نامحرم عورت کی ہنسی کی آواز سننا
نامحرم عورت کی ہنسی کی آواز سننا اگر وہ گناہ کا باعث نہ ہو تو کیا حکم ہے اور گناہ کی صورت میں کیا حکم ہے ؟
جواب:۔جن موارد میں اس پر کوئی خاص گناہ مرتب نہ ہوتا ہو ان میں کوئی حرج نہیں ہے .
جواب:۔جن موارد میں اس پر کوئی خاص گناہ مرتب نہ ہوتا ہو ان میں کوئی حرج نہیں ہے .
جواب:اس کا طریقہ فقط طلاق ہے ،اور عدت کے دوران اس سے شادی کر سکتاہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ طلاق رجعی نہ ہو اور طلاق رجعی ہو تو عدت کے تمام ہونے کے بعد اس سے عقد متعہ کر سکتا ہے ۔
جواب:۔کوئی حرج نہیں کہ نان نفقہ فراہم کرنے کیلئے شوہر اپنی زوجہ کو اپنا وکیل بنادے اور زوجہ پر لازم ہے کہ اس شرط کے مطابق عمل کرے یہ اس صورت میں ہے کہ جب نان و نفقہ فراہم کرنے کیلئے شوہر اپنی زوجہ کو وکالت دیدے لیکن اگر نفقہ کے حق کو خود اُسی پر چھوڑ دے تو زوجہ اس کے مصرف کے سلسلے میں مختار ہے .
عمد کی صورتا میں اس نے بہت بڑا گناہ کیا ہے، اور اکثر اوقات جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ مرتد ہوجاتے ہیں، اور ان کو توبہ کرنا چاہیے اور اپنے اس بُرے کام کی آئندہ میں نیک کاموں سے تلافی کرنا چاہیے، لیکن سہو کی صورت میں اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے، لیکن دونوں ہی صورتوں میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے اور اس کا کفارہ نہیں ہے ۔
جواب: وہ ہر طرح کے وسائل جو عام طور پر حرام کام کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کا بنانا اور خرید و فروخت کرنا حرام ہے لیکن اگر کوئی آلہ مشترک (یعنیحرام و حلال دونوں میں استعمال کیا جاتا )ہے تو جائز ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلا شراب جب تک شراب ہے نجس اور حرام ہے مگر جب وہ سرکہ بن گئی تو پاک اور حلال ہو گئی۔ اسی طرح سے دوسرے تمام شرعی احکام ان کے موضوعات کے تابع ہوتے ہیں، موضوعات کے بدلنے کے ساتھ ہی ممکن ہے احکام بدل جائیں۔
جواب: کوئی اشکال نہیں ہے حلال ہے۔
جواب:حاکم شرع ، شوہر کے مال سے ، نفقہ ادا کرے اور اگر میسر نہ ہو اسے طلاق دینے کے لئے کہے اور اگر وہ طلاق نہ دے تو خود طلاق دیدے
چیک ایک حوالہ کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا جب تک چیک کی رقم وصول نہ نہیں ہوگی اس وقت تک خریدار، دکاندار کا مقروض ہے مگر یہ کہ دکاندار معاملہ کے وقت خریدار کی ذمہ داری کے بجائے، تیسرے شخص یعنی صاحب چیک کی ذمہ داری کو قبول کرلے ۔
جواب:۔معمول کی حد میں، علاج کرانا نفقہ کا حصّہ ہے .
جواب: ہرانسان تقلید کے سلسلے میں آزاد ہے اعلم مجتہد کی ضرور تحقیق کرے پھر اس کے بعدمجتہد کی تقلید کرے ۔
جواب:۔ چنانچہ آپ کواسلام قبول کئے ہوئے دو سال ہوگئے ہیں، تو آپ کے اسلام قبول کرنے کے وقت سے ہی، آپ کی عدّت شروع ہوگئی ہے اور اگرآپ کے شوہر اس بات سے آگاہ تھے اور آپ کی عدّت کے دوران انہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا ہے، تو آپ کی عدّت ختم اور آپ شوہر سے جدا ہوگئی ہیں اور طلاق کی بھی ضرورت نہیں ہے .
اگر عقد نکاح کے وقت عورت شرط رکھے کہ اگر شوہر سفر کرنے یا نشہ آور چیزوں کا عادی ہوجائے یا اس کو خرچ نہ دے ، تو اس ( عورت ) کو طلاق کا اختیار ہونا چاہئے ،تو یہ شرط باطل ہے لیکن جب یہ شرط رکھے کہ وہ شوہر کی جانب سے وکیل ہوگی کہ جب بھی یہ کام انجام دے تو بیوی خود کو طلاق دیدے یہ وکالت صحیح ہے اور اس طرح کے موارد میں اس کو حق حاصل ہوگا کہ خود کو طلاق دیدے ۔