لباس کے اوپر سے خواتین سے ہاتھ ملانا (مصافحہ کرنا)
کیا نامحرم سے، لباس کے اوپر سے(مثلا دستانے پہن کر) مصافحہ کرنے میں، کوئی اشکال ہے ؟
جواب:۔قصد ریبہ اور لذت کے بغیر، لباس کے اوپر سے (ہاتھ) چھونے میں اشکال نہیں ہے .
جواب:۔قصد ریبہ اور لذت کے بغیر، لباس کے اوپر سے (ہاتھ) چھونے میں اشکال نہیں ہے .
جواب:۔اس کام کو ترک کرنا بہتر ہے مگر ضرورت کے موارد میں .
فقط شوہر کے لئے زوجہ کا رقص کرنا جائز ہے اور باقی ہر قسم کا رقص کرنے میں اشکال ہے اور رقص ایک عام فہم بات ہے اور وہ خاص انداز میں تھرکنا ہے کہ جس کی باخبر لوگ تصدیق کریں کہ یہ رقص ہے، البتہ اگر اس کے رقص ہونے میں شک ہو تو حرام نہیں ہے ۔
رقص فساد کی جڑ ہےرقص کرنے میں اشکال ہے خواہ عورت عورت کے لئے رقص کرے یا مرد مردوں کے لئے رقص کرے یا عورت مردوں کے لئے البتہ عورت کا اپنے شوہر کے لئے رقص کرنے میںاشکال نہیں ہے
جواب : ناچ دیکھنے کا وہی حکم ہے جو خود ناچ اور رقص کرنے کا ہے
جواب : تالی بجانا اگر اسکے ساتھ دیگر حرام کام نہ ہو تو حرام نہیں ہے لیکن مسجد اور امام باڑوں میں اس کام سے پرہیز کریں
تالیاں بجانے میں کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن مسجد اور امام بارگاہوں میں یہ کام نہیں کرنا چاہیے ۔
جواب: مہم یہ ہے کہ ڈاکٹر کا قول اور اس کا یقین جج اور قاضی کے لیے اس طرح کے موارد میں حجت نہیں رکھتا اور حتی کے اگر خود قاضی کا یقین جو اس روش سے حاصل ہوتا ہے وہ بھی حجت نہیں رکھتا بلکہ محل اشکال ہے، لہذا ضروری نہیں ہے کہ ڈاکٹر اپنے یقین کو اس طرح کے موارد میں پیش کرے اور نتیجہ کے طور پر بچہ حکم ظاہری کے مطابق اس کے شوہر سے ملحق ہو جائے گا اور اس طرح کے احکام ظاہری سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی۔
جواب: صاحب اولاد ہونے کے لیے کسی غیر مرد کا نطفہ حاصل اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔ بچہ کی پیدائش مستند اور صحیح شرعی شادی کے ساتھ ہونی چاہیے لیکن اگر ایسا انجام پا جائے تو بچہ صاحب نطفہ افراد سے متعلق ہوگا اور جس عورت کے رحم میں اس نے پرورش پائی ہے وہ بھی اس بچہ کے لیے محرم ہے مگر اس سے میراث نہیں پائے گا ۔
جواب: جبکہ واقعاً اس کی جان کو خطرہ ہو اور بچہ بھی چار مہینے سے کم کا ہو تو سقط جنین جائز ہے اور اس کی دیت بیت المال کو ادا کرے گی ۔
زنا کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچہ کا حکم، پرورش اور اس کے اخراجات وغیرہ کے لحاظ سے (ان صورتوں کے علاوہ جہاں دلیل مستثنیٰ قرار دیتی ہے جیسے میراث کا مسئلہ) وہی ہے جو شرعی بچہ کا ہوتا ہے لہٰذا اس بناپر، محرم ہونے، اس کی پرورش، نگہداشت اور تربیت کے تمام احکام ولد الزنا کے بارے میں جاری ہوں گے فقط اس کو میراث نہیں ملے گی ۔
جواب: مذکورہ تینوں صورتوں میں (حمل ٹھرنے کے بعد) نطفہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ایسا کرنا عام طور پر حرام لمس و نظر کا باعث ہوتا ہے لہذا صرف ایسی صورت میں جائز ہے جہاں شدید ضرورت کا تقاضا ہو۔
جواب: الف۔ اگر بچہ کی خلقت کامل نہ ہوئی ہو تو سقط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ب۔ اگر بچے نے ابھی انسانی شکل و صورت اختیار نہ کی ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے اس کا سقط کرنا جائز ہے۔ج۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی بچ سکے گا تو ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ جس کو بچنا ہو وہ بچ جائے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہ ہو اور اگر حالات یہ ہوں کہ یا دونوں مریں گے یا صرف بچہ مرے گا تو اس صورت میں بچہ کو سقط کرانا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچائی جا سکے۔د۔ مذکورہ بالا جوابات سے اس کا جواب بھی روشن ہو چکا ہے۔
جواب: الف۔ اگر ایسا ہونا قطعی اور یقینی ہو تو نہ صرف یہ کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ہی مطابق احتیاط ہے۔ب: دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔
جواب: جہاں تک اس کے لیے ممکن ہو، اتنا کرنا واجب و ضروری ہے ۔