سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

ڈاکٹر کا بعد میں پیش آنے والے ناقص حمل کی خبر دینا

اگر ڈاکٹر قطعی طور پر یہ کہ دے کہ آپ کے آئندہ بچے ناقص الخلقت ہوں گے تو مندرجہ ذیل سوالوں کا حکم کیا ہوگا:الف: کیا ڈاکٹر پر واجب ہے کہ وہ والدین کے سوال کرنے پر انہیں پوری اطلاع فراہم کرے؟ب: اگر وہ سوال نہ کریں تو کیا تب بھی ڈاکٹر کے لیے انہیں بتانا واجب ہے تاکہ وہ پرہیز کر سکیں اور اگر اس پر واجب نہیں ہے تو کیا اس کے لیے بتانا حرام ہے؟ج: اگر ڈاکٹر کو یقین ہو کہ وہ بتانے کی صورت میں ہر بار بچہ سقط کرا دیں گے تو یہاں پر اس کا کیا شرعی فریضہ ہے؟

جواب: الف۔ ڈاکٹر کے لیے بتانا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ نہ بتانے سے مریض کو کوئی بہت بڑا نقصان پہچ سکتا ہو۔ب: اس طرح کے موارد میں اگر مسئلہ نہایت اہم ہو تو ڈاکٹر کو چھپانا نہیں چاہیے ۔ج: ڈاکٹر کو اپنے شرعی فریضے پر عمل کرنا چاہیے اور اگر مریض خلاف ورزی کر رہا ہے تو ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہے ۔ البتہ ڈاکٹر اپنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل کرے گا ۔

ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرنا

اگر ڈاکٹر قطعی طور پر کہے کہ بچہ کے پیٹ میں رہنے کی صورت میں ماں کی جان جا سکتی ہے تو درج ذیل مسائل کا حکم کیا ہوگا:الف: کیا بچہ کا رحم مادر میں ختم کر دینا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچ سکے؟ب: کیا ماں کو اسی حالت پر چھوڑ دینا جائز ہے تا کہ اس بچہ کی ولادت ہو جائے اور ماں مر جائے؟ج: اگر ماں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور ماں اور بچے دونوں کے مرنے کا احتمال ہو تو حکم کیا ہوگا؟ (موت و حیات کا احتمال دونوں کے لیے مساوی ہو)د: اگر بچہ میں روح پڑ چکی ہو یا نہ پڑی ہو تو اس سے مسئلہ پر کوئی فرق پڑے گا؟

جواب: الف۔ اگر بچہ کی خلقت کامل نہ ہوئی ہو تو سقط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ب۔ اگر بچے نے ابھی انسانی شکل و صورت اختیار نہ کی ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے اس کا سقط کرنا جائز ہے ۔ج۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی بچ سکے گا تو ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ جس کو بچنا ہو وہ بچ جائے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہ ہو اور اگر حالات یہ ہوں کہ یا دونوں مریں گے یا صرف بچہ مرے گا تو اس صورت میں بچہ کو سقط کرانا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچائی جا سکے ۔د۔ مذکورہ بالا جوابات سے اس کا جواب بھی روشن ہو چکا ہے ۔

ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرنا

اگر ڈاکٹر قطعی طور پر کہے کہ بچہ کے پیٹ میں رہنے کی صورت میں ماں کی جان جا سکتی ہے تو درج ذیل مسائل کا حکم کیا ہوگا:الف: کیا بچہ کا رحم مادر میں ختم کر دینا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچ سکے؟ب: کیا ماں کو اسی حالت پر چھوڑ دینا جائز ہے تا کہ اس بچہ کی ولادت ہو جائے اور ماں مر جائے؟ج: اگر ماں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور ماں اور بچے دونوں کے مرنے کا احتمال ہو تو حکم کیا ہوگا؟ (موت و حیات کا احتمال دونوں کے لیے مساوی ہو)د: اگر بچہ میں روح پڑ چکی ہو یا نہ پڑی ہو تو اس سے مسئلہ پر کوئی فرق پڑے گا؟

جواب: الف۔ اگر بچہ کی خلقت کامل نہ ہوئی ہو تو سقط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ب۔ اگر بچے نے ابھی انسانی شکل و صورت اختیار نہ کی ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے اس کا سقط کرنا جائز ہے ۔ج۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی بچ سکے گا تو ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ جس کو بچنا ہو وہ بچ جائے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہ ہو اور اگر حالات یہ ہوں کہ یا دونوں مریں گے یا صرف بچہ مرے گا تو اس صورت میں بچہ کو سقط کرانا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچائی جا سکے ۔د۔ مذکورہ بالا جوابات سے اس کا جواب بھی روشن ہو چکا ہے ۔

دسته‌ها: حامله کے احکام

ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرنا

اگر ڈاکٹر قطعی طور پر کہے کہ بچہ کے پیٹ میں رہنے کی صورت میں ماں کی جان جا سکتی ہے تو درج ذیل مسائل کا حکم کیا ہوگا:الف: کیا بچہ کا رحم مادر میں ختم کر دینا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچ سکے؟ب: کیا ماں کو اسی حالت پر چھوڑ دینا جائز ہے تا کہ اس بچہ کی ولادت ہو جائے اور ماں مر جائے؟ج: اگر ماں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور ماں اور بچے دونوں کے مرنے کا احتمال ہو تو حکم کیا ہوگا؟ (موت و حیات کا احتمال دونوں کے لیے مساوی ہو)د: اگر بچہ میں روح پڑ چکی ہو یا نہ پڑی ہو تو اس سے مسئلہ پر کوئی فرق پڑے گا؟

جواب: الف۔ اگر بچہ کی خلقت کامل نہ ہوئی ہو تو سقط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ب۔ اگر بچے نے ابھی انسانی شکل و صورت اختیار نہ کی ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے اس کا سقط کرنا جائز ہے۔ج۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی بچ سکے گا تو ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ جس کو بچنا ہو وہ بچ جائے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہ ہو اور اگر حالات یہ ہوں کہ یا دونوں مریں گے یا صرف بچہ مرے گا تو اس صورت میں بچہ کو سقط کرانا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچائی جا سکے۔د۔ مذکورہ بالا جوابات سے اس کا جواب بھی روشن ہو چکا ہے۔

ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرنا

اگر ڈاکٹر قطعی طور پر کہے کہ بچہ کے پیٹ میں رہنے کی صورت میں ماں کی جان جا سکتی ہے تو درج ذیل مسائل کا حکم کیا ہوگا:الف: کیا بچہ کا رحم مادر میں ختم کر دینا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچ سکے؟ب: کیا ماں کو اسی حالت پر چھوڑ دینا جائز ہے تا کہ اس بچہ کی ولادت ہو جائے اور ماں مر جائے؟ج: اگر ماں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور ماں اور بچے دونوں کے مرنے کا احتمال ہو تو حکم کیا ہوگا؟ (موت و حیات کا احتمال دونوں کے لیے مساوی ہو)د: اگر بچہ میں روح پڑ چکی ہو یا نہ پڑی ہو تو اس سے مسئلہ پر کوئی فرق پڑے گا؟

جواب: الف۔ اگر بچہ کی خلقت کامل نہ ہوئی ہو تو سقط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ب۔ اگر بچے نے ابھی انسانی شکل و صورت اختیار نہ کی ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے اس کا سقط کرنا جائز ہے۔ج۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی بچ سکے گا تو ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ جس کو بچنا ہو وہ بچ جائے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہ ہو اور اگر حالات یہ ہوں کہ یا دونوں مریں گے یا صرف بچہ مرے گا تو اس صورت میں بچہ کو سقط کرانا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچائی جا سکے۔د۔ مذکورہ بالا جوابات سے اس کا جواب بھی روشن ہو چکا ہے۔

دسته‌ها: حامله کے احکام

ملزموں پر پولیس کا گولی چلانا

اگر پولیس کا کوئی سپاہی کسی مجرم کا تعاقب کرتے وقت مجرم کی طرف گولی چلادے اور مجرم قتل ہوجائے کیا یہ قتل عمدی ہے یا مشابہ عمد میںشمار ہوگا؟ اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟

اس مسئلہ کی چند صورتیں ہیں:پہلی صورت: یہ ہے کہ بھاگنے والے شخص پر چھوٹے جرم کا الزام ہے جس کی سزا تعزیر ہوتی ہے، اس صورت میں ہوائی فائر یا پیروں کی طرف گولی چلانے کے سوا کچھ اور کام نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ مذکورہ فرض میں وہ مجرم، جرم کے ثابت ہونے کے بعد بھی، اسی قسم (قتل) کی سزا کا مستحق نہیں ہے ۔دوسری صورت: یہ ہے کہ اس پر اس قسم کے جرم کا الزام ہے کہ جس کے مقابلہ میں شدید ردّ عمل نہ کرنے کی صورت میں، معاشرے کا پورا نظام درہم وبرہم ہوجائے گا اور پورے معاشرے کو خطرہ ہے، اس صورت میں آسان سے آسان تر (الاسہل فالاسہل) طریقہ اپنانا چاہیے اور درجہ بدرجہ اقدامات کئے جائیں اور اگر مثال کے طور پر ملزم کے پیروں کی طرف فائر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور سپاہی بھی ماہر تھا اس کے باوجود نشانہ خطا ہوگیا اور گولی ایسی جگہ لگ گئی جو اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی، اس صورت میں اس کا خون (قتل) ہدر ہے یعنی نہ اس کا قصاص ہے اور نہ دیت، اس لئے کہ جو کام حاکم شرع کی اجازت سے انجم دیا گیا ہو اور مد مقابل بھی اس کا مستحق ہو، اس کی کوئی دیت نہیں ہوتی ہے ۔تیسری صورت: یہ ہے کہ وہ جرم (جس کا اس پر الزام ہے) پورے نظام کے درہم وبرہم ہونے کا باعث نہ ہو لیکن بہرحال جرم سنگین ہو اور اگر ایسے جرم کی روک تھام نہ کی جائے (جیسے جنگ کی حالت میں دشمنوں کو اسلحہ سپلائی کرنا) اور حسّاس علاقوں میں اس کے خلاف اقدام نہ کئے جائیں تو جنگ کی سرنوشت اور نتیجہ تبدیل کئے بغیر ہی بہت زیادہ لوگ قتل ہوجائیں گے، اس صورت میں بھی سلسلہ وار گولی چلانا جائز ہے اور اگر اس کے نتیجہ میں وہ قتل ہوجائے تو اس کا خون ہدر ہے یعنی اس کی دیت یا قصاص نہیں (البتہ ان شرائط کے ساتھ جو اوپر بیان کئے گئے ہیں)۔

ہڈی کے ٹوٹنے سے عضو کا ناقص ہوجانا

اگر پنڈلی یا دوسرے عضو کی ہڈی غلط جڑجائے تو شریعت میں اس کی ایک خاص دیت کو مدنظر رکھا گیا ہے، اب اگر اس عارضہ کی وجہ سے عضو بھی ناقص ہوجائے تو کیا ہڈی کے معیوب جڑجانے کی معین دیت کے علاوہ ارش بھی لازم ہوگا؟

جواب: اگر عضو کا ناقص ہوجانا ایسا ہو کہ جو معمولاً ہڈی کے ٹوٹنے کی وجہ سے ہو ہی جاتا ہے تو اس کا ارش نہیں ہے، لیکن اگرہڈی ٹوٹنے اور اس کے غلط جڑنے کے علاوہ کوئی اضافی چیز ہوجائے تو اس کے لئے ارش ہے۔

دسته‌ها: ارش
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت