دعا و تعویز کا کام
کیا دعا (تعویز )لکھنا اور اسکے بدلے رقم دریافت کرنا جائز ہے ؟
جواب۔ اگر دعائیں شرعی اور آئمہ سے منقول ہوتی ہیں تو کوئی اشکال نہیں ہے ،لیکن خرافاتی اور پیشہور (تعویزوغیرہ) لکھنا جائز نہیں ہے
جواب۔ اگر دعائیں شرعی اور آئمہ سے منقول ہوتی ہیں تو کوئی اشکال نہیں ہے ،لیکن خرافاتی اور پیشہور (تعویزوغیرہ) لکھنا جائز نہیں ہے
مذکورہ کھیل سے جب جوئے کا عنوان ختم ہوجائے اور عام لوگوں کی نظر میں وہ ایک ورزش یا تفریح کی حیثیت سے معروف ہوجائے تب اس صورت میں، مال کی ہار جیت کے بغیر، اس سے کھیلنے میں اشکال نہیں ہے اور اس صورت کے علاوہ جائز نہیں ہے ۔
جواب: بعید نہیں ہے کہ ان کا حصہ برابر ہو لیکن احتیاط یہ ہے کہ آپس میں مصالحت کریں ۔
اگر قاتل نے مدّمقابل شخص پر حملہ آور ہونے کا گمان کرکے گولی چلائی ہے، تو قصاص نہیں ہے لیکن دیت ضرور ادا کرے ۔
جواب۔مجسمہ بنانا اور اس کیخرید و فروخت میں بہر حال اشکال ہے مگر اس صورت میں کہ جب کھیلونوں کی حیثیت رکھتے ہوں .
چنانچہ ،مزدور اور اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کا قصد ، بندوں کو ان کی ذمہ داریوں اورقرضوں سے نجات دلانا ہو، تو انہیں ثواب بھی ملے گا۔
متعہ کی عدت کو بھی پورا کرے، اس کے بعد دوسرے مرد سے شادی کرے لیکن اگر متعہ کے دوران دخول نہ ہو تو متعہ کی عدت کی ضرورت نہیں ہے ۔
جواب:۔ بظاہر منع کی گئی زینت کا حصّہ نہیں ہیں .
جواب: اگر دبائو میں آکر اعتراف کیا گیا ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اسی طرح اگر کسی ایسے جرم کے بارے میں اقرار کیا گیا ہو جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔
جواب: کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کے مخصوص لباس پہنے میں اگر کوئی قباحت نہ ہوتو پہن سکتے ہیں لیکن اگر گناہ کا باعث ہو تو حرام ہے
جواب: اگر متعدد قرآن ہوں تو ایسا کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے ۔
جواب ۔طبی مقاصد کے لئے گردے کی خرید و فروخت جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ شخص کا گردہ لینے کی اجازت کے بدلے رقم لیں خود گردے کے بدلے نہیں
جواب : ان کی نماز صحیح ہے اور اعاد ہ لازم نہیں ہے ۔
جواب: ”ذاتاً حرام ہے“ اس جملے سے مقصود اس مورد کو خارج کرنا ہے جو بالعرض حرام ہو، مثلاً عورت حیض کی حالت میں، یا رمضان المبارک کے دنوں میں حرام ہوجاتی ہے، یہ حرمت ذاتی نہیں ہے، لہٰذا اس کے ساتھ ہمبستری زنا میں شمار نہیں ہوگی؛ لیکن اگر آپس میں عقد نکاح نہ پڑھا ہو تو ذاتاً حرام ہے لیکن ”بغیر شاہد اور قسم․․․“ کے جملے سے منظور ، اشتباہ کا دعویٰ کافی ہے اور اس کو قسم پر آمادہ کرنا لازم نہیں ہے اور اگر صدق کا احتمال موجود نہ ہو تو قسم بے فائدہ ہے، اشتباہ اور غلطی کا دعویٰ چاہے حکم کے اعتبار سے ہو یا موضوع کی حیثیت سے برابر ہے۔