غریب ماں باپ کا نفقہ
کیا غریب ماں باپ کے اخراجات پورا کرنا ان کے بیٹوں کی ذمّہ داری ہوتی ہے ؟ یاان بیٹیوں پر بھی ہوتی ہے جن کی آمدنی ہے ؟
جواب:۔اس لحاظ سے، بیٹا و بیٹی میں کوئی فرق نہیں ہے اور غریب ماں باپ کا نفقہ دونوں کے اوپر واجب ہے .
جواب:۔اس لحاظ سے، بیٹا و بیٹی میں کوئی فرق نہیں ہے اور غریب ماں باپ کا نفقہ دونوں کے اوپر واجب ہے .
جواب:یہاں پرموضوع صادق آنے کیلئے حکم بھی عرف کے تابع ہے ، اگر اس جھینگا کو (سرطان)کہا جاتاہے تو حرام ہے اور اگر اس پر روبیان (جھینگا) کہا صادق آتا ہے تو حلال ہے ، اس موضوع کی تشخیص کے لئے آپ مچھیاروںکی طرف رجوع کر سکتے ہیں ۔
جواب:۔ضرورت کے مورد وموقعہ پر جائز ہے اور اگر لباس کے اوپر سے ہاتھ (نبض) پکڑ نا ممکن ہو تو یہی مقدم ہے .
جواب : پہلے مرجع کی تقلید پر باقی رہے ۔
معاملات کرانے والے ( پرا پرٹی ڈیلر ) کا حق شرعا ادا کریں۔ اور اس طرح سے اس کا حق ضایع نہیں کر سکتے۔
جواب: جائز نہیں ہے مگر یہ کہ ثابت ہوجائے وہ سامان وقف عام ہوا ہے ۔
جواب:۔اگر مذکورہ نکاح شروع سے ہی نابالغ لڑکی کی مصلحت میں نہیں تھا تو یہ نکاح، اصل سے ہی باطل ہے، اور اگر فرض کیا جائے کہ یہ نکاح لڑکی کی مصلحت میں تھا لیکن اب اس بچہ کے بالغ ہونے کا اس سے زیادہ انتظار کرنا، مذکورہ لڑکی کیلئے ، شدید مشقت اور نقصان کا باعث ہے، تو لڑکے کا ولی، اس لڑکی کی طلاق کے صیغہ جاری کرسکتا ہے اور اس کے بعد وہ جس سے چاہے شادی کر سکتی ہے .
جواب :۔ وطی شبہہ کی عدّت کی شروعات کا وہی وقت ہے جس وقت اسے وطی شبہہ کا علم ہو جائے، اور اس کی دلیل جیسا کہ کتاب ((عروة الوثقیٰ)) پرہمارے تعلیقہ میں بھی بیان ہوئی ہیں، اس باب میں جو روایات وارد ہوئی ہیں، ان کا ظاہر ، دلیل ہے (تعلیقہ میں رجوع فرمائیں) .
جواب:۔ دوسرے شخص سے شادی نہیں کرسکتی ، مگر یہ کہ اس کے مرنے کا یقین ہو جائے، یاپھر حاکم شرع کے پاس رجوع کرے تاکہ وہ اُس شخص کے بارے میں تفتیش کا حکم دے اور شرعی مراحل طے کرنے کے بعد اس خاتون کو طلاق دیدے .
جواب:۔ اس کا نکاح باطل ہے اور اگر مسئلہ کا علم رکھتا تھا تو وہ عورت ہمیشہ کے لئے اس پرحرام ہو جائے گی ۔
جواب : کیسٹوں یا دوسری مبتذل اشیاء سے شخصی یا عمومی استفادہ کرنا کہ جو فساد اخلاقی کا سبب بنے . بلا اشکال حرام ہے، یہاں تک کہ اس کا رکھنا اور اٹھانا بھی جایز نہیں اور اس سے تخلف کرنا تعذیر کا باعث ہے . البتہ ان مسائل کی روک تھام کے لئے بہت زیادہ ثقافتی کام انجام دینے چاہئے، تاکہ قوانین الٰہی صحیح صورت میں جاری ہو سکیں۔
مسلمان علماء و محققین شیعہ ہوں یا سنی سب اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے۔ سب کا عقیدہ ہے کہ جو کچھ موجودہ قرآن میں ہے سب وہی ہے جو آنحضرت (ص) پر نازل ہوا تھا۔ اس میں نہ ایک کلمہ کا اضافہ ہوا نہ کمی۔ البتہ بعض شیعہ سنی علماء جن کی تعداد بہت کم ہے قرآن مجید مین تحریف کے قائل ہیں۔ مشہور علماء اس قلیل تعداد پر کوئی توجہ اور اہمیت نہیں دیتے۔ پم نے اس بات کا ذکر تفسیر نمونہ اور انوار الاصول میں کیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے ان کا مطالعہ کریں۔
بہتر ہے کہ قرآن مجید کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں اور اس طرح کے کام سے پرہیز کریں۔
اگر زندہ مجتہد اعلم ہو تو اس کی طرف عدول کرنا صحیح ہے اوردوبارہ اس سے پلٹنا جایز نہیں ، اور اگر مردہ مجتہد، اعلم تھا تو ان اختلافی مسائل میں جن کو وہ اجمالا یا تفصیلا جانتا ہو تو زندہ مجتہد کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے ۔