. پھر بعد ميں(معلوم)کرے اگر مجتہد کے فتوي کے مطابق تھا تو صحيح ہے ورنہ چاہئے کہ دوبارہ بجالائے.
مسئلہ 17: اگر مجتہد کا فتوي بدل جائے تو جديد(نئے) فتوي پر عمل کرنا چاہئے اور پہلے فتوي کے مطابق جو اعمال بجالاچکا ہے (مثلا عبادات يا معاملات) وہ صحيح ہيں انہيں دوبارہ بجالانے کي ضرورت نہيں. اسي طرح اگر ايک مجتہد سے دوسرے مجتہد کي طرف رجوع کرے تو پہلے مجتہد کے فتوي کے مطابق بجالائے گئے اعمال کو دوبارہ بجالانے کي ضرورت نہيں ہے.