نقلِ خبر میں خواتین کے کہنے پر اعتماد کرنا
کیا نقل خبر یا حادثہ کے وقوع کی شہادت دینے میں عورت اور مرد کے درمیان فرق ہے؟ کیا یہاں پر بھی محکمہٴ عدالت میں معتبر گواہی کے احکام جاری ہوں گے؟
ان مسائل میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔
ان مسائل میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔
جب اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہو اور خبر کی ضرورت بھی ہو تو کوئی ممانعت نہیں ہے اور اس کو رشوت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
اگر واقعاً کوئی مسئلہ اہم اور مہم کی صورت اختیار کرلے اور جھوٹ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے مانند ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن چونکہ ممکن ہے کہ یہ حکم سوء استفادہ کا ذریعہ بن جائے اور خبرنگار کسی نہ کسی بہانے سے جھوٹی خبروں کو منتشر کریں، لہٰذا حتی الامکان اس کام سے پرہیز کیا جائے ۔
اگر اُن خبروں کا نشر کرنا امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور فحشا وفساد سے مقابلہ کا سبب ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
کسی بھی مسلمان کے رازوں کو فاش نہیں کیا جاسکتا؛ علاوہ اُن جگہوں کے جہاں اہم مصلحت درکار ہو۔
اس کا م کو رشوت کا نام نہیں دے سکتے ہیں؛ بلکہ یہ وہ حقّ الزحمہ ہے کہ جو مثبت، مفید اور مشروع کام کے عوض دیا جارہا ہے اور لینے والے اور دینے والے پر کوئی اشکال نہیں ہے ۔
بے حجاب اور بد حجاب عورتوں کے چہروں سے استفادہ کرنا اسلامی جمہوریہ کی شان نہیں ہے ۔
تہمت، جھوٹ وغیرہ کا سہارا لینا ایک مسلمان اور شریعت پر پائبند پرپائبند خبرنگار کے شایانِ شان نہیں ہے ۔
جی ہاں، ممکن ہے کوئی خبر پچاس فیصد یا اس سے کم سچّی ہو، لہٰذا صدق وکذب میں درجہ بندی پائی جاتی ہے ۔
تسامح اور مدارا کے مختلف معنی ہیں، اگر اس سے مراد اسلام کے دشمنوں کے ساتھ میل جول کرنا اور دشمن کو دوست کے لئے نقصان ہنچانے کا موقع فراہم کرنا ہے تو ایسی چیز جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر صحیح وسالم گروہ یا دیگر مذاہب کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی گذارنا ہو، اس طرح کہ مسلمانوں اور آئین اسلام کو ضرر پہنچانے کا سبب نہ بنے تو جائز ہے ۔
ہر طرح کی وہ خبر جو اسلامی معاشرے کے لئے مضر ہو، یا دشمنوں کی بیداری اس سے ان کے لئے سوٴ استفادہ کا سبب ہو، یا مسلمانوں کی صف میں تفرقہ پھیلانے کا باعث ہو، یا مسلمانوں میں وحشت وناامنی ایجاد کرے یا اس کے اور دوسرے نقصانات ہوں، تو ایسی خبروں کو نشر نہیں کرنا چاہیے، ایسے ہی جنگ کے زمانے میں بہت سی خبریں چھپائی جاتی ہیں، اور خطرہ ٹلنے کے بعد نشر کی جاتی ہیں، اسی مطلب کے مانند دیگر موارد میں بھی کاملاً ممکن ہے ۔
خبروں پر تبصرے کے لئے معمولاً قرائن وشواہد اور موجودہ حالات اور اسی طرح کے مسائل سے استفادہ کرنا چاہیے، اگر قطعی نتیجے تک پہونچیں تو بطور قطع اس کی قضاوت کی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ عنوان احتمالی کے اوپر تکیہ کرنا چاہیے، تاکہ خلاف واقع کوئی بات نہ کہی جائے ۔
اس پر توجہ رکھتے ہوئے کہ نظام، اسلام کی بنیاد پر استوار ہے لہٰذا ایسا تضاد متصوّر نہیں ہے، مگر ان لوگوں کے لئے جن کی یا تو مسائل اسلامی کی طرف توجہ نہیں ہے یا وہ مصالح نظام سے بے خبر ہیں ۔
جو چیز نظام کی تضعیف یا عام لوگوں کے ذہن کی تشویش کا سبب ہو اس سے پرہیز کیا جائے، اور جو چیز مفید یالا اقل فاقد ضرر ہو، اس کو منتشر کرسکتے ہیں ۔
وہ سچ کہ جو فتنہ پھیلائے یا کوئی مفسدہ ایجاد کرے، اس سے پرہیز کرنا چاہیے؛ چاہے اس کا جھوٹ مصلحت آمیز ہویا بیہودہ اور چونکہ یہ بات اہم اور مہم قاعدہ کے تحت آتی ہے تو جھوٹ کے نقصانات اور فوائد کا آپس میں مقایسہ کرنا چاہیے، قابل ذکر ہے کہ اگر جھوٹ کی جگہ توریہ سے کام لے سکتے ہیں تو توریہ مقدم ہے، توریہ سے مراد وہ بات ہے جس کے دو معنی ہوتے ہیں؛ سننے والا اُس معنی کو سمجھے جو خلاف واقع ہے اور اس پر یقین بھی کرلے اور مصلحت حاصل ہوجائے، لیکن کہنے والا دوسرے معنی کا تصور کرے کہ جو واقع کے مطابق ہے ۔